بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن جیتے گی پی پی اور پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل نہیں رانا ثنا اللہ

عمران خان اب بھی بچگانہ سیاست کررہے ہیں،وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اﷲ کی ایکسپریس فورم میں گفتگو


غریبوں کیلئے شروع کی گئی یوتھ لون اسکیم کو ایشو بنایا جا رہا ہے،رانا ثنا اللہ۔ فوٹو: ایکسپریس

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عدالتی فیصلے آنے کے بعد عوام میں ابہام پایا جاتا ہے، اسی طرح پنجاب میں امن وامان کی صورتحال کو بھی آئیڈیل قرارنہیں دیا جا سکتا۔

قبائلی علاقوں اوربلوچستان میں جاری شورش کے اثرات ملک کے باقی حصوں کے ساتھ پنجاب پر بھی اثراندازہو رہے ہیں اوراس شورش میں فرقہ واریت کا عنصر بھی شامل ہوتا نظرآرہا ہے، یوم عاشور پر راولپنڈی میں جو کچھ ہوا انتہائی قابل افسوس ہے، سخت سکیورٹی کے باوجود ایسی کارروائیاں کیسے ہوجاتی ہیں اور پولیس ان پرقابو پانے میں کیوں ناکام رہتی ہے؟مجرم پکڑے بھی جائیں توعدالتی نظام میں ایسی کونسی خامیاں ہیں کہ وہ چند ماہ جیلوں میں گزارکر پھر باہرآجاتے ہیں جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی وزیرقانون، پارلیمانی اموروبلدیات رانا ثناء اللہ خاں کو گزشتہ دونوں'' ایکسپریس فورم ''میں مدعو کیا گیا، انہوں نے تمام معاملات پرکھل کر روشنی ڈالی جو نذرقارئین ہے۔

بلدیاتی الیکشن30جنوری کو ہوں یا تاخیر سے پنجاب حکومت اس کیلئے تیار ہے لیکن عدالتی فیصلہ بلدیاتی انتخابات کے التواء کا سبب بن سکتا ہے۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد عوام کے ساتھ حکومت بھی پریشانی کا شکار ہے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ اگر اس کی کرائی گئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے ساتھ عدالتوں کو بھی اعتماد نہیں تو پھر الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کروا لے لیکن الیکشن کمشن نے اس سے معذوری ظاہرکردی ہے ۔ ہم نے حلقہ بندیوں سے قبل ہی الیکشن کمیشن کو یہ تجویزدی تھی لیکن اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس اتنی کپیسٹی نہیں کہ پورے ملک میں حلقہ بندیاں کروا سکے، اس کے بعد ہم نے یہ حلقہ بندیاں کیں۔ پنجاب کے 8 ہزارحلقوں میں صرف 400 حلقوں پرعدالتوں میں اعتراضات دائرکیے گئے جو کہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن عدالتی حکم کے بعد پورے ملک میں الیکشن پراسس رک گیا ہے اورگزشتہ چار ماہ سے انتخابی مہم چلانے والے ہزاروں امیدوارتذبذب کا شکار ہیں۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جن حلقوں کے بارے میں اعتراضات داخل کیے گئے ہیں وہاں الیکشن روک کر حکومت باقی پورے صوبے میں الیکشن کرانے کو تیار ہے۔ اس کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل الیکشن کمیشن کوکرنی چاہیئے۔ ہائیکورٹ ملتان بینچ نے لوکل باڈیز ایکٹ کے حلقہ بندیوں کے بارے میں سیکشن 7 اور8 کو درست جبکہ سیکشن 18 کو غلط قراردیا تھا اورحلقہ بندیوں کو ایگزیکٹوکا اختیارقراردیا تھا۔ آزاد عدلیہ کی عوام میں بڑی نیک نامی ہے لیکن حلقہ بندیوں کے حوالے سے آنے والے فیصلے کے بعد عوام میں بڑی پریشانی پائی جاتی ہے اوروہ بے یقینی کا شکارہیں۔ اگردوبارہ حلقہ بندیاں کروانا پڑیں تواس کیلئے مزید 6 ماہ جبکہ مردم شماری کیلئے 18 ماہ درکارہونگے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں، بڑے شہروں کے میئرز اورمیونسپل کمیٹیوں کے سربراہوں کی نامزدگی کے حوالے سے پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کیلئے یہ تجویز زیرغور ہے کہ تمام اضلاع میں خاندانی اجارہ داری قائم نہ ہونے دی جائے اورآئندہ بلدیاتی الیکشن میں ارکان اسمبلی کے رشتہ داروں کے بجائے دیانتدار، صاحب کردار اورپارٹی سے مخلص کارکنوں کو اکاموڈیٹ کیا جائے۔

