’’منچھر‘‘ جدائی کی کتھا

آرٹس کونسل کے بلوچ پروگرام روکنے کے رویئے پر مذمت شاید میرے بلوچستان کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکے۔

Warza10@hotmail.com

منچھر میرا دکھ درد اور بے چینی کیوں ہے، میں منچھرکی اداسی کو کیوں شدت سے محسوس کرتا ہوں، شاید اس کی وجہ میری جنم بھومی منچھرکی آغوش میں بستا میرا گاؤں''دادو'' ہو یا میری کوکھ ماں کی جدائی کی شدت مرے بیتے دنوں کی یاد دلا رہی ہو۔

میں شاید اپنی جنم بھومی کو سیراب کرنے والی ''منچھر'' کو شہرکی چکا چوند میں بھلا بیٹھا ہوں یا شاید میرے وجود کے وجدان کو مہمیز کرنے اور اس کو جگانے کا کام میرے گاؤں کے سنگی ساتھی منظور نے ناول''منچھر'' لکھ کر سر انجام دیا ہو، وجہ کوئی بھی ہو یہ طے ہے کہ انسان اپنی نال گڑھی جگہ کی جانب ہی لوٹتا ہے۔ سو مجھے بھی منچھر ذریعے اپنے گاؤں ہی لوٹنا پڑا ہے۔

میرے سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی کا آرٹس کونسل اور وہاں سندھ کی تہذیب و ثقافت اور مھران سُروں میں رچا بسا ''سندھ لٹریری فیسٹیول'' مجھے اس جگہ کے اس ابتدائی دور میں لے گیا جب یہاں کی بنیاد رکھنے میں روشن خیال اور ترقی پسند نظریے کے مارکس وادی فیض احمد فیض اور زیڈ اے بخاری نے سندھ کی ثقافت اور تہذیب کو سینچنے اور اسے عام فرد کی پہنچ بنانے کا عہد کیا تھا ، آرٹس کونسل کی زیبائش اور اسے غیر تخلیقی رجحانات سے زیادہ عام فنکارکی گذر سفرکا نشان بنانا تھا ، ثقافتوں کی منڈلی اور اظہارکی آزادی کا وہ مرکز بنانا تھا جس میں نمود ونمائش اور سرمایہ دارانہ مفاد کا نیکالا کرنا تھا،آمرانہ سوچ کے سائے سے آرٹس کونسل کو بچانا تھا، مگر بھلا ہو اس مزاج اور آمرانہ سوچ کا کہ ایسا نہ ہو سکا ۔

آرٹس کونسل کے بلوچ پروگرام روکنے کے رویئے پر مذمت شاید میرے بلوچستان کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکے۔ بلوچستان کی طرح میرا ''منچھر'' بھی اپنے کہلائے جانے والی سرکار کی بے اعتنائی اور لاپرواہی پر ماتم کناں ہے، منچھر غیروں سے کیا شکوہ کرے ''منچھر'' تو اپنوں کے لگائے گئے زخموں سے لہو لہان ہے، منچھر کو دکھ ہے کہ اس کے وجود سے سیراب ہونے والے افراد اپنے طبقے کو بدلنے اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی ایسی دوڑ میں جت چکے ہیں، جس سے وہ منچھر کو دن بدن زخم آلودہ کرکے تحریر اور تقریر سے بچانے پر لگے ہوئے ہیں مگر منچھر کی زندگی کی توانائی کے لیے نہ اپنے بدلتا طبقے کی سوچ تبدیل کرنا چاہتے اور نہ وہ عملی جدوجہد سے منچھرکو نئی زندگی فراہم کرنا چاہتے ہیں یہ دکھ مجھے اور منچھر کے وجدان کو کھوکھلا کر رہا ہے، مگر سرکار اپنے وڈیرانہ مزاج کی رو میں منچھر سے لاپرواہ ہے ۔

جب کہ منچھر کے رہو اسی اپنے طبقے تبدیل کرنے کے دھوکے میں منچھر کے احساس کو کچلے جارہے ہیں۔ دل بھر آتا ہے جب سوچتا ہوں کہ وہ میرے لطیف سائیں کے سر سورٹھ اور سرکلیان کی سکھ شانتی ہی تو ہوتی ہوں گی جو بدیسی سائیبیریا کے پرندوں کو اپنی مٹھاس کے سر سارنگ میں محوکرکے ''منچھر'' کی جانب روانگی پر مجبورکرتی ہوگی اور شاید کہ موزارٹ Mozart کی موسیقی کے 82 سروں کے آہنگ منچھر کے سروں میں مچلتے پاکر بھانت بھانت کے پرند ''منچھر'' کے شیدائی ہوتے ہوں گے۔

منچھر کی اسی تاثیر نے منچھرکی کہانی کے بیان میں منظورکو بھی آخرکار منچھر کی تھاہ کے سب سے قیمتی مانڑک کردار کی جانب مائل کیا جو منچھر ناول کے پڑھنے والوں کے حواس پر چھایا ہوا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ منظور نے مانڑک کا کردار شعوری طور سے رکھا یا یہ ایک بے اختیاری کا حادثہ ہے، وجہ کوئی بھی رہی ہو مگر یہ طے ہے کہ مانڑک کی انمول تخلیقی اور تحریکی صلاحیتوں سے میری سندھو ہمیشہ سیراب ہوتی رہی، رہے گی اور سب کو پکارتی رہے گی، میرا یقین ہے کہ مانڑک کا کردار منچھر سے پھیلتا سندھو دریا کی اس خشکی تک بھی جائے گا ۔


