قرآنِ حکیم ایک عظیم معجزہ
جب تک یہ کلامِ مقدس اس دنیا میں موجود ہے اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی۔
قرآن پاک، رسول اﷲ ﷺ کا ایک دائمی معجزہ ہے اور اس میں اﷲ پاک نے نزول قرآن کے ساتھ ہی یہ چیلینچ دیا کہ اے کافرو! اگر تم کہتے ہوکہ یہ کلام پاک، کلامُ اﷲ نہیں تو پھر ایسا کرو تم اور تمہارے معبودانِ باطل سب مل کے اس کی مثل ایک سورت بنا کے لے آؤ، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔
یہ چیلینچ اﷲ پاک نے رہتی دنیا کے ہر اس انسان کو دیا ہے جو قرآنِ پاک میں شک کرتا ہے۔
قرآنِ پاک سے پہلے جتنی کتابیں بھی اتاری گئیں، کسی میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ ایسی کتاب لے کر آؤ لیکن اﷲ پاک نے قرآن حکیم کے لیے یہ فرمایا۔ مشرکین عرب کے لیے اسلام کو شکست دینے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ ایسا کلام بنا لاتے۔ وہ اہل زبان تھے، خاص طور پر مکے والے تو بڑے فصیح و بلیغ تھے۔
ان کی ایک ادبی انجمن آنحضرت ﷺ سے ڈیڑھ سو برس قبل قائم ہوچکی تھی، اس میں ہر قوم کے شعراء، دانش ور اور ادیب جمع ہوتے تھے اور اپنے قصیدے عوام کے سامنے پیش کرتے تھے۔ جس کا قصیدہ اچھا ہوتا وہ انعامات و اکرام سے نوازا جاتا۔ لیکن قرآن پاک کا یہ معجزہ ہے کہ عرب کے مایہ ناز شعراء، ادیب اور دانش ور بھی اس کی مثل سورت لانے سے عاجز آگئے۔ بالآخر انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ محمد ﷺ (نعوذباﷲ) ایک لوہار سے سیکھ کے آتے ہیں۔
اس لیے کہ مکہ مکرمہ میں ایک لوہار رہتا تھا جو آپ ﷺ کی باتیں دل لگا کے سنا کرتا تھا۔ آپ ﷺ کبھی کبھار اس کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ کے بعض کافروں نے اس کو بنیاد بنا کر یہ مشہور کرنا شروع کردیا کہ آنحضرت ﷺ یہ قرآنِ پاک اس لوہار سے سیکھتے ہیں۔ حالاں کہ وہ لوہار عجمی تھا اور قرآنِ پاک کو اﷲ پاک نے عربی جیسی فصیح و بلیغ زبان میں نازل فرمایا۔ ان کے اس اعتراض کا جواب اﷲ پاک نے قرآنِ پاک میں اس طرح دیا۔ مفہوم: ''اور (اے پیغمبرؐ!) ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ (آپ کے بارے میں) یہ کہتے ہیں کہ ان کو تو ایک انسان پڑھاتا ہے۔
(حالاں کہ) جس شخص کا یہ حوالہ دے رہے ہیں، اس کی زبان عجمی ہے، اور یہ (قرآن کی زبان ) صاف عربی زبان ہے۔ جو لوگ اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے، ان کو اﷲ ہدایت پر نہیں لاتا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اﷲ پر جھوٹ تو وہ لوگ باندھتے ہیں جو اﷲ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔'' (سورۃ النحل)
آج یہ بات مسلمان ہی نہیں بل کہ کافر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جو خاتم النبیین ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اس کی ہر سورت اور ہر آیت معجزہ ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمّہ اﷲ پاک نے خود اٹھایا ہے۔ نبی پاک ﷺ کے عہد رسالت سے لے کر آج تک کوئی لمحہ کوئی ساعت ایسی نہیں بتلائی جاسکتی کہ جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔ یاد رکھیے! آٹھ دس سال کا بچہ جسے اپنی مادری زبان میں ایک چھوٹا سا رسالہ یاد کرانا دشوار ہے وہ بچہ ایک اجنبی زبان کی ایک ضخیم کتاب کس طرح یاد کرکے سنا دیتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی مجلس میں یا نماز تراویح میں کسی قاری، عالم، حافظ سے قرآن پاک کے کسی بھی سپارے کی کوئی آیت بھول جائے یا چھوٹ جائے تو فوراً حافظ بچہ بول اُٹھتا ہے اور اس کے بتانے کی وجہ سے ہی قاری آگے چل سکتا ہے۔ یہ بھی اس کلام پاک کا ایک معجزہ ہے۔ اسی طرح دنیا کی کوئی کتاب اگر انسان ایک مرتبہ پڑھ لے تو دوسری دفعہ پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن قرآن پاک رب العالمین کی وہ کتاب ہے کہ جس کے پڑھنے سے ہر بار نیا سُرور و جذبہ بیدار ہوجاتا ہے اور قلب کو اطمینان و سکون ملتا ہے۔