یہ پارٹی کی مضبوطی کیلئے بھی ضروری ہے ۔ پارٹی میں جتنے زیادہ لوگ اکاموڈیٹ کیے جائیں گے یہ اتنی ہی زیادہ فعال اورمضبوط ہو جائے گی۔ اگرکوئی ایم این اے یا ایم پی اے بن گیا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ اس کے بھائی، بیٹے،کزن یاکسی اورقریبی رشتہ دار کو بلدیاتی عہدے بھی دیئے جائیں، فیصل آباد ضلع اورشہردونوں جگہ اس پالیسی پر غورکیا جائے گا۔ مجھے وزارت مل گئی ہے تو کیا یہ کافی نہیں؟ اب یہ ضروری نہیں کہ بلدیاتی عہدے بھی میرے ہی رشتہ داروں کو دیئے جائیں۔ فیصل آباد کے بعض سیاسی رہنماؤں کے ن لیگ سے رابطوں کے حوالے سے یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے سابق ضلعی صدرچودھری صفدرالرحمٰن کا دورآمریت کے دوران کرداربڑا شاندار رہا اور ہم اس کی قدرکرتے ہیں لیکن جب کوئی پارٹی کے کسی نامزدامیدوارکے خلاف الیکشن لڑے گا تو پارٹی میں اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔

چودھری صفدرالرحمٰن کو چاہیئے تھا کہ کاغذات کی منظوری کے بعد وہ پارٹی امیدوارکے خلاف الیکشن لڑنے کے بجائے اس کے حق میں دستبردارہو جاتے لیکن انہوں نے پارٹی کے ضلعی صدر ہونے کے باوجود گیارہ مئی کے انتخابات میں پارٹی کے نامزد امیدوارشہباز بابرکے خلاف الیکشن لڑا جس کی وجہ سے ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی گئی اوراب وہ پارٹی سے فارغ ہیں، چودھری صفدرالرحمٰن نے خود اپنا نقصان کیا ہے ابھی ان کی بحالی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، جہاں تک سابق ضلع ناظم رانا زاہد توصیف کی طرف سے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کیلئے کیے گئے رابطہ کا معاملہ ہے تو زاہد توصیف نے مجھ سے رابطہ کیا تھا اوررائے مانگی تھی کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیں یا نہ لیں، میں نے انہیں الیکشن سے مکمل پرہیزکا ہی مشورہ دیا ہے۔ بلدیاتی حلقوں میں مسلم لیگ ن کے ایک ایک نشست پرزیادہ پینل سامنے آرہے ہیں تو یہ ہماری پارٹی کی مقبولیت ہے کہ پنجاب کی ہر یونین کونسل میں ایک ایک سیٹ پر ہماری پارٹی کے ہی چار چار پینل سامنے آ رہے ہیں۔ اکثر حلقوں میں تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کا نام ونشان تک بھی نہیں۔

