محبت اور سمندر کبھی بوڑھے نہیں ہوتے

shabnumg@yahoo.com

shabnumg@yahoo.com

سردیاں شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہ تہوار ان قوموں کے مثبت انداز فکر اور متحرک ہونے کی نوید دیتے ہیں۔ نئے سال کا جشن بھی دنیا بھر کے ممالک میں منایا جاتا ہے۔ فضا میں مثبت قوت کی لہریں ان قوموں کو سال بھر تر و تازہ رکھتی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں صورت حال مختلف ہے۔ نئے سال کے آغاز میں کراچی شہر میں کئی حفاظتی اقدامات دیکھنے میں آئے۔ اس کی وجہ شہریوں کا ایسے مواقعے پر بے قابو ہو جانا ہے۔ فائرنگ میں کافی لوگ جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ دنیا کی دوسری قومیں نئے سال کا جشن ہاتھوں میں پھول اٹھا کر گاتے رقص کرتے ہوئے مناتی ہیں اور ہم فضا کو بارود کے دھوئیں سے مزید آلودہ کر دیتے ہیں اور ماحول میں عجیب سی وہشت طاری ہو جاتی ہے۔ خوشی کا یہ اظہار اذیت پسند رویوں کی دلیل بن جاتا ہے۔ اذیت پسندی جو قومی مزاج کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ سردی کی تیز لہر نے اہل کراچی کو گھروں تک محدود کر دیا اور سمندر کی لہریں گیت گاتی رہیں۔ فطرت کے پاس بھی اپنے احساس کے اظہار کے مختلف ذرایع ہیں۔ لیکن ہم میں نہ تو فطرت کی خوبصورتی کو محسوس کرنے کی حس باقی رہی ہے اور نہ ہی خوشی کو منانے کا سلیقہ۔

نئے سال کے جشن کو سمندر منفرد انداز میں مناتا رہا۔ حالانکہ وہ کراچی کے سرد ترین دن تھے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد سمندر پر موجود تھی۔ سردی کی دوپہر میں سمندر کی لہریں چاندی کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ سمندر کی پراسراریت دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کی مخصوص مہک احساس میں رچ بس جاتی ہے۔ سمندر دھند اور دھوئیں میں لپٹا ہوا نئے سال کا جشن مناتا رہا۔ لہریں اہل زمین کے المیوں سے بے خبر گنگناتی رہیں۔

سردی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اب موسم بدلنے لگے ہیں۔ انھوں نے بھی جارحانہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔ انسان نے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر دیا ہے اور فطرت بھی انتقام لینے پر اتر آئی ہے۔ صنعتی زندگی اور پاور پلانٹس نے فضاؤں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آلودہ کر دیا ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کے مطابق امریکا میں ان پاور پلانٹس سے 2.4 بلین پوائنٹ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ وہاں پر ماحولیات کے ماہر سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس مہلک مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالیں، جو کرہ ارض پر موجود جانداروں کی بقا و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سمندر کی سطح پر گرمی کا بڑھتا ہوا تناسب سمندر کی اندرونی سطح میں آکسیجن کی مقدار میں کمی واقع کر دے گا۔ جس کی وجہ سے سمندر کی مخلوق کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

جدید ریسرچ کے مطابق پانی کی قربت انسان کی ذہنی و روحانی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے۔ دریا، نہریں، تالاب و سمندر ذہنی دباؤ میں کمی واقع کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سمندر کے خوبصورت منظر فقط نگاہوں کو طراوت نہیں بخشتے بلکہ وہ ہماری سہمی ہوئی فطرت کو خود اعتمادی اور طاقت بخشتے ہیں۔ کیونکہ سمندر گہرائی، عظمت اور قوت کا سرچشمہ ہے۔ سمندر کی لہروں میں زندگی کی توانائی موجود ہے۔ یہ کہیں رکتی اور تھکتی نہیں ہیں، بلکہ ایک جذبے کے ساتھ، اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہیں۔ ان لہروں میں زمین کی دھڑکنیں پنہاں ہیں۔ تخلیق کا جوہر اور شفاف بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ سمندر میں ایک لچک اور تحرک پایا جاتا ہے۔ جس میں انسانی زندگی کے لیے بہت بڑا سبق مضمر ہے۔


