عطیہ فیضی کو کچھ اور جانیے
عطیہ فیضی کا تعلق برصغیر کے نہایت پڑھے لکھے تہذیب یافتہ اور بااثر خاندانوں میں ہوتا ہے۔جیساکہ پچھلے کالم میں ذکرکیا۔۔۔
عطیہ فیضی کا تعلق برصغیر کے نہایت پڑھے لکھے تہذیب یافتہ اور بااثر خاندانوں میں ہوتا ہے۔ جیساکہ پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ کس طرح عطیہ اور ان کے شوہر فیضی رحمین قائد اعظم کی ذاتی درخواست پر پاکستان آگئے اور بھرپور طریقے سے فنون لطیفہ کی سرپرستی میں لگ گئے۔۔۔ ۔لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔؟ قائد اعظم کی وفات کے ٹھیک دس سال بعد دونوں میاں بیوی کو ان کے ذاتی گھر سے بے دخل کردیا گیا۔ اس وقت یقیناً دونوں اپنے فیصلے پہ پچھتا رہے ہوں گے کہ انھوں نے پاکستان آنے کی درخواست قبول کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس سے بھی بڑی غلطی آرٹس کونسل کو اپنی زمین عطیہ کرکے کی۔ اس وقت کی مارشل لا حکومت نے بین الاقوامی شہرت کے حامل میاں بیوی کو ان کے گھر سے نکال کر اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کی اور یہ بھی نہ سوچا کہ یہ خود نہیں آئے تھے۔
نہ ہی یہ لٹے پٹے مہاجر تھے بلکہ نہایت پرآسائش اور مالی آسودگی کے حامل تھے بمبئی میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ شاید کراچی آنا اور یہاں نئے آرٹسٹوں کے کام کو آگے بڑھانا اور ان کی پذیرائی کرنا اس وقت کے خدا بننے والے ڈکٹیٹر کو پسند نہ آیا۔ پتہ نہیں اس نے یہ انتقام کس سے لیا تھا۔ لیکن سوائے ایک انگریزی روزنامے سے وابستہ مارجری حسین کے کسی کی آنکھ سے آنسو نہ ٹپکا۔ مارجری نے ایک بہت پر اثر اور رلا دینے والا مضمون لکھا اور اجمل کمال نے ازراہ عقیدت اس کا اردو ترجمہ کرکے کتابی شکل میں ''کراچی کی کہانی'' کے عنوان سے ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ اپنے دور کی نہایت مقبول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کے ساتھ مارشل لا حکومت کے ایما پر اس وقت کے کمشنر نے عطیہ فیضی اور ان کے شوہر کو نہایت بے دردی اور سفاکی سے ان کے ذاتی گھر سے نکال باہر کیا جو ان کے ذاتی سرمایے سے بنا تھا۔ اس اذیت ناک صورت حال پر اردو ترجمے میں اجمل کمال کہتے ہیں:
''اس لمحے کے بعد سے اپنی موت تک ان ممتاز میاں بیوی کو بے انتہا توہین اور دشواری جھیلنی تھی۔ گھر سے نکال دیے جانے کے بعد ان کے جمع کیے ہوئے نوادرات اور تصویریں تھیلوں اور صندوقوں میں بند ہوگئیں۔ عطیہ بیگم کے جمع کیے ہوئے علاقائی ملبوسات کے نمونے، جواہرات، کتابیں، ڈائریاں اور نجی کاغذات۔۔۔۔ثقافت اور زندگی بھر کی کمائی۔۔۔۔۔ان کے چھینے جا چکے گھر کے باہر بندھے پڑے تھے ۔۔۔۔کوئی چارہ نہ پاکر یہ معروف اور معزز میاں بیوی پڑوس کے ایک تنگ و تاریک ہوٹل (نگار ہوٹل حقانی چوک، جو اب مال گودام بن چکا ہے)میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگے۔ ان کا قیمتی سامان اس چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں ڈھیر کی صورت میں پڑا رہتا۔ عطیہ بیگم نے اپنے جوہرات کو ایک ایک کرکے بیچنا شروع کردیا۔ تاکہ زندگی کے اخراجات پورے کرسکیں۔۔۔۔نئے آرٹسٹ شہرت پا رہے تھے۔