جہاں انسان کبھی نہ کبھی اپنے تاریخی سائے چھوڑیں گے۔ شاہ لطیف کا سر سامونڈی اور منظورکے ناول منچھرکے تال میل سے سرکلیان کی مہورت کا نکلنا اور مانڑک کے دکھ،جدائی اور منچھرکی عقیدت میں ڈوبنے اور اسے اپنی حیات کا مرکزی نکتہ بنانا ، ایسا سنگم لگتا ہے جس پر وہ اپنے جائے کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ آپ جب شاہ لطیف کے سر سامونڈی والے احساس سے پُر انترا پر جائیں گے تو آپ کے اندر منظور تھہیم کے ناول منچھر کی کرافٹ اور منچھر ذریعے مانڑک کا قیمتی کردار اترتا جائے گا،آپ ناول پڑھتے وقت خود کو بے چینی سے منچھرکی موجوں کے حوالے کرنے میں بیتاب نظر آئیں گے،سب سکھ دکھ اور وجدان کے سارے سُروں کا کارنس آپ کے وجود کو وجد میں ڈال دے گا، مانڑک کی لہروں سے عقیدت اور پیار کی اس سے بہتر کیا تفہیم کی جاسکتی ہے جو شاہ لطیف نے یہ کہہ کر کردی کہ

''وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر بادبان کو لے تو گئے ہیں ، جہاں سے کوئی لوٹتا ہی نہیں ، اے میری معذوری ! تجھے پردیس کے دکھ اور تنہائی کھا جائیں گے''

منظور تھہیم کا یہ کیسا المیہ ہے کہ انسانی اور تہذیبی جوڑ جک کا خواہاں ، جدائی کی کتھا بیان کرے اور اپنے سارے احساسات قاری کے سامنے رکھ دے ، منظورکی اس بہادری کی وجہ مارکسی نظریہ ہی رہی،کہ مارکسی نظریہ بھی شاہ لطیف کے ''سرکلیان'' کی عملی تفسیر تھا ، اسی وجہ سے منظور ہمیشہ ''سرکلیان'' کے سکھ شانتی کی تلاش میں کبھی ''پنھوں'' ذریعے بلوچستان میں بھٹکا تو کبھی سندھ کے ان گم شدہ کرداروں اور شہروں کو ڈھونڈا جو زمانے کی بے ہنگم نمود و نمائش میں بھلائے جانے پر مجبورکیے جا رہے ہیں۔

میرا اور منظورکی نال یا جنم بھومی ''دادو'' رہی جس کے گرد جوہی کا باشعور ماحول ہمیشہ سیاسی تحاریک کے لیے ایک روشن حوالہ رہا ، تبھی تو ہمارے دھرتی کے دکھ سانجھے اور امیدیں روشن ہیں۔

منظور نے اپنے سیاسی شعورکو اپنے گاؤں اور شہروں کی پگڈنڈیوں کے حوالے کیا اور اپنی ناولوں کو تاریخ سے جوڑتا ہوا ان کی اہمیت اور غرض کو''کرافٹس مینش شپ'' میں ڈھال کر افسانوی انداز میں قاری تک پہنچایا، ناول پنھوں کے مقابل گو منچھر کرافٹ کے اعتبار سے بہتر ناول ہے مگر اس منچھر میں منظور جب ''تھرڈ پرسن'' کے پیرائے میں کردار سے گفتگو کرتا ہے تو خود کو بھی اس میں شامل کر لیتا ہے جو ناول کے کرافٹ کے ضمن میں بہتر عمل نہیں ، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم منظور ایسے اہم ناول نگار سے بہتری کی امید نہ رکھیں۔

میری جنم بھومی دادو کے تعلقے بوبک کے ذکر میں مانڑک اور دادا لعل کی دردِ جدائی والی گفتگو دراصل انسانی تقسیم کا وہ چنگھاڑتا المیہ ہے جو اب تک ہمارے جسم سے رس رہا ہے، میرے بوبک کے دادا لعل ذریعے منظور نے اختلاف اور نفرت کے فرق کو جس دانشمندانہ انداز سے قاری تک پہنچایا ہے وہ صرف ایک مارکسسٹ ہی کا شیوہ ہو سکتا ہے، منظورکسی بھی قسم کی جدائی اور انسانی تقسیم کی مخالفت کے ساتھ ان روایات کا بھی وکیل ہے جو انسانوں کو جوڑنے کے عمل میں ان کی ساتھاری ہوں۔

منظور تھہیم کے ناولوں میں دھرتی کا تقدس اور اس سے جڑے رہنے کا عمل ایک ایسا مضبوط استعارہ ہے جو انسانی تقسیم کے کسی بھی عمل کے مخالف ڈٹ کرکھڑا ہے ، یہی ترقی پسند سوچ کے ادیب کا وہ مہان کردار ہے جو عمل کے سانچے میں ڈھل کر آج نہیں توکل ایک روشن خیال اور انصاف بر مبنی سماج تخلیق کرے گا ، بس منظور اپنے حصے کا کام تم نے پہلے بھی کیا ہے اور اب بھی کیے جاؤکہ ، میری خواہش ہے کہ تم منچھر کے قیمتی زرقون مانند سندھو دھرتی کے مانڑک کا کردار ادب میں ادا کرتے ہوئے سندھو کی سخن وری کے مزید در وا کرو۔''
Load Next Story