اب جہاں ہمارے ایک حلقے میں زیادہ پینل ہوں گے اور وہاں ہمارے ہی کسی ساتھی کے جیتنے کے امکانات ہوئے تو ہم وہاں ٹکٹ جاری نہیں کرینگے۔ ان حلقوں میں جہاں ہماری پارٹی کا صرف ایک پینل ہوگا وہاں ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔ بلدیاتی الیکشن میں بھی مسلم لیگ ن ہی کامیابی حاصل کریگی، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں۔کسی بھی جماعت کی مقبولیت اس کی لیڈرشپ کی وجہ سے ہوتی ہے،قائداعظم بھی مقبول لیڈرتھے اور برصغیرکے مسلمانوں کے ساتھ ان کا اعتماد کا رشتہ تھا تو قیام پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہوئی ورنہ اس سے پہلے بھی کئی مسلم قائدین اپنی کوششیں کر چکے تھے لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ عمران خان پاکستان میں ہرآدمی کیلئے ایک جانی پہچانی شخصیت تھی،30 اکتوبرکے مینارپاکستان پر ہونے والے جلسہ عام نے انہیں مقبولیت دی اورلوگ تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے لیکن اس کے بعد عمران خان کی طرف سے کیے گئے تمام سیاسی فیصلے، جذباتی، احمقانہ اورغیردانشمندانہ ثابت ہوئے جو کہ ان کی ناکامی کا باعث بنے۔ عمران خان اب بھی بچگانہ سیاست کر رہے ہیں۔ اگر ان کی یہی روش برقرار رہی توجلد ان کا حال بھی اصغرخان جیسا ہو جائے گا۔

صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر بات کریں تو ہماری پولیس جلسے جلوسوں، عبادت گاہوںکی سکیورٹی ، محرم الحرام ، ربیع الاوّل کے پروگراموں پر دی جانے والی سکیورٹی میں الجھی ہوئی ہے۔ رمضان المبارک کے بعد دہشت گردی کی موجودہ لہرکی وجہ سے اب پولیس کے پاس کرائم فائٹنگ کیلئے ٹائم ہی نہیں ہے۔ ہماری پولیس فورس کی کیپسٹی بلڈنگ کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت جدیدٹریننگ، اسلحہ سمیت دیگر معاملات میں بہتری لا رہی ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں کی جا رہی ہیں ،تفتیش کے سسٹم کو بھی جدید بنانے کیلئے ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے بین الاقوامی معیارکی فرانزک لیبارٹری قائم کی جا رہی ہے جس کے فنکشنل ہونے کے بعدشعبہ تفتیش میں موجود خامیاں دور ہو سکیں گی جبکہ پولیس فورس کی جدید تربیت کیلئے بھی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

ان کا مزیدکہنا تھا کہ پاکستان کا موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم ملزم فرینڈلی ہے اوراس سسٹم کی موجودگی میں ملزم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دینا صرف خواب ہی رہے گا۔ وفاقی سطح پرکریمینل جسٹس سسٹم میں ترمیم کیلئے قانون سازی ہو رہی ہے۔ طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ کیلئے اس وقت دو ہی شخصیات مولانا سمیع الحق اورمولانا فضل الرحمٰن ہی ہیں جن کا طالبان احترام کرتے ہیں اوریہی شخصیات مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، طالبان مذاکرات سے قبل ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ڈرون حملے امریکہ کر رہا ہے، پاکستان ان حملوں کے خلاف اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈکرا چکا ہے لیکن یہ حملے روکنا پاکستان کے اختیارمیں نہیں۔ پرویزمشرف کے خلاف جاری غداری کے مقدمہ میں ان کی قسمت کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی، ن لیگ کی حکومت اور وزیراعظم نوازشریف اس معاملہ میں کسی دباؤکے سامنے نہیں جھکیں گے اورنہ ہی پرویزمشرف کسی ڈیل کے نتیجہ میں جیل یا ملک سے باہر جائیں گے۔ اس حوالے سے اڑائی جانے والی افواہیں بالکل بے بنیاد ہیں اس موقع پر اگر پرویز مشرف کسی ڈیل کے نتیجہ میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو یہ بات ہمارے لیے بڑے سیاسی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کا سندھ کی تقسیم کے بارے میں بیان قابل مذمت ہے مسلم لیگ(ن) سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی۔ ایم کیو ایم عرصہ سے کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے، ہزارہ اورسرائیکی صوبوں کی حمایت بھی ایم کیو ایم اسی نقطہ نظرسے کر رہی تھی۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کا تعلق ہے انہیں عوام اور فوج سمیت کسی قوت کی حمایت حاصل نہیں۔ ملک دشمن قوتیں جو اداروں اورجمہوریت کو کمزورکرنا چاہتی ہیںوہ ان کے ساتھ ہو سکتی ہیں۔ پرامن احتجاج پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے ، ہم پر امن احتجاج سے کسی کو نہیں روکیں گے ۔ اگرڈاکٹرطاہرالقادری اوران کی جماعت نے حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

