ہمارے بھی جرنیل تھے کیسے کیسے
لگتا یوں ہے کہ ہماری تاریخ میں صرف ایک ہی جنرل تھا جس کا نام تھا جنرل پرویز مشرف جو بھلا چنگا ہنستا کھیلتا تھا کہ۔۔۔
لگتا یوں ہے کہ ہماری تاریخ میں صرف ایک ہی جنرل تھا جس کا نام تھا جنرل پرویز مشرف جو بھلا چنگا ہنستا کھیلتا تھا کہ رواں مہینے کی دوسری تاریخ کو جب اسے ڈرامائی انداز میں عدلیہ کو جانے والے راستے سے ہٹا کر اسپتال کے راستے پر ڈال دیا گیا تو اسے اچانک ایک دو نہیں نو عدد بیماریوں نے گھیر لیا۔ ابھی بیماریوں کی گنتی جاری ہے۔ موصوف کے جسم کے ظاہری اور باطنی حصوں میں قدم قدم پر ایک بیماری موجود ہے اور سب بیماریاں ایسی ہیں جو دیار غیر میں علاج مانگتی ہیں پاکستان میں ان میں سے کسی کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ ایک ایسا مریض انسان جس کی بوٹی بوٹی کسی بیماری سے تڑپ رہی ہو جس کا دل خطرے میں ہو اور جس کے دانتوں اور کندھوں سے لے کر پیشاب کی نالی تک بیمار ہوں ڈاکٹروں نے بڑی مشکل سے جن بیماریوں کی گنتی کی ہو بعد میں ان کی تعداد میں نئی دریافت بیماریوں کا اضافہ بھی کیا جاتا رہے گا وہ شخص ہماری ایٹمی فوج کا سربراہ رہا پھر اس نے اپنی فوجی سربراہی کو ملکی سربراہی میں بدل لیا اور برسوں تک اس ملک سے کھیلتا رہا اب اس کے ساتھی اس ملک میں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں یا ایک نیا ملک مانگتے ہیں یعنی اب وہ اس پورے ملک کے ساتھ مذاق کرنے پر تلا ہوا ہے جس نے دلی کے دو کمروں میں مقیم خاندان کو نہ صرف اس ملک میں بلکہ دنیا کے کئی گوشوں میں محلات دیے جن کی قیمت اربوں روپوں میں بنتی ہے اتنا کچھ دینے والے ملک کے شکریے میں تو کسی کی پوری عمر گزر جانی چاہیے۔ کون سا بلند مرتبہ ہے جو نہیں ملا اور کیا دولت ہے جو نہیں ملی۔ سوال یہ ہے کہ اب وہ کون سی بات ہے جس کی کسر باقی رہ گئی ہے اور وہ پوری ہو تو وہ اس ملک سے راضی ہو سکتے ہیں۔ بتائیں تو یہ قوم وہ کسر بھی پوری کرنے کی کوشش کرے گی لیکن میرے خیال میں اصل بات بالکل اور ہے۔
امریکا نے پورے عالم اسلام کے خلاف اپنی جس معاندانہ پالیسی کا عملاً آغاز کر دیا ہے پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ایک امریکی صدر بش نے ایک بار اپنے دل کی بات یعنی صلیبی جنگوں کے نئے آغاز کا ذکر کیا تھا جو شور مچنے پر اس نے واپس لے لیا لیکن یہ سب زبانی کلامی تھا اصل پروگرام جاری رہا۔ اس کی تفصیلات میڈیا میں باقاعدگی کے ساتھ آتی رہی ہیں ان دنوں ترکی مصر اور اب پاکستان میں یہ سلسلہ شروع ہے۔ مصر اور ترکی میں تو اس کا آغاز ہو چکا ہے پاکستان اب اس کا اگلا نشانہ ہے لیکن اس نئی صلیبی جنگ میں مسلمانوں کا لشکر اتنا کمزور ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں، آج کسی صلاح الدین ایوبی کا تو ہم نام بھی نہیں لے سکتے یہ شدید ترین بے ادبی اور گستاخی ہو گی۔ ہمارے پاس تو جنرل پرویز مشرف ہیں جن کو فی الحال اچانک نو عدد بیماریاں لاحق ہو چکی ہیں اور خدا خیر کرے بیماریوں کے انکشاف کا، یہ سلسلہ جاری ہے اس لیے امریکا کے سامنے پاکستان کا راستہ بھی کھلا ہے کیونکہ ہمارے یہاں پرویز مشرف بہت ہیں وہ سب بظاہر صحت مند اور اندر سے بیمار۔ یہ زندگی و موت کا موضوع جاری رہے گا۔ اس وقت میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے صدر رفیق تارڑ صاحب اچانک اسپتال گئے مگر دوسرے ہی دن واپس آ گئے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ آئینی طور پر تارڑ صاحب اب بھی ہمارے صدر ہیں کہ انھوں نے اپنے عہدے سے استعفی نہیں دیا تھا۔ انھیں ''برطرف'' کر دیا گیا تھا۔ بہرکیف یہ ایک اور مقدمہ ہے جو کسی نے چلایا نہیں۔
انھی دنوں ایک خبر موصول ہوئی ہے جو حبیب جالب کی بیگم صاحبہ کے انتقال کی خبر کے دوسرے دن چھپی ہے کہ مرحوم شاعر کے اہل خانہ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسے میں خود ساختہ کہوں گا۔ بہت ساری یادوں میں سے ایک یاد یہ تازہ ہوئی ہے کہ ایک دن جالب بہت چپ چاپ تھے یہ ان کی ایک قید سے رہائی کے دوسرے تیسرے دن کا واقعہ تھا۔ میں نے پوچھا تو بتایا کہ چند دن ہوئے جیل میں میری بیوی ملنے آئی تھی اور گھر کے اخراجات کا رونا رو رہی تھی۔ قادر بھائی یہ ملاقات کہاں تھی یہ تو حالات کا ماتم تھا۔ جالب کا یہی فقرہ بعد میں ان کی ایک غزل کا حصہ بن گیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ یار یہ سرمایہ دار جب تمہیں کچھ پیش کرتے ہیں تو تم اکڑ کیوں جاتے ہو۔ اس نے مجھے غور سے دیکھ کر کہا تم بھی یہ کہہ رہے ہو۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک واقعہ تھا۔ شجاعت، پرویز نے جالب کے گھر جا کر ان سے اظہار تحسین و عقیدت کیا اور انھیں کچھ رقم چپکے سے پیش کی۔ بقول چوہدری شجاعت جالب نے سختی سے معذرت کر دی البتہ آٹے کی بوری یہ کہہ کر رکھ لی کہ یہ تو تحفہ ہے اور ہمارے کلچر میں یہ چلتا ہے۔ اگر جالب دوسری قسم کے تحفوں کو قبول کر لیا کرتا تو یہ نہ کہتا کہ ؎ حالات کا رونا تھا ملاقات کہاں تھی'' اور نہ اب ہمیں اس کے پسماندگان کی کس مپرسی کی خبریں پڑھنی پڑتیں۔ یاد آیا کہ جالب جب اپنی پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ حیدر آباد جیل میں تھا تو وہ اپنے دوست ایڈیٹروں کو اپنی شاعری بھجوا دیتا اور بعض اوقات وہ اس نوٹ کے ساتھ مجھے موصول ہوتیں کہ فلاں ترقی پسند اور جمہوریت پسند ایڈیٹر نے معذرت کر دی ہے تم چھاپ دو تو تمہارا شکریہ ، میں ان دنوں 'افریشیا' نام سے ایک ہفت روزہ چھاپتا تھا اور سب کچھ چھاپ دیتا تھا۔ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا۔ اوپر سے کارروائی کی بات کی جاتی تو صوبائی وزیر اطلاعات چوہدری اعتزاز احسن یہ فائل ایک دفتری الماری کے پیچھے پھینک دیتے۔ میرے مہربان چوہدری صاحب نے یہ انکشاف حکومت بدل جانے کے بعد کیا۔ یہ ان کی عالی ظرفی تھی کہ وہ اپنے اقتدار میں خاموش رہے۔
کالم ختم کر رہا تھا کہ ایک اخبار پر نگاہ پڑ گئی کہ پرویز مشرف صاحب دبئی میں بھی اپنی جائیداد فروخت کر رہے ہیں اس سے قبل برطانیہ کی جائیداد کی خبر چھپ چکی ہے یہ معلوم جائیداد ہی اربوں روپوں کی ہے اور کہاں کہاں ہیں ان کا پتہ بعد میں چلے گا سوال یہ ہے کہ یہ جائیدادیں کہاں سے آئیں۔ وہ دس دفعہ فوجی نوکری سے ریٹائر ہوں تب بھی وہ کسی غیر ملک میں ایک مکان بھی نہیں خرید سکتے ان کی اسلام آباد والی جائیداد کسی حد تک تسلیم کی جا سکتی ہے۔ اللہ ہی اس ملک پر رحم کرے ہمارے سبھی حکمران ہی ہمہ خانہ آفتاب ہیں۔