جمہوریت کی نئی جہتیں
جمہوریت فکری کثرتیت اور ثقافتی تنوع کے علاوہ عام شہری کی فکری ،سماجی اور معاشی آزادی سے مشروط ہوتی ہے۔۔۔
جمہوریت فکری کثرتیت اور ثقافتی تنوع کے علاوہ عام شہری کی فکری ،سماجی اور معاشی آزادی سے مشروط ہوتی ہے۔مختلف عقائدونظریات اور نسلی ولسانی گروہوں کے لیے پائی جانے والی قبولیت اور ہر شہری کو اپنی اہلیت اور قابلیت کے بل بوتے پر ترقی کرنے اوراعلیٰ ترین مرتبہ تک پہنچنے کا حق،کسی معاشرے میں جمہوری اقدار کے توانا ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی سبب ہے جمہوریت کوصحیح طور پر برتنے کے لیے جمہوری اقدار سے آگہی اور اس کا ذاتی کردار سے منعکس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جمہوریت کے ثمرات اس وقت تک عام آدمی تک نہیں پہنچ سکتے،جب تک کہ ہر سطح پرہونے والی فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت کو یقینی نہ بنایا جائے اور بااثر حلقوں کے بے مہابہ اختیار کو کنٹرول نہ کیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے اقتدارواختیار نچلی ترین سطح تک منتقلی ضروری ہے،تاکہ شراکتی (Participatory) عمل کے ذریعے جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مزیدمستحکم بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محض انتخابی عمل کا جاری رہناکسی طورپر جمہوریت کا تسلسل قرار نہیں دیاجاسکتا بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ،جس میںدلیل کی بنیاد پر مکالمے کی گنجائش پیدا ہو اور کم وسائل رکھنے والے متوسط اور نچلے متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے سیاسی عمل میں شرکت کے مواقعے پیدا ہوسکیں۔
گزشتہ دنوں ارتقاء انسٹیٹیوٹ آف سول سائنسز نے حمزہ علوی فاؤنڈیشن کے تعاون سے دسویں حمزہ علوی لیکچر کا اہتمام کیا۔ اس لیکچر کے کلیدی مقرر بھارت سے آئے معروف ترقی پسند تاریخ دان اور مورخ ڈاکٹر ہربنس مکھیہ تھے،جب کہ صدارت برصغیر کے ایک اورنامور تاریخ دان اور سماجی دانشور ڈاکٹرمبارک علی نے کی۔ لیکچر کا موضوع ''لبرل جمہوریت :طویل دورانیہ کے تناظر میں'' تھا ۔اس مقالے میں برصغیر کے ممالک میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے وقتاً فوقتاًاٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ ان کے مقالے پر گفتگو کی جائے،پہلے ایک مختصرسا تعارف پروفیسر ہربنس مکھیہ کا اور کچھ باتیں حمزہ علوی کے بارے میںہونا چاہئیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ ان تینوںشخصیات کی سماجی مطالعے میں کیا اہمیت ہے۔پروفیسر حمزہ علوی ترقی پسند سوچ رکھنے والے مفکر اور سماجی نظریہ دان تھے۔ انھوں نے پورے جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان کے سیاسی و سماجی ڈھانچہ کاخاصاگہرا مطالعہ کیا اور اس پر کئی کتابیں تحریرکیں۔انھوں نے اپنا بیشتر وقت بیرون ملک گذارا جہاں وہ کئی نامور جامعات میںکئی دہائیوں تک درس وتدریس کے ساتھ تحقیق و تخلیق کے عمل میں مصروف رہے۔ ان کی تحقیق کا اصل محور برصغیر میں نوآبادیاتی دور میں زرعی طریقہ پیداوار رہا اورانھوں نے برصغیر کے زرعی پیداواری نظام کا یورپ کے زرعی نظام سے تقابلی جائزہ بھی لیا۔
پروفیسر ہربنس مکھیہ برصغیر کے ان معدوے چند تاریخ دانوں اور مورخین میں سے ایک ہیں ،جنہوں نے برصغیر کی تاریخ کا انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ان کاPh.Dکا مقالہHistory & Historiography During Regin of Akbarتھا۔لیکن ان کا دوسرا اہم مقالہ ہندوستان میں جاگیرداری کے بارے میں تھا، جس کا عنوان Was there Feudalism in Indian History?تھا۔وہ پورے برصغیر(بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش) میں نظم حکمرانی کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لینے میں بھی مقبولیت رکھتے ہیں۔اب جہاں تک ڈاکٹر مبارک علی کا تعلق ہے، تو وہ پاکستانی قارئین کے لیے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر چار درجن سے زائد کتابیں اور سیکڑوں کی تعداد میں مقالے اور ہزاروں کی تعداد میں اظہاریے تحریر کرچکے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انھوں نے پاکستانی نوجوانوں میں تاریخ کے مطالعہ کو مقبول بنانے میں کلیدی کردار اداکیا ہے۔
زیرنظرمقالہ میں پروفیسر ہربنس مکھیہ نے مغربی دنیابالخصوص یورپی ممالک میںکئی صدیوں سے جاری جمہوری عمل کا دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والے جمہوری تجربات کے ساتھ تقابل کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جس لبرل جمہوریت کا تصور آج ہمارے سامنے ہے، وہ مغربی دنیا سے ابھرا ہے اور زیادہ پرانا نہیں ہے۔یہ عمومی طور پر کثیرالجماعتی سیاسی نظام پر محیط ہوتاہے، جس میں کوئی ایک جماعت بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اکثریت لے کر اقتدار میں آتی ہے۔یہ دراصل اس نظم حکمرانی کا ارتقائی تسلسل ہے،جو آج سے ڈھائی تین سو برس قبل یورپ میں متعارف ہوا تھا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انتخابی عمل مخصوص مراعات یافتہ اور دولت مند طبقات کے مفادات کا کھیل بن گیا۔ جو دراصل اپنی معاشی طاقت کو سیاسی طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر حاصل ہونے والی سیاسی طاقت کو مزید دولت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس طرح طاقت کے اس کھیل میں عام آدمی کے مفادات کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں ہوتی، بلکہ اسے محض نعروں پر ٹرخایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس طریقہ انتخاب میں متوسط اورنچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اہل شہریوںکے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی گنجائش بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔یوں موجودہ جمہوریت جو سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہوچکی ہے، عام شہریوں کے مسائل اور ان کے حل میںکوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ لہٰذا جمہوریت کا یہ چہرہ عام آدمی کے لیے مایوسی کا سبب بن رہاہے،جس کی وجہ سے جمہوری نظم حکمرانی کو مختلف نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔
جب کہ دوسری جانب دنیا کے کچھ حصوں خاص طور پر لاطینی امریکا میں جمہوری نظم حکمرانی کے ایسے متنوع تصورات اور تجربات بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں،جو اپنے اندر نظریاتی اساس رکھتے ہیں۔جس کی وجہ سے عام شہری کے لیے انتخابی عمل کا حصہ بننے کے مواقعے بھی پیدا ہوئے ہیں اور اس کے مسائل کے حل کی سبیل بھی پیدا ہوئی ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم مثال ونزویلا میں آنجہانی ہوگو شاویز کی جانب سے کیے گئے اقدامات ہیں۔انھوں نے کلاسیکل کمیونسٹ نظریات کا سہارا لے کر سرمایہ داری اور کثیر الجماعتی لبرل جمہوریت کا راستہ روکنے کے بجائے جمہوری نظم حکمرانی کو عام شہری کی دسترس میں لانے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں ایک طرف اس کے مفادات کا تحفظ ہوا اور دوسری طرف اس میں سیاسی نظام کا حصہ بننے کی استطاعت پیداہوئی۔شاویز نے سرمایہ داری نظام میںجاری بے بہا منافعے کے رجحان کو کنٹرول کیا اور ساتھ ہی عوامی فلاحی امور جن میں تعلیم، صحت اور سماجی ترقی شامل ہیں ،کے لیے قومی وسائل کا بڑا حصہ مختص کیا۔انتخابی عمل کو دولت کا کھیل بننے سے روکنے کے لیے اہم انتخابی اصلاحات کیں۔یوں ونزویلاسمیت جنوبی امریکا کے چند ممالک نے اپنے سیاسی عمل اور جمہوری نظام میں ایسی تبدیلیاںکیں، جو برصغیر کے ممالک کے سماجی دانشوروںاور سیاسی جماعتوںکے لیے کسی حد تک نظیر بن سکتی ہیں۔
بعض دانشوروں کو شاید یہ بات ناگوار گذرے، لیکن برصغیرکے سماج کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس معاشرے میں مذہب کی جڑیں یورپ کے مقابلے میں خاصی گہری ہیں۔لیکن برصغیر کے سماج میںصوفیاء اور سنتوں کی تعلیم کے نتیجے میںجو وسیع القلبی پر مبنی متحمل مزاج معاشرہ تشکیل پایا،وہ مغرب کےSecular معاشرے سے زیادہ پراثر اورمؤثر تھا،بلکہ ہے۔سوچ کے اس انداز نے ثقافتی تنوع اورفکری کثرتیت کے لیے گنجائش پیدا کی۔یہ رجحان جمہوری معاشرت کے فروغ کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوسکتا ہے، بشرطیکہ اس فکری رجحان کو لاطینی امریکا کے تجربات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس تناظر میں پاکستان میں عوامی بے چینی کا جائزہ لیاجائے تو اس کا ایک سبب یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت کوئی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو برصغیر کے عوام کی عمومی نفسیات کو صحیح طورپرسمجھتی اور اسے بعدازسرد جنگ (Post Cold War)عالمی منظر نامے کا واضح ادراک ہو۔پیپلز پارٹی گو کہ نعروں کی حد تک غریبوں کی جماعت ہونے کی دعویدار ہے،لیکن اصل میں یہ ملک کے فرسودہ جاگیرداری نظام کو تحفظ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔اسی طرح مسلم لیگ (ن) بھی فکری طورپر متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی نمایندہ تنظیم نہیں ہے، بلکہ یہ سرمایہ داروں کے ایک مخصوص طبقے کی نمایندگی کرتی ہے۔تحریک انصاف اپنی فکری تضادات اور بلوغت سے عاری سیاست کی وجہ سے ان اہداف پر پوری نہیں اترتی۔ اس لیے پاکستان میںاس وقت ایک ایسی سیاسی جماعت کے لیے گنجائش(Space)پیدا ہوئی ہے، جو فکری طورپر اس خطے کے عوام کی عمومی نفسیات کو سمجھتی ہو اور تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے پر جس کی گہری نظرہو۔اس میںلاطینی امریکی ممالک کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے قومی وسائل کے بڑے حصے کو دیانت داری کے ساتھ عوامی فلاحی اسکیموں پر لگانے کا عزم ہو۔اس کے علاوہ عوام کی ریاستی امور میں براہ راست شرکت کی خاطر نیک نیتی کے ساتھ اقتدار واختیار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی خواہش رکھتی ہو۔صرف ایسی ہی مقبول و ملک گیر جماعت پاکستانی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال کر خوش حالی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔لہٰذا موجودہ نظام کے تسلسل کے ساتھ ہمیں جمہوریت کی نئی جہتوںکو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے بارے میں بھی غور وخوض کرتے رہنا چاہیے۔