فیضی رحمین کو اب کوئی کام نہ ملتا تھا (اس لیے کہ یہاں ان کا کوئی عزیز کسی بڑی پوسٹ پہ نہیں تھا) ان کی بے بہا تصاویر کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ جن ڈبوں میں یہ تصویریں بند کرکے رکھی گئی تھیں ان میں سیلن اور پھپھوندی نے راہ پالی تھی اور آرٹسٹ کا قیمتی کام ضایع ہونے لگا تھا''۔ ''ایوان رفعت'' دوسرے مارشل لا کے خاتمے کے بعد بلدیہ کراچی کی تحویل میں چلا گیا۔ 1993 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ نے بڑی شان سے عمارت کا سنگ بنیاد رکھ کر اعلان کیا کہ ان عظیم میاں بیوی کے کام کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک تھیٹر بنایا جائے گا۔ عطیہ اور فیضی رحمین کے نوادرات اور تصاویر کو محفوظ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا تو اعلان کیا گیا لیکن۔۔۔۔ ''ہنوز دلی دور است'' اور پھر اچانک نہ جانے کس کے حکم پر اس عمارت کو مسمار کردیا گیا۔ تمام تصاویر کو ڈبوں میں بند کرکے صادقین آرٹ گیلری کو بھجوادیا گیا۔۔۔۔۔ کاش یہ تصاویر لندن، پیرس یا بمبئی میں کسی آرٹ گیلری کو دے دی جاتیں تواچھا تھا۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو کسی بھی طرح اس کے اہل نہیں ہیں۔ نادر کتابیں، تصاویر، علمی فن پارے، پرانی عمارتیں، تاریخی مقامات لاہور، کراچی، ٹھٹھہ، مکلی، پشاور، ٹیکسلا اور دیگر مقامات کس طرح خستہ حالی کا شکار ہیں۔ یہ سب کے سامنے ہے۔
وہ قوم جس کا تاریخی و تہذیبی ورثہ علم و ادب اور فنون لطیفہ کی آبیاری اور حفاظت تھا وہ اب دہشت گردوں، قاتلوں اور خودکش بمباروں کی حفاظت کر رہی ہے۔ ہاں اگر عطیہ فیضی کا کوئی عزیز حکومت میں شامل ہوتا تو اب تک ان کے نام سے بہت کچھ بن چکا ہوتا۔ آرٹس کونسل پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن انھوں نے جس طرح ڈاکٹر رشید جہاں، میڈم آزوری اور عطیہ فیضی کو فراموش کردیا وہ بہت دکھ کی بات ہے۔ یہ فیمنسٹ وہ لوگ ہیں جو جب تک سامنے والے کی جیبوں میں موجود سکوں اور ان کے بیرون ملک تعلقات کی وسعت کا اندازہ نہ ہوجائے ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ عطیہ فیضی اور ان کی دونوں بہنیں، زہرہ بیگم اور نازلی رفیعہ بیگم صحیح معنوں میں حقوق نسواں کی علم بردار تھیں۔
نازلی رفیعہ بیگم جو نواب سدی احمد خاں کی اہلیہ تھیں۔ خود بھی صاحب تصنیف تھیں۔ ان کے لکھے گئے سفر نامے ''سیر یورپ'' کا شمار اردو کے اولین سفر ناموں میں ہوتا ہے۔ عطیہ کی والدہ امیرالنساء بیگم بھی صاحب تصنیف تھیں۔ ان کے روشن خیال والد حسن علی فیضی سلیمانی بوہرے تھے، اور ان کا آبائی وطن گجرات تھا۔ انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی تینوں بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اس خاندان کے ذاتی مراسم علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال سے تھے۔ اسی لیے ان دونوں بہت بڑی اور عالمانہ شخصیات کے خطوط اور تحریروں میں وہ شائستہ بے تکلفی بھی ملتی ہے جو عموماً قریبی دوستوں میں پائی جاتی ہے۔ نصراللہ خاں نے عطیہ فیضی کو قلوپطرہ کا ہم پلہ قرار دیا ہے کہ قلوپطرہ ایک ملک کی حکمراں تھی اور عطیہ کی حکومت بڑے بڑے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں فلسفیانہ سوچ رکھنے، عورتوں کی ذہانت اور قابلیت کو تسلیم کرنے والوں کے دل و دماغ پر تھی۔ نصراللہ خاں ایک جگہ کہتے ہیں۔
''عطیہ کی شخصیت انتہائی پراسرار تھی۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ وہ ایک پوری تہذیبی زندگی کی امین تھی''۔۔۔۔۔لیکن ہم تو انھیں بہت جلد بھول گئے۔ یہ میاں بیوی اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ اس کے باوجود جب انھیں فوجی حکومت کے ایما پر دربدر کیا گیا تو ان شاگردوں نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی جن کے کام کو انھوں نے آگے بڑھایا تھا۔ اس شہر بے مثال (ماضی کا) میں کوئی ''آرٹ لور'' نہ تھا جو ان کے کام کی گیلری بنواکر اپنے نام کی تختی کی نقاب کشائی کرکے آرٹ کی دنیا میں اپنا نام امر کردیتا۔۔۔۔شاید اس زمانے میں سرمایہ داروں نے ''ادب کی خریداری'' کرکے ''آرٹ لورز'' کہلانے میں فائدہ محسوس نہیں کیا تھا؟ آج پورے پاکستان میں یونیورسٹیوں میں ملازمت کے حصول کے لیے تھوک کے بھاؤ لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔
لیکن کئی کتابوں کی مصنفہ اور مکمل طور پر کئی زبانیں روانی سے بولنے والی عطیہ فیضی کسی کو یاد نہیں کیونکہ اس کے لیے مطالعہ کرنا پڑے گا، ببلو گرافی بنانا پڑے گی ، محنت طلب کام ہے ، لیکن جب چوری کے مقالوں کے گائیڈ کی مرضی و منشا سے اعلیٰ ترین ڈگری آسانی سے مل رہی ہو تو عطیہ فیضی کی کھوج کون کرے گا۔۔۔۔سفارشوں، معاوضوں اور مسروقہ مقالوں کے نگرانوں کو بھی عطیہ اور ان کے کام کے بارے میں پتہ نہیں ہوگا۔ ان کی وفات سے چند دن قبل ریڈیو پاکستان کے ایک نمایندے ایس ایم سلیم نے جناح اسپتال کراچی میں ان کا انٹرویو کیا اور ان کی کسمپرسی دیکھ کر دکھی دل کے ساتھ پوچھا۔۔۔ ''بیگم صاحبہ! کیا ان حالات میں آپ یہ نہیں سوچتیں کہ آپ کی کوئی اولاد ہوتی۔۔۔۔ کوئی بیٹا ہوتا اور وہ آپ کی خدمت کرتا''۔ عطیہ نے کہا ''اور اگر وہ نالائق ہوتا''۔۔۔۔؟سوال کرنے والے کے ہونٹ سل گئے ، کیا یہ آج کا زہریلا سچ نہیں کہ اکلوتے بیٹے بڑے بڑے عہدوں پہ فائز ہوکر اپنے ضعیف والدین کو بھول گئے اور انھیں اکیلے مرنے کے لیے چھوڑ کر بیگم کی بارگاہ میں سربسجود ہوگئے۔ گزشتہ کالم پر کئی طویل SMS آئے اور انھوں نے مجھے یاد دلایا کہ کیا فیضی رحمین کے لیے اتنا ہی۔۔۔۔؟ چند سطریں۔۔۔۔؟ کیا اس کاکام ایک مکمل کالم کا بھی مستحق نہ تھا۔۔۔؟ان کی بات سر آنکھوں پر۔ فیضی رحمین کو بھی ان کا حق ملے گا۔۔۔۔مگر اگلے کالم میں۔