اور اس وقت جب سمندر کی لہریں سورج کی کرنوں میں لپٹی ہوئی ساحل کی طرف تیزی سے آتی ہیں، اور کھلے دل سے اپنا اظہار کر کے واپس پلٹتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ سب کچھ بھول کے دوبارہ اپنے محور کی طرف جا رہی ہیں۔ اظہار کے بعد کا سکون کہ منفی باتیں بھول جاؤ، دکھ اور تکلیف کو بیان کر کے ہلکے ہو جاؤ، بالکل ان لہروں کی طرح جو اظہار کے بعد شفاف ہو جاتی ہیں اور ان لہروں کے آواز، جو تیزی سے جب ساحل کی طرف بڑھتی ہیں اور ریت پر سیپیوں کی بارش برسا کر واپس پلٹتی ہیں تو ایک پرسکون نغمہ تھکے ہوئے احساس کو لوری دیتا ہے۔ ایک لہر آتی ہے، اس لمحے کو سمیٹ کر لے جاتی ہے۔ پھر نئی لہریں امڈی چلی آتی ہیں نئے پن کا احساس دینے۔ سمندر ہمیں ہر پل چوکنا رہنے اور حال کے بہاؤ کے ساتھ چلنے پر اکساتا ہے۔ لہروں کی موسیقی پریشان کن سوچوں کو منتشر کرتی ہے۔ آوازیں جو کائنات میں ہر طرف متحرک ہیں۔ اس Power of Frequency، آواز و ارتعاش کا انسانی ذہن و روح پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز کا اپنا ارتعاش ہے۔ خاص کر فطرت کی آوازیں، پرندوں کی چہچہاہٹ، درختوں کی سرسراہٹ، بارش کا آہنگ، ہواؤں کے سر، جھرنوں کا ترنم، لہروں کا گیت نہ فقط ہمارے کانوں سے ذہن تک رسائی رکھتے ہیں، بلکہ نروس سسٹم پر اثر انداز ہونے کے ساتھ جسم کے خلیوں تک کو متاثر کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہروں میں آواز کی آلودگی عروج پر ہے۔

ٹریفک کا ہجوم سماعتوں پر گراں گزرتا ہے۔ گو کہ دور جدید کا انسان ان بے ہنگم آوازوں کا عادی ہوچکا ہے۔ مگر ان آوازوں کا اعصابی نظام اور صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غصہ، بے خوابی، اضطراب اور بہرے پن کی شکایتیں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق آمد و رفت کے ذرایع آواز کی آلودگی کی وجہ ہیں، جس میں رود، ریل اور ہوائی جہاز کے ذریعے شامل ہیں۔ کراچی کے راستے ہوں یا شاہراہیں یا بازار ہر جگہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کی غلط پارکنگ نظر آتی ہے۔ پارکنگ ایریاز دور ہیں اور وہاں گاڑی یا موٹر سائیکل پارک کرنے کی صورت میں پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں لوگ بہت دور گاڑی پارک کر کے پیدل چلتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ چست اور فعال رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑی چلانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز دکھائی دیتا ہے اور وہ بار بار بلاوجہ ہارن بجاتے ہیں۔ تو کیا ہم انفرادی طور پر ان غلط رویوں کا حصہ نہیں بن چکے ہیں؟ اتنے شور و غل میں پھر فطرت کی آوازیں کہاں سے سنائی دیں گی؟ ابھی پچھلے سال کی بات ہے صدر کے علاقے میں قدیم درختوں پر بیٹھی کوئل کوکتی تھی۔ اس کی خوبصورت آواز ایسی تھی کہ سمندر کا سکوت بھی توڑ کے رکھ دے مگر لوگ ٹریفک کے جھمیلوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ایک بے زار خود سے تھکی ہوئی زندگی شاہراہوں پر رواں دواں تھی۔ جسے فطرت کی خوبصورت آوازوں سے کوئی غرض نہ تھی۔

سمندر سے ایک گہری لہر آئی اور میری سوچوں کا تسلسل بکھر گیا۔

''یا اللہ آج کس قدر سردی ہے'' ایک خوبصورت لڑکی نے اپنے سوئیٹر کی کالر سے گال ڈھکتے ہوئے کہا۔ میں نے دیکھا لڑکی کے خوبصورت گورے پاؤں کے قریب لہروں میں جھلملاتی سیپیاں ڈول رہی تھیں۔ سمندر ویسا ہی دلکش تھا جیسے بہت سال پہلے دکھائی دیتا تھا۔ پرسکون زمانوں میں جب چاہتے کراچی دوڑے چلے آتے تھے۔ پھر ہم ہوتے اور ساحل سمندر کی ہوائیں ہوا کرتی تھیں۔ کراچی کے حالات خراب ہونے کے بعد آنکھوں اور سمندر کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ مگر سمندر کا تصور پلکوں پر ٹکا رہا۔ اس کی لہروں کی آواز تصور کے کانوں میں گنگناتی رہتی۔ سمندر عطا کرتا ہے۔ خوبصورت نظارے تو کبھی اپنا خزانہ نچھاور کر دیتا ہے۔ وہ محبت بھرے دل کی طرح فراخ ہے۔ محبت اور سمندر جو کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔
Load Next Story