قیاس آرائیوں کا دریا تھم گیا

میرے دورہ پاکستان کا سابق صدر پرویز مشرف سے کوئی تعلق نہیں، سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل

میرے دورہ پاکستان کا سابق صدر پرویز مشرف سے کوئی تعلق نہیں، سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل فوٹو: اے ایف پی

سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ میرے دورہ پاکستان کا سابق صدر پرویز مشرف سے کوئی تعلق نہیں، مشرف کا معاملہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر کوئی بات نہیں ہوئی، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہیے، میں پاکستان کسی مشن پر نہیں، دوستی اور ہر مشکل میں ساتھ کھڑے رہنے کا پیغام لے کر آیا ہوں، سعودی عرب توانائی کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا، افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ منظم نہ ہونے دیا جائے۔ وہ دفتر خارجہ میں وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

سعودی وزیر خارجہ کی جانب سے مشرف کیس کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے بعد در حقیقت سیاسی و حساس حلقوں اور میڈیا میں جاری مفروضوں، جذباتی قیاس آرائیوں اور بحث و استدلال کا ایک چڑھتا دریا تھم گیا۔ سعودی سفارت کاری کی اس بروقت اور نفیس وضاحت سے ایک طرف تو حکومت پاکستان کے بزرجمہروں اور سیاست و میڈیا کے پنڈتوںکو یہ چشم کشا پیغام دیا گیا کہ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی، نہ دوست ممالک کے معاملات میں مداخلت سعودی پالیسی ہے۔ یہاں یہ تلخ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف کو کیس کی سماعت کے دوران محفوظ راستہ دینے یا طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت کے بے ہنگم شور و غوغا میں یہ پیغام بین السطور میں سعودی ''مداخلت'' کے امکانی حوالہ سے دیا جا رہا تھا اور جارحانہ و دفاعی تجزیوں میں سفارتی آداب اور سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی، سیاسی اشتراک اور تاریخی رشتوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا، چنانچہ اسی پس منظر میں سعود الفیصل کی میڈیا سے بے لاگ گفتگو کی روشنی میں یہ معروضی لمحہ سامنے آیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستان کو توانائی کے جس شدید بحران کا سامنا ہے برادر سعودی عرب اس شعبے میں بھرپور تعاون کریگا، سعود الفیصل نے زور دیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کو کنٹرول کیا جائے، شام میں قتل وغارت روکی جائے اور یہ استدلال پیش کیا کہ حکمرانی صرف بشار الاسد کا حق نہیں۔ یہ راز بھی کھلا کہ وہ خیر سگالی مشن پر اور پہلے سے طے شدہ شیڈول کے تحت پاکستان کے دورے پر آئے۔


پرنس سعودالفیصل نے کہا کہ صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقاتیں انتہائی مفید رہیں، صدر ممنون حسین کو خادم الحرمین شریفین کا پیغام پہنچایا، سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ہمارے درمیان ہر سطح پر تعاون جاری ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی جس میں دو طرفہ اور علاقائی اہمیت کے امور کا جائزہ لیا گیا۔ سعود الفیصل کی پیش کردہ یہ تجویز قابل غور ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسی اعلیٰ سطح کی کمیٹی ہونی چاہیے جو اہم ایشوز پر باقاعدگی سے گفت و شنید کرے، مزید براں ضرورت اس امر کی ہے کہ توانائی کے شعبے میں پاکستان سے سعودی تعاون نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ وزیر خارجہ کے انداز نظر کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب دہشت گردی سے متاثر ہیں، دونوں کو مل کر اس ناسور پر قابو پانے کے لیے خصوصی توجہ دینا ہو گی، افغانستان اس وقت مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے اور جلد ہی وہاں سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاہونے والا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یہ مرحلہ باآسانی طے پا جائے اور کوئی طاقت دوبارہ افغانستان کے حالات خراب نہ کر سکے، افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ اس تجزیہ میں حکمران اس زمینی صورتحال کو بھی شامل کریں کہ اب افغانستان کے لیے داخلی اور خارجی ڈاکٹرائن اور تزویراتی گہرائی کے نظریہ پر ڈٹے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، پاکستان کو دہشت گردی، داخلی بدامنی، اقتصادی بحران، اور سیاسی محاذ آرائی کے گھناؤنے چکر نے پھنسا رکھا ہے، خطرات کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کو سعودی عرب سمیت ہر اس برادر ملک اور عالمی برادری سے مدد لینا ہو گی جو عوام کو درپیش معاشی مشکلات کا خاتمہ کرنے میں مدد دے سکے ۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ عوام کو جمہوری حکومت سے جس کثیر الجہت ریلیف کی امید تھی اس کے بر آنے میں شاید ابھی وقت درکار ہے ۔ شام کی صورتحال پر سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ شام کے مسئلے کا واحد حل وہاں پر اتفاق رائے سے حکومت کا قیام ہے، صرف بشارالاسد کو ہی وہاں حکومت کا حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ وہاں عوام کا خون بہاتا پھرے۔ اس نقطہ نظر پر بلاشبہ سعودی عرب پاکستان سے حمایت کا طلبگار ہو گا، انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حل نہ ہونے کا ذمے دار بجا طور پر اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی رویے کی وجہ سے ہی اب تک وہاں حالات بہتر نہیں ہوسکے۔ اسرائیلی جارحیت، ظلم و جبر اور یہودی بستیوں کی تعمیر اور ناجائز آبادکاری کے جنون کا خاتمہ عالم اسلام کو متحد ہو کر کرنا چاہیے۔ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیا جا رہا ہے جب کہ سعودی عرب سمیت پوری دنیا کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان ہے، لیکن دہشت گردی سے متاثر ہونے کے باوجود پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے میں عالمی طاقتیں بخل اور ریا کاری سے کام لیتی ہیں جب کہ بعض قوتیں پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے در پردہ ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ اس محاذ پر پاک سعودی تعاون و اشتراک کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے، سعودی عرب اپنے دفاعی استحکام کے لیے پاکستان سے دو طرفہ تعاون کے شعبوں میں دلچسپی رکھتا ہے اور پاکستان سعودی امداد سے تعلیمی، اور سماجی شعبے میں فلاح و بہبود کے منصوبوں کی باآسانی تکمیل کر سکتا ہے، یوں دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس موقع پر کہا کہ دونوں ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دینے کے لیے آیندہ دو ماہ کے دوران ورکنگ گروپ تشکیل دے دیے جائیںگے، دونوں ممالک کے مابین بزنس کونسل موجود ہے مگر متحرک نہیں ہے جس کو متحرک کیا جائے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے، افغانستان اور شام میں امن بحال کرنے کے لیے دونوں ممالک مشترکہ کوششیں جاری رکھیں گے، سعودی سرمایہ کاروں کا وفدآیندہ ماہ پاکستان کا دورہ کرے گا، اسلامی ممالک میں فرقہ واریت سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کے خاتمے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس وقت پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں گرگ آشنائی اور گرگ آشتی کے دو محاذوں پر دوست دشمنوں کے درمیان پہچان میں پیشرفت کرنی چاہیے۔ مادر وطن کو عالمی برادری میں تنہائی سے دوچار کرنے والی باطل قوتوں سے نمٹنے میں حقیقی دوستوں سے رجوع کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ دوسری طرف سیاست دان اور میڈیا دونوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ برادر ملکوں سے سفارتی باریکیوں کا لحاظ رکھیں، مختلف ایشوز پر معروضی انداز نظر اور سنجیدہ تجزیئے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسی میں ملک کا وقار مضمر ہے۔
Load Next Story