نیٹو کنٹینرز کی سپلائی روک کرامریکی پالیسیوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا
نیٹو سپلائی روکنے کا مقصد امریکی پالیسیوں سے نفرت کااظہارکرنا تھا،سراج الحق کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال
خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر سراج الحق گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پشاور سے یہاں آئے تو روزنامہ ''ایکسپریس'' نے انہیں ایکسپریس فورم میں مدعو کیا۔ جہاں انہوں نے خیبر پختونخوا کی مخلوط حکومت کی کارکردگی ، دہشت گردی ، طالبان سے مذاکرات سمیت ملک کی سیاسی صورت حال پر تفصیلی اظہارخیال کیا ۔ ان کی گفتگو نذر قارئین ہے ۔
پاکستان اٹھارہ کروڑ عوام کا عظیم ملک اور اﷲ تعالی کی طرف سے ایک نعمت اور عطیہ ہے ۔ یہ ملک اپنے قیام سے اب تک پینسٹھ سالوں میں مختلف قسم کے مسائل و مشکلات کا شکارہے ۔ عوام ایک کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں ۔ ہر بار جب انتخابات ہوتے ہیں تو یہ امید بھی پیدا ہوتی ہے کہ عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے اور ان کی مشکلات اور تکلیفوں کا ازالہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا عوام یہ امید باندھتے تھے کہ اب ان کے دن پھر جائیں گے اور مہنگائی ، بیروزگاری اور لاقانونیت کے عذاب سے نجات مل جائے گی لیکن ہر الیکشن کے بعدان کی امیدیں دم توڑ دیتی رہیں اور انہیں ویسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا جو الیکشن سے پہلے کی ہوتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا ہمارے حکمرانوں نے اس سے بے وفائی اور غداری کی۔ 1973ء کا آئین متفقہ تھا اس پر بھی عمل نہیں ہوا ۔ جس کے نتیجے میں 1971 ء میں پاکستان دولخت ہوگیا اور آج 2014 ئمیں بھی اسے اسی قسم کے خطرات لاحق ہیں ۔ ملک چاروں طرف سے محاصرے میں ہے ۔ یہاں جمہوریت بھی یرغمال ہے، اٹھارہ کروڑ عوام بھی اور اسمبلیاں بھی یرغمال ہیں ۔ ایک دن کے لیے بھی عوام کے احساسات کی ترجمان حکومت نہیں آئی ۔ چنانچہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ یوں ملک معاشی طورپر مالدار اور غریب دو طبقوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا ہے ۔
آج ملک کو سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کی صورت میں درپیش ہے ۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کی شکل میں ہم ایسی فصل کاٹ رہے ہیں جس کا بیج ہم نے خود بویا تھا ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق عمل ہو رہا ہے ۔1400کلومیٹر لمبا بارڈر جو مکمل محفوظ ہوا کرتا تھا ایک فوجی بھی وہاں نہیں ہوتا تھا لیکن آج فوج کا ایک بڑا حصہ تعینات ہے ۔کراچی سے نوشہرہ تک مسائل ہی مسائل ہیں ۔ اس وقت ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نوترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے مفادات کی عینک سے اسے دیکھنا ہوگا امریکی عینک سے نہیں ۔ نوازشریف ابھی تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکے ہیں جبکہ یہاں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو بلا کر ان سے مشاورت کرتی اوران سے تجاویز حاصل کرتی تاکہ پوری قوم متحد ہوکر حالات کامقابلہ کرتی لیکن ایسانہیں کیا گیا اورعوام کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا ہے ۔
خیبر پختون خوا میں اس وقت مخلوط ٓحکومت ہے جس میں تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور جمہوری اتحاد شامل ہیں۔ ہم نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ کرپشن سے پاک صوبہ چلائیں گے جس کے لیے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں اگرچہ کرپشن سو فیصد تو ختم نہیں ہو سکی لیکن قابل ذکر تبدیلی اور بہتری ضرور آئی ہے۔ ہم نے صوبے میں عام آدمی کی معلومات تک رسائی کا قانون منظور کر رکھا ہے جس سے ہم نے اپنی حکومت یعنی سرکار پر ریڈار لگا دیا ہے ۔ جس کی رو سے معلومات کی فراہمی سے انکار کرنے والے آفیسر یا اہلکار کو جیل بھیجا جا سکتا ہے ۔ اس قانون کی وجہ سے صوبے میں پٹواری کلچر اور تھانہ کلچر بھی تبدیل ہوا ہے ۔ لیکن وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے قبائلی علاقے مشکلات سے دوچار ہیں ۔ ملک کی معیشت سودی نظام پر استوار ہے اس سودی نظام کے خاتمے کے بغیر ملک معاشی طور پر ترقی نہیں کرسکتا ۔ صرف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ہی فائدہ ہوگا غریب کو کو ئی فائدہ نہیں ہوگا۔ معاشی طور پر انقلابی اقدامات کی ضرورت تھی لیکن کچھ نہیں کیا گیا ۔ آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے قرضوں کا حصول حکومتی دعووں کی نفی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس ملک پر رب کا نظام نافذ نہیں کر دیا جاتا انسانوں کے بنائے نظام سے حالات میں بہتری نہیں آسکے گی۔
اٹھارہویں ترمیم کی رو سے تعلیم صوبوں کا معاملہ بنا دیا گیا ہے جبکہ ملک میں مرکزی نظام تعلیم ہونا چاہئے تھا۔ موجودہ نظام تعلیم کے نتیجے میں کراچی سے خیبر تک کے طلبہ امیر اور غریب کی صورت میں تقسیم کردیے گئے ہیں اوراسی وجہ سے ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے البتہ اس ضمن میں خاطر خواہ کام کیا ہے جس کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے ۔
اس وقت خیبر پختونخوا اپنی ضرورت سے زائد بجلی پیدا کرنے کے باوجود اپنے حصے سے زائد لوڈشیڈنگ برداشت کرنے پر مجبور ہے ۔ ہمارا صوبہ اس وقت اپنے پن بجلی کے پیداواری یونٹوں کے ذریعے سالانہ 18ارب یونٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ صوبہ کی اپنی تمام ضروریات صرف 8 ارب یونٹ سالانہ ہیں ۔ مگر اپنی ضروریات سے 10ارب یونٹ سالانہ زیادہ پیداکرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ کے معاملہ میں ہمارا صوبہ امتیازی سلوک کاشکار چلا آ رہا ہے ۔ جو پیداوار صوبہ پیدا کرتا ہے اس پر اس کے عوام کا پہلا حق ہوتا ہے ۔ پنجاب گندم پید ا کرکے پہلے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے اس کے بعد دوسرے صوبوں کو بھیجتا ہے قیمت بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے ۔ صوبے کے وسائل پر صوبے کے عوام کا پہلا حق ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہمارے صوبے میں بجلی کی گنجائش 18,000 میگاواٹ ہے اور بیس مختلف مقامات ایسے ہیں جہاں پر اگر مرکز سرمایہ کاری کرے تو تین سالوں کے اندر ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مرکز کی طرف ہمارے 350 ارب روپے واجب الادا ہیں اگر یہ ہمیں ادا کردیے جائیں تو بجلی کے کئی پراجیکٹس بنا سکتے ہیں ۔
پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی خیرپختون خوا کو دیے جانے کے حوالے سے ہمارے ساتھ مشاورت کیے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا جب کہ مرکز پر قرضوں کا کوہ ہمالیہ بھی ہے جسے ادا کیاجانا چاہئے ۔ اپنی ضرورت سے زائد بجلی پیدا کرنے کے باوجود اپنے حصے سے زائد لوڈشیڈنگ برداشت کرنے پر مجبورہیں ۔ اسی طرح گیس کا مسئلہ ہے ۔ ہمارے صوبے میں گیس کی پیداوار 400ملین کیوبک تک ہے جبکہ 150ملین یومیہ ہماری ضرورت ہے ۔ مرکز ی حکومت کا رویہ ہمارے صوبے خیبرپختونخوا کے ساتھ نہایت افسوس ناک ہے اور مرکز کے رویہ اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور قبائل میںمایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے ۔ این ایف سی ایوارڈ میں ہمارے صوبے کے حصے کے شیئر ز نہیں دیے جا رہے ہیں۔ 1991 ء میںچھ ارب روپے مقرر کیے گئے تھے جو کہ اس وقت بجٹ کا 40 فی صد بنتاتھا جو موجودہ روپے کی قدر میںکمی کی وجہ سے 39 ارب روپے بنتے ہیںاور موجودہ بجٹ کا چار فی صد بنتا ہے ۔ ایکنک میں بھی ہمارے صوبے کے منصوبوں کوسرد خانوں کی نذر کیا جاتا ہے ۔ مرکز ی حکومت نے ہمارے آئینی حقوق بجلی کا خالص منافع ، گیس رائیلٹی اور مرکزی حکومت کے طے کردہ منصوبوں میں ہمیشہ نظر انداز کیا ہے ۔ نا انصافیوں کے نتیجے میںاحساس محرومیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور بنگال کا واقعہ بھی اسی احساس محرومی کانتیجہ ہے ۔ مرکزی حکومت کو تمام غریب صوبوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ سانحات رونما نہ ہوں۔
جہاں تک کنٹینرز کی سپلائی روکنے کا تعلق ہے اس کا مقصد امریکہ کی پالیسیوں سے نفرت کااظہارکرنا تھا، اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے امریکا کی دم پر قدم رکھ دیا ہے جس سے امریکا دباؤ میں آگیا۔ اب مرکزی حکومت کا کام ہے کہ عوام کی چیخ وپکار کو سنے اور دہشت گردی سے باہر نکلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرے ۔ ہم نے کنٹینرز کی سپلائی روک کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ڈرون حملے ہماری سلامتی کے خلاف ہیں انہیں بند کروا کر ہم نے امریکا کی دم پر قدم رکھ دیا ہے اوریہ ہمارا حق تھا۔
لاہور میں تحریک انصاف کی مہنگائی کے خلاف کامیاب اورفقیدالمثال ریلی کے جواب میں مسلم لیگ ن کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے عمران خان خیبر پختون خوا میں کیوں احتجاجی مظاہرہ نہیں کرتے وہاں تو مہنگائی یا امن وامان کی صورت حال پنجاب سے زیادہ خراب ہے ۔ اس ضمن میں میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ مہنگائی کے خلاف اگر صوبہ خیبر پختونخوا میں احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے اور سہولیات فراہم کریں گے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی اصل ذمہ دار وفاقی حکومت ہے کیونکہ ان کی ناقص معاشی پالیسی کی بدولت غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جا رہاہے ۔ مسلم لیگ ن اقتدار میں آ کر عوام سے کیے گئے وعدے بھول گئی ہے جبکہ اس کی اصل توجہ صرف اپنوں کو نوازنے پر مرکوز ہو گئی ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ معاشی خوشحالی کا دور جلد آنے کی جو نوید سنا رہے ہیں وہ محض خواب ہے ۔آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک کے مرہون منت حکمرانوں کے ہاتھوں عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔
دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو دیے جانے والے ٹاسک کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج اسی صورت برآمد ہو سکتے ہیں جب سول حکومت اور فوج ایک صفحہ پر آجائیں ۔ سیاسی حکومت اور فوج کے ایک صفحہ پر آنے سے یہ مسئلہ صحیح طور پر حل ہو سکے گا۔ یہ اب نوازشریف کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