یوتھ لون سکیم کے خلاف فتویٰ افسوسناک ہے کیونکہ ایسی سکیموں پر اگر منافع لیا جائے تو یہ استحصال کی صورت نہیں ہوتی جسے اسلام نے منع کیا ہے۔ جو کمائے گا وہ منافع کے ساتھ واپس بھی کرے گا۔ سابقہ دورمیں اربوں روپے قرض لے کرہڑپ کرنے والوں کے خلاف تو کبھی کوئی فتویٰ نہیں دیا گیا تھا، غریبوں کیلئے شروع کی گئی اسکیم کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ یہ سکیم معاشی انقلاب کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کیلئے باعزت روزگارکے سبب بنے گی۔ اس معاملے کو ایشو بنانے کی بجائے حکومت کی نیک نیتی ، روزگارکے مواقع اورملکی معیشت کی مضبوطی کو سامنے رکھا جائے، میری یہ تمام مکاتب فکرکے علماء کرام اورافراد سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملے میں اجتہادکے ذریعے اتفاق رائے کی کوئی سبیل پیدا کریں۔

فیصل آبادمیں ہائیکورٹ بینچ کے قیام کے حوالے سے حکومت پنجاب نے اپنا کردارادا کر دیا ہے،صوبائی کابینہ نے سمری منظورکر کے گورنرکو بھیج دی تھی جو آئینی طورپر10 دن کے اندر اسے منظورکرنے کے پابند ہیں، اگروہ منظورنہیں بھی کرتے توگیارہویں دن خود بخودمنظورسمجھی جائے گی۔گورنرپنجاب نے اپنا آئینی کردارادا کرتے ہوئے اب یہ سمری چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی ہے۔ لہٰذا اب فیصل آباد بینچ کا فیصلہ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے کرنا ہے، جس دن چیف جسٹس کی طرف سے ایڈوائس کا جواب آئے گا 30 دنوں میں ہائیکورٹ بینچ کام شروع کردے گا۔ ہائیکورٹ بینچ کے قیام میںتاخیر اس مقصدکیلئے قائم کی گئی عدالتی کمیٹی کی طرف سے ہو رہی ہے۔

اس وقت آئی پی ایل سی اورسی پی ایل سی کی کوئی قانونی پوزیشن نہیں ہے۔ پولیس ایکٹ اورکسی دوسرے قانون میں سی پی ایل سی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں، پرانے لوکل باڈی ایکٹ میں سی پی ایل سی کی شق موجود تھی مگر نئے لوکل باڈیز ایکٹ میں اس حوالے سے کچھ موجود نہیں۔ تاجروں نے میرے ساتھ ملاقات میں پانچ مطالبات پیش کیے تھے جس پر میں نے فوری طور پر تمام تاجر نمائندوں کی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات کروائی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے پورے چارگھنٹے تک ملک بھر سے آئے ہوئے تاجروں کے نمائندوں سے ان کے مسائل پر گفتگو کی، اس ملاقات میں تین مطالبات کو 100 فیصد حل کیا گیا جبکہ دو مطالبات وفاقی وزارت خزانہ کے حوالے سے تھے جس پروفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارسے تاجروں کی ملاقات کروائی گئی۔

اس ملاقات کے دوران بھی وفاقی وزیر نے تین گھنٹے تک تاجروں سے تفصیلاً گفت وشنیدکے بعد ان کے باقی دومطالبات کو بھی تسلیم کر لیا اوراس ملاقات کے بعد ملک بھرکے تاجروں نے خود حکومت کے کردارکوسراہتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اب جبکہ تمام مطالبات تاجروں کی خواہش کے مطابق تسلیم کیے جا چکے ہیں تو بعض تاجر رہنماؤں کی طرف سے مطالبات کی منظوری کے بعد بھی ہڑتال اوراحتجاج کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ فیصل آباد کو خوبصورت شہر بنانے کیلئے پی ایچ اے کو مزید ملازمین بھرتی کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے جس کے بعد نہ صرف پی ایچ اے کی کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ فیصل آباد کو پھولوں اورباغوں کا شہر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں