مفاداتی سیاست اور کورونا کا پھیلاؤ

حکومت، اپوزیشن اور عوام ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے کورونا کے خلاف جنگ میں متحد ہوجائیں


حکومت اور اپوزیشن نے عوام کی صحت کی پرواہ کیے بغیر جلسے جاری رکھے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ برس جن دنوں دنیا بھر میں کورونا کے خلاف ضابطوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر کورونا کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ سماجی فاصلوں، ماسک کے استعمال، اور دیگر رہنما اصولوں پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرکے دیگر لوگوں کو مجبور کیا جارہا تھا کہ وہ ہر حال میں اس جنگ میں حکومت وقت کا ساتھ دیں۔

کوئی ملک ویکسین بنا کر اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش کررہا تھا، تو کوئی اسے سب سے پہلے حاصل کرکے اپنے عوام کو اس موذی مرض سے بچانے کی سعی کررہا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔ ہمیں امید ہوچلی تھی کہ کورونا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ماسک کے استعمال کی یہ حالت تھی کہ لوگ کسی دوسرے کا ماسک مانگ کر ایسی جگہوں پر چلے جاتے تھے جہاں پر انہیں سختی کا شبہ ہوتا تھا۔ کہیں پر مفت ماسک بانٹ کر لوگوں کو لوٹنے کی واردتیں ہورہی تھیں۔ ویکسین کی تیاری تو دور کی بات ہے، ہمیں یہ امید تھی کہ جب ویکسین تیار ہوجائے گی تو ہمیں بھی کہیں نہ کہیں سے مل جائے گی۔

حکومت مخالف رہنما وسیع تر ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کا لیبل لگا کر پی ڈی ایم کی چھتری کے نیچے جلسے جلوسوں کے ذریعے عوام کو ایک جگہ جمع کرکے دانستہ یا نادانستہ طور پر کورونا کے پھیلاؤ کی ہر ممکن سعی کررہے تھے۔ اور حکومت وقت اپنی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے ان پر جوابی حملے کرنے میں مشغول تھی۔ حالانکہ جیسے حکومت نے حالیہ سینیٹ انتخاب کے موقع پر وسیع تر ذاتی مفاد کی خاطر اپنی بدترین سیاسی مخالف مسلم لیگ ''ن'' کے ساتھ پنجاب میں خاموشی سے اتحاد کرلیا۔ مولانا کو خاموش کرنے کےلیے انہیں سینیٹ کے کیک سے حصہ دینے کی پیشکش کی۔ ماضی میں سینیٹ کا انتخاب پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر لڑا۔ ایسے ہی وسیع تر ملکی مفاد کی خاطر، عوام کو کورونا سے بچانے کےلیے اپوزیشن کے ساتھ نیک نیتی سے بیٹھ کر قابل قبول حل نکالا جاسکتا تھا۔ جس کی بدولت اپوزیشن اپنے جلسے جلوسوں کا پروگرام ختم یا موخر کردیتی، اور آج ملک میں کورونا ایک بار پھر عروج پر نہ ہوتا۔

لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن ہو یا حکومت، انہیں ذاتی مفاد کے موقع پر ہی عوام کا خیال آتا ہے۔ شاید یہ ذاتی مفاد ہی تھا جس نے اپوزیشن کو کورونا کی حقیقت جانتے ہوئے بھی جلسے، جلوس جاری رکھنے پر مجبور کیا۔ اگر انہیں یہ شبہ تک ہوتا کہ جلسوں کی اس سعی لاحاصل کا انجام لانگ مارچ موخر کرنے کی صورت میں نکلے گا، تو عین ممکن ہے ذاتی مفاد ملکی مفاد میں تبدیل ہوجاتا، اور جلسے موخر ہوجاتے۔ لیکن اپوزیشن کو یقین تھا کہ وہ ان اقدامات سے حکومت گرا کر اقتدار حاصل کرلیں گے۔ اس لیے عوام کی صحت کی پرواہ کیے بغیر جلسے جاری رکھے گئے۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے 'نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم'۔

آج اپوزیشن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ہوچکی ہے لیکن وطن عزیز میں کورونا عروج پر ہے۔ اس وقت تازہ ترین صورتحال کے مطابق کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 8 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس وقت تک پاکستان میں 615810 افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور 13717 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور عوام ہر کوئی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے کورونا کے خلاف جنگ میں متحد ہوجائیں۔ سماجی فاصلے، ماسک کا استعمال اور دیگر ضروری اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہم جاگ جائیں۔ کورونا ایک تلخ ترین حقیقت ہے، جس سے بہرحال بچنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہوکہ بہت دیر ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں