اور بھی غم ہیں مشرف کے سوا
چند مقبول عام گیتوں میں ایک دو مصرعے ایسے بھی آجاتے ہیں جن میں بڑی دانائی اور حکمت کی بات موجود ہوتی ہے مگر۔۔۔
چند مقبول عام گیتوں میں ایک دو مصرعے ایسے بھی آجاتے ہیں جن میں بڑی دانائی اور حکمت کی بات موجود ہوتی ہے مگر ان گیتوں کی پیہم تکرار کے باعث ہم ان کی اہمیت کو محسوس نہیں کر پاتے۔ گزشتہ دس دنوں سے ہمارے میڈیا پر ''مشرف۔مشرف'' ہورہا ہے۔ بتدریج ماحول کچھ ایسا بن گیا کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت یہ طے کر بیٹھی کہ ابھی ہمارے ملک میں جمہوریت اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ آرمی کے ایک سابق سربراہ پر غداری کا الزام لگاکر اسے سزا بھی دلوا پائے۔ ہوسکتا ہے معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو مگر اپنی ''خوئے غلامی'' کے باعث ہم اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔
لاطینی امریکا کا ایک پروفیسر تھا جس نے بڑی تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا تھا کہ ایک مخصوص ماحول میں بندھے رہنے کے باعث لوگ نئی باتیں سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔ ماحول اور عام زندگی کے معمولات سے جڑی اس عادت کو اس نے Path Dependenceکا نام دیا۔ یعنی ایک جانی پہچانی صدیوں سے استعمال ہونے والی ڈگر پر چلتے رہنے کی مجبوری جو نئے راستے ڈھونڈنے کی ضرورت اور خواہش کو انجان کے خوف سے ختم کردیتی ہے۔ اسی حوالے سے مجھے ان دنوں حبیب ولی محمد کی گائی ایک زمانے میں بڑی مقبول غزل کا وہ شعر بہت یاد آنا شروع ہوگیا ہے جو بڑی معصومیت سے اعتراف کرتا ہے کہ ''اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے''۔ پرویز مشرف کی وابستگی ریاست کے ایک ایسے ادارے سے رہی ہے جو کئی برسوں تک ہمارے لیے ''صیاد'' کی صورت ہی رہا اور ہم اس کے مزید بالاتر نہ رہنے کا فی الحال سوچ بھی نہیں سکتے۔
پرویز مشرف ہی کے حوالے سے مقبول عام سوچ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور چند دوسرے خلیجی ممالک انھیں مصیبت کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ سعودی حکومت کا اس ضمن میں زیادہ اہم کردار اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کو ایک عدالت سے طیارہ اغوا کرنے کے سنگین الزام کے تحت سزا مل جانے کے باوجود اس نے انھیں رہا کرواکر برسوں ''سرور پیلس'' اپنی پناہ میں رکھا۔ پرویز مشرف کے سلسلے میں تاریخ خود کو دہرانے پر مجبور ہوجائے گی۔ اسی لیے سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ پاکستان کو صرف اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے جب کہ میری اطلاع اور سوچ دونوں کے مطابق معاملات ''اور بھی غم ہیں زمانے میں مشرف کے سوا'' کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ان معاملات کا اشارۃََ ذکر کرنے سے پہلے مجھے اصرار کرنا ہے کہ نواز شریف صرف سعودی دباؤ کی وجہ سے باعزت جلاوطنی نہیں حاصل کرپائے تھے۔ اصل کہانی 4جولائی 1999ء کے دن شروع ہوئی تھی جب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم کے طورپر واشنگٹن جانے پر مجبور ہوئے تاکہ کارگل کی دلدل میں مشرف کی طرف سے دھکیلی فوج کو باعزت واپسی کا راستہ فراہم کیا جاسکے۔ امریکی صدر پاکستانی وزیر اعظم کی مدد کرنا تو دور کی بات ہے ان سے ملاقات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ لیکن انھیں اس ملاقات پر اُن دنوں واشنگٹن میں تعینات سعودی سفیر نے راضی کرلیاتھا۔ نواز شریف سے اپنی ملاقات کے دوران صدر کلنٹن ایک بات پر اصرار کرتے رہے کہ جب تک پاکستان کارگل سے فوجی دستے واپس بلانے کا وعدہ نہیں کرے گا وہ بھارت کے وزیر اعظم کو فون تک نہیں کریں گے۔ نواز شریف کلنٹن کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستانی فوج کے چیف جنرل مشرف کارگل میں اپنے لوگوں کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کشمیری مجاہدین نے ان چوٹیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ صدر کلنٹن اس ملاقات سے قبل Centcomکے اس وقت کے سربراہ جنرل زینی کو پاکستان بھیج چکے تھے جنہوں نے ٹھوس انٹیلی جنس کی بنیاد پر بنائے نقشوں اور تصاویر کے ذریعے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو صاف الفاظ میں بتادیا تھا کہ انھیں حقیقت کا پوری طرح علم ہے۔ صدر کلنٹن نے اسی حوالے سے کچھ اور ثبوت نواز شریف کو 4جولائی 1999ء کے روز دکھا کر مزید پریشان کردیا۔ ان کے پاس یہ وعدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا کہ وہ پاکستان لوٹ کر کارگل سے اپنی افواج واپس لانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ یہ وعدہ کرنے کے ساتھ ہی نواز شریف نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ان کا یہ فیصلہ انھیں بالآخر پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ سنگین مسائل میں الجھا دے گا۔ اس موقعہ پر صدر کلنٹن نے انھیں یقین دلایا کہ اس صورت میں وہ ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔
صدر کلنٹن کے اسی وعدے کی روشنی میں شہباز شریف ستمبر1999ء میں اچانک امریکا چلے گئے تھے اور وہاں سے ایک سرکاری ترجمان نے باقاعدہ اعلان کیا کہ امریکا پاکستان میں کسی ''غیر جمہوری اقدام'' کی ہرگز حمایت نہیں کرے گا۔ ستمبر میں جاری اس بیان کے باوجود 12اکتوبر ہوگیا۔ ہوسکتا ہے ''12اکتوبر'' نہ ہوتا اگر نواز شریف جنرل مشرف کو ہٹانے کا کوئی اور طریقہ استعمال کرتے۔ بہرحال وجوہات جو بھی رہی ہوں نواز شریف کی بساط اُلٹ گئی۔ وہ جیل بھیج دیے گئے۔ انھیں بچانے کی کوششیں ان کے چند عرب دوستوں نے جنوری 2000ء سے ہی شروع کردی تھیں مگر قطر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں کی طرف سے باقاعدہ درخواستوں کے باوجود جنرل مشرف نواز شریف کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوپارہے تھے۔ بالآخر نواز شریف کے بہی خواہ امریکی صدر سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔ انھیں کارگل بحران کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم سے کیا وعدہ یاد دلایا گیا۔ 2000ء ویسے بھی کلنٹن کا وائٹ ہاؤس میں آخری سال تھا۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ اپنی دوسری میعادِ صدارت ختم ہونے سے پہلے وہ نوازشریف کے بچاؤ کی کوئی صورت بنائیں۔ کلنٹن کے ایماء پر باقی سارا کھیل سعودی حکومت نے لبنان کے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر کھیلا۔ پرویز مشرف کے لیے صدر اوباما وہ جذبات نہیں رکھتے جو کلنٹن نواز شریف کے ضمن میں محسوس کرتے تھے۔
سعودی عرب کا ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ شام ہے اور اس بات کے ٹھوس امکانات کہ اوباما وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے ایران کے ساتھ کوئی ایسی گیم بنانا چاہ رہے ہیں جو نکسن نے اپنے آخری دور میں چین کے ساتھ رچائی تھی۔ سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ پاکستان میں یہ دونوں امور ہی سہرِ فہرست رہے ہیں۔
لاطینی امریکا کا ایک پروفیسر تھا جس نے بڑی تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا تھا کہ ایک مخصوص ماحول میں بندھے رہنے کے باعث لوگ نئی باتیں سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔ ماحول اور عام زندگی کے معمولات سے جڑی اس عادت کو اس نے Path Dependenceکا نام دیا۔ یعنی ایک جانی پہچانی صدیوں سے استعمال ہونے والی ڈگر پر چلتے رہنے کی مجبوری جو نئے راستے ڈھونڈنے کی ضرورت اور خواہش کو انجان کے خوف سے ختم کردیتی ہے۔ اسی حوالے سے مجھے ان دنوں حبیب ولی محمد کی گائی ایک زمانے میں بڑی مقبول غزل کا وہ شعر بہت یاد آنا شروع ہوگیا ہے جو بڑی معصومیت سے اعتراف کرتا ہے کہ ''اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے''۔ پرویز مشرف کی وابستگی ریاست کے ایک ایسے ادارے سے رہی ہے جو کئی برسوں تک ہمارے لیے ''صیاد'' کی صورت ہی رہا اور ہم اس کے مزید بالاتر نہ رہنے کا فی الحال سوچ بھی نہیں سکتے۔
پرویز مشرف ہی کے حوالے سے مقبول عام سوچ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور چند دوسرے خلیجی ممالک انھیں مصیبت کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ سعودی حکومت کا اس ضمن میں زیادہ اہم کردار اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کو ایک عدالت سے طیارہ اغوا کرنے کے سنگین الزام کے تحت سزا مل جانے کے باوجود اس نے انھیں رہا کرواکر برسوں ''سرور پیلس'' اپنی پناہ میں رکھا۔ پرویز مشرف کے سلسلے میں تاریخ خود کو دہرانے پر مجبور ہوجائے گی۔ اسی لیے سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ پاکستان کو صرف اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے جب کہ میری اطلاع اور سوچ دونوں کے مطابق معاملات ''اور بھی غم ہیں زمانے میں مشرف کے سوا'' کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ان معاملات کا اشارۃََ ذکر کرنے سے پہلے مجھے اصرار کرنا ہے کہ نواز شریف صرف سعودی دباؤ کی وجہ سے باعزت جلاوطنی نہیں حاصل کرپائے تھے۔ اصل کہانی 4جولائی 1999ء کے دن شروع ہوئی تھی جب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم کے طورپر واشنگٹن جانے پر مجبور ہوئے تاکہ کارگل کی دلدل میں مشرف کی طرف سے دھکیلی فوج کو باعزت واپسی کا راستہ فراہم کیا جاسکے۔ امریکی صدر پاکستانی وزیر اعظم کی مدد کرنا تو دور کی بات ہے ان سے ملاقات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ لیکن انھیں اس ملاقات پر اُن دنوں واشنگٹن میں تعینات سعودی سفیر نے راضی کرلیاتھا۔ نواز شریف سے اپنی ملاقات کے دوران صدر کلنٹن ایک بات پر اصرار کرتے رہے کہ جب تک پاکستان کارگل سے فوجی دستے واپس بلانے کا وعدہ نہیں کرے گا وہ بھارت کے وزیر اعظم کو فون تک نہیں کریں گے۔ نواز شریف کلنٹن کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستانی فوج کے چیف جنرل مشرف کارگل میں اپنے لوگوں کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کشمیری مجاہدین نے ان چوٹیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ صدر کلنٹن اس ملاقات سے قبل Centcomکے اس وقت کے سربراہ جنرل زینی کو پاکستان بھیج چکے تھے جنہوں نے ٹھوس انٹیلی جنس کی بنیاد پر بنائے نقشوں اور تصاویر کے ذریعے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو صاف الفاظ میں بتادیا تھا کہ انھیں حقیقت کا پوری طرح علم ہے۔ صدر کلنٹن نے اسی حوالے سے کچھ اور ثبوت نواز شریف کو 4جولائی 1999ء کے روز دکھا کر مزید پریشان کردیا۔ ان کے پاس یہ وعدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا کہ وہ پاکستان لوٹ کر کارگل سے اپنی افواج واپس لانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ یہ وعدہ کرنے کے ساتھ ہی نواز شریف نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ان کا یہ فیصلہ انھیں بالآخر پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ سنگین مسائل میں الجھا دے گا۔ اس موقعہ پر صدر کلنٹن نے انھیں یقین دلایا کہ اس صورت میں وہ ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔
صدر کلنٹن کے اسی وعدے کی روشنی میں شہباز شریف ستمبر1999ء میں اچانک امریکا چلے گئے تھے اور وہاں سے ایک سرکاری ترجمان نے باقاعدہ اعلان کیا کہ امریکا پاکستان میں کسی ''غیر جمہوری اقدام'' کی ہرگز حمایت نہیں کرے گا۔ ستمبر میں جاری اس بیان کے باوجود 12اکتوبر ہوگیا۔ ہوسکتا ہے ''12اکتوبر'' نہ ہوتا اگر نواز شریف جنرل مشرف کو ہٹانے کا کوئی اور طریقہ استعمال کرتے۔ بہرحال وجوہات جو بھی رہی ہوں نواز شریف کی بساط اُلٹ گئی۔ وہ جیل بھیج دیے گئے۔ انھیں بچانے کی کوششیں ان کے چند عرب دوستوں نے جنوری 2000ء سے ہی شروع کردی تھیں مگر قطر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں کی طرف سے باقاعدہ درخواستوں کے باوجود جنرل مشرف نواز شریف کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوپارہے تھے۔ بالآخر نواز شریف کے بہی خواہ امریکی صدر سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔ انھیں کارگل بحران کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم سے کیا وعدہ یاد دلایا گیا۔ 2000ء ویسے بھی کلنٹن کا وائٹ ہاؤس میں آخری سال تھا۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ اپنی دوسری میعادِ صدارت ختم ہونے سے پہلے وہ نوازشریف کے بچاؤ کی کوئی صورت بنائیں۔ کلنٹن کے ایماء پر باقی سارا کھیل سعودی حکومت نے لبنان کے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر کھیلا۔ پرویز مشرف کے لیے صدر اوباما وہ جذبات نہیں رکھتے جو کلنٹن نواز شریف کے ضمن میں محسوس کرتے تھے۔
سعودی عرب کا ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ شام ہے اور اس بات کے ٹھوس امکانات کہ اوباما وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے ایران کے ساتھ کوئی ایسی گیم بنانا چاہ رہے ہیں جو نکسن نے اپنے آخری دور میں چین کے ساتھ رچائی تھی۔ سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ پاکستان میں یہ دونوں امور ہی سہرِ فہرست رہے ہیں۔