اس کلام کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ جب تک یہ کلام ِ پاک اس دنیا میں موجود ہے اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی۔ قربِ قیامت کے نزدیک اﷲ پاک قرآن پڑھنے والوں کو اور پڑھانے والوں کو اُٹھا لے گا پھر قرآنِ پاک کے اوراق سے سیاہ حروف اُٹھائے جائیں گے، اس کے بعد اﷲ پاک اسرافیل ؑ سے یہ فرمائے گا کہ اسرافیل! اب اس دنیا میں میرا کلام (قرآن پاک) نہیں رہا اور اس کے پڑھنے والے بھی نہیں رہے اور پڑھانے والے بھی اب تُو صور پھونک دے۔ اسرافیل ؑ صور پھونکیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ جو لوگ اس قرآن پاک سے جُڑے اﷲ پاک نے انہیں پستیوں سے اٹھایا اور بلندیوں پر لے گیا اور جو لوگ اس قرآن پاک سے کٹ گئے اﷲ پاک نے انہیں بلندیوں سے پستیوں میں پھینک دیا۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ اس کتاب (قران مجید) کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو بلند مرتبہ (اونچا) کرتا ہے اور کتنے ہی لوگوں کو پست اور ذلیل کرتا ہے۔'' اس حدیث کی تشریح یہ ہے کہ یہ قرآن مجید اﷲ پاک کی آخری کتاب ہے۔
اس میں دنیا اور آخرت کی کام یابی کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ اﷲ پاک کا یہ فیصلہ ہے کہ جو لوگ خواہ وہ کسی بھی نسل سے ہوں، ان کا کوئی بھی رنگ اور کوئی بھی زبان ہو، قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت دونوں میں اُونچا مقام عطا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو قوم یا لوگ اس پر عمل نہیں کرتے اگرچہ وہ بلندیوں کے آسمان پر بھی ہوں، نیچے گرا دیے جاتے ہیں۔ دنیا کی پوری تاریخ اس حدیث پاک کی سچائی کی گواہ اور اﷲ پاک کے اس فیصلے کی آئینہ دار ہے۔
یہ چیلینچ اﷲ پاک نے رہتی دنیا کے ہر اس انسان کو دیا ہے جو قرآنِ پاک میں شک کرتا ہے۔
قرآنِ پاک سے پہلے جتنی کتابیں بھی اتاری گئیں، کسی میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ ایسی کتاب لے کر آؤ لیکن اﷲ پاک نے قرآن حکیم کے لیے یہ فرمایا۔ مشرکین عرب کے لیے اسلام کو شکست دینے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ ایسا کلام بنا لاتے۔ وہ اہل زبان تھے، خاص طور پر مکے والے تو بڑے فصیح و بلیغ تھے۔
ان کی ایک ادبی انجمن آنحضرت ﷺ سے ڈیڑھ سو برس قبل قائم ہوچکی تھی، اس میں ہر قوم کے شعراء، دانش ور اور ادیب جمع ہوتے تھے اور اپنے قصیدے عوام کے سامنے پیش کرتے تھے۔ جس کا قصیدہ اچھا ہوتا وہ انعامات و اکرام سے نوازا جاتا۔ لیکن قرآن پاک کا یہ معجزہ ہے کہ عرب کے مایہ ناز شعراء، ادیب اور دانش ور بھی اس کی مثل سورت لانے سے عاجز آگئے۔ بالآخر انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ محمد ﷺ (نعوذباﷲ) ایک لوہار سے سیکھ کے آتے ہیں۔
اس لیے کہ مکہ مکرمہ میں ایک لوہار رہتا تھا جو آپ ﷺ کی باتیں دل لگا کے سنا کرتا تھا۔ آپ ﷺ کبھی کبھار اس کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ کے بعض کافروں نے اس کو بنیاد بنا کر یہ مشہور کرنا شروع کردیا کہ آنحضرت ﷺ یہ قرآنِ پاک اس لوہار سے سیکھتے ہیں۔ حالاں کہ وہ لوہار عجمی تھا اور قرآنِ پاک کو اﷲ پاک نے عربی جیسی فصیح و بلیغ زبان میں نازل فرمایا۔ ان کے اس اعتراض کا جواب اﷲ پاک نے قرآنِ پاک میں اس طرح دیا۔ مفہوم: ''اور (اے پیغمبرؐ!) ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ (آپ کے بارے میں) یہ کہتے ہیں کہ ان کو تو ایک انسان پڑھاتا ہے۔
(حالاں کہ) جس شخص کا یہ حوالہ دے رہے ہیں، اس کی زبان عجمی ہے، اور یہ (قرآن کی زبان ) صاف عربی زبان ہے۔ جو لوگ اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے، ان کو اﷲ ہدایت پر نہیں لاتا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اﷲ پر جھوٹ تو وہ لوگ باندھتے ہیں جو اﷲ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔'' (سورۃ النحل)
آج یہ بات مسلمان ہی نہیں بل کہ کافر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جو خاتم النبیین ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اس کی ہر سورت اور ہر آیت معجزہ ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمّہ اﷲ پاک نے خود اٹھایا ہے۔ نبی پاک ﷺ کے عہد رسالت سے لے کر آج تک کوئی لمحہ کوئی ساعت ایسی نہیں بتلائی جاسکتی کہ جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔ یاد رکھیے! آٹھ دس سال کا بچہ جسے اپنی مادری زبان میں ایک چھوٹا سا رسالہ یاد کرانا دشوار ہے وہ بچہ ایک اجنبی زبان کی ایک ضخیم کتاب کس طرح یاد کرکے سنا دیتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی مجلس میں یا نماز تراویح میں کسی قاری، عالم، حافظ سے قرآن پاک کے کسی بھی سپارے کی کوئی آیت بھول جائے یا چھوٹ جائے تو فوراً حافظ بچہ بول اُٹھتا ہے اور اس کے بتانے کی وجہ سے ہی قاری آگے چل سکتا ہے۔ یہ بھی اس کلام پاک کا ایک معجزہ ہے۔ اسی طرح دنیا کی کوئی کتاب اگر انسان ایک مرتبہ پڑھ لے تو دوسری دفعہ پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن قرآن پاک رب العالمین کی وہ کتاب ہے کہ جس کے پڑھنے سے ہر بار نیا سُرور و جذبہ بیدار ہوجاتا ہے اور قلب کو اطمینان و سکون ملتا ہے۔
اس کلام کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ جب تک یہ کلام ِ پاک اس دنیا میں موجود ہے اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی۔ قربِ قیامت کے نزدیک اﷲ پاک قرآن پڑھنے والوں کو اور پڑھانے والوں کو اُٹھا لے گا پھر قرآنِ پاک کے اوراق سے سیاہ حروف اُٹھائے جائیں گے، اس کے بعد اﷲ پاک اسرافیل ؑ سے یہ فرمائے گا کہ اسرافیل! اب اس دنیا میں میرا کلام (قرآن پاک) نہیں رہا اور اس کے پڑھنے والے بھی نہیں رہے اور پڑھانے والے بھی اب تُو صور پھونک دے۔ اسرافیل ؑ صور پھونکیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ جو لوگ اس قرآن پاک سے جُڑے اﷲ پاک نے انہیں پستیوں سے اٹھایا اور بلندیوں پر لے گیا اور جو لوگ اس قرآن پاک سے کٹ گئے اﷲ پاک نے انہیں بلندیوں سے پستیوں میں پھینک دیا۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ اس کتاب (قران مجید) کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو بلند مرتبہ (اونچا) کرتا ہے اور کتنے ہی لوگوں کو پست اور ذلیل کرتا ہے۔'' اس حدیث کی تشریح یہ ہے کہ یہ قرآن مجید اﷲ پاک کی آخری کتاب ہے۔
اس میں دنیا اور آخرت کی کام یابی کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ اﷲ پاک کا یہ فیصلہ ہے کہ جو لوگ خواہ وہ کسی بھی نسل سے ہوں، ان کا کوئی بھی رنگ اور کوئی بھی زبان ہو، قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت دونوں میں اُونچا مقام عطا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو قوم یا لوگ اس پر عمل نہیں کرتے اگرچہ وہ بلندیوں کے آسمان پر بھی ہوں، نیچے گرا دیے جاتے ہیں۔ دنیا کی پوری تاریخ اس حدیث پاک کی سچائی کی گواہ اور اﷲ پاک کے اس فیصلے کی آئینہ دار ہے۔