کوچۂ سخن

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔فوٹو : فائل

غزل
بچھائے گی لکیریں اور حدیں تشکیل دے گی
ہماری آنکھ غم کی صورتیں تشکیل دے گی
یہ دل اتنی ہی بے انداز وحشت میں جلے گا
محبت جس قدر گنجائشیں تشکیل دے گی
اذیت حرف سب دھندلا کے رکھ دے گی وفا کے
اداسی بے محابا ظلمتیں تشکیل دے گی
میں تیرے واسطے جس درجہ آسانی کروں گا
مرے حق میں تُو اتنی مشکلیں تشکیل دے گی
یہ بے کاری بڑھائے گی بہت سے درد دل کے
یہ بے چینی بہت سی الجھنیں تشکیل دے گی
فقط اس آس پر تم سے اجازت چاہتے ہیں
محبت پھر سے دوبارہ ہمیں تشکیل دے گی
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)


۔۔۔
غزل
خزاں کے عہد میں یوں موسمِ بہار آئے
کہ جیسے دشت میں آباد اک مزار آئے
حصولِ خیر کا باعث ہے اس لیے یہ زمیں
لگامِ عشق کو تھامے یہاں سوار آئے
تو کیا ہُوا جو تہی دست لوٹا تُو دل سے
یہاں تو تجھ سے بھی پہلے کئی ہزار آئے
میں بے بسی کی نہ جانے ہوں کون سی حد پر
اکیلے پن نے جو مارا تو رونے یار آئے
غموں کے بعد خوشی ہے جو زندگی میں قمرؔ
خدا کا شکر برا وقت ہم گزار آئے
(قمر نیاز۔ ملتان)


۔۔۔
غزل
جب جب بھی کسی خطۂ تسخیرکا سوچا
خالق تری جنت ،ترے کشمیر کا سوچا
اک عرصہ تلک میں نے بُنے خواب سنہرے
پھر بیٹھ کے تنہا کہیں تعبیر کا سوچا
سر جوڑ کے بیٹھے رہے پہلے وہ زمیں پر
پھر کوزہ گروں نے تری تصویر کا سوچا
قربت بھی وہ شئے ہے کہ میسرجسے آئے
جاتے ہوئے قیدی نے بھی زنجیر کا سوچا
جب کرچیاں چھبنے لگیں ٹوٹے ہوئے دل کی
میں نے دلِ بے کار کی تعمیر کا سوچا
(اسد رضا سحر ۔احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
ہمارے مرنے پہ سوز خوانی نہ مرثیہ ہو
جنازہ جائے تو ساتھ میں اک غزل سرا ہو
میں سر جھکاؤں تو میری بخشش یقینی ہوگی
اے شاہ زادے تم ابنِ شاہ ہو یا پھر خدا ہو
ہم اپنی قسمت کا رونا روتے ہوئے مریں گے
ہماری خاطر تو غیر ممکن ہے معجزہ ہو
اب اپنی آنکھیں بھی ہم گلی پر جمائے رکھیں
کہیں یہ اڑتا ہوا کبوتر ہی عندیہ ہو
ہر ایک دستک پہ دل دھڑکتا ہے نجم ایسے
کہ جیسے مصرع نئی غزل لے کے آ رہا ہو
(نجم الحسن۔ حویلیاں)


۔۔۔
غزل
نیند پلکوں کے کناروں پہ دھری رہتی ہے
خواب میں سبز جزیرے کی پری رہتی ہے
جھاڑ جھنکار سا بکھرا ہوا رہتا ہے دماغ
شاخ ِ دل پر کئی یادوں سے ہری رہتی ہے
ذہن اک ہجر کی وحشت میں دھنسا رہتا ہے
جیب تنہائی کے سکوں سے بھری رہتی ہے
اس کو فرصت نہیں سننے کو مری بات کوئی
اس لیے ذہن پہ آشفتہ سری رہتی ہے
دل دھڑک اٹھتا ہے ہر چاپ پہ شاید وہ ہو
آنکھ دروازے پہ ہروقت دھری رہتی ہے
دیکھنے کو تو نظر آتی ہے مضبوط بہت
ایک کم سن مگر اندر سے ڈری رہتی ہے
(حنا عنبرین۔ کروڑ لعل عیسن، لیہ)


۔۔۔
غزل
نام اس کا نہیں فسانے میں
جس کو صدیاں لگیں تھیں آنے میں
تم سے کرتے ہی بات الفت کی
ہم تو رسوا ہوئے زمانے میں
بے رخی اور بڑھ گئی ان کی
دیر سے حال ِدل سنانے میں
عمر بھر کے جو عہد و پیماں تھے
چند لمحے لگے بھلانے میں
مجھ کو سچ کا گمان ہوتا ہے
تیرے جھوٹے ہر اک بہانے میں
میری خاطر معین دنیا کو
کیوں ہے تا خیر آزمانے میں
(معین فخر معین۔ کراچی)


۔۔۔


غزل
اپنی بنیاد اٹھاتے رہے تعمیر کے ساتھ
اس لیے خواب بھی آئے مجھے تعبیر کے ساتھ
جانے والوں نے کبھی حال نہ پوچھا آ کر
چٹھیاں روز ملیں خون کی تحریر کے ساتھ
کھول کرکون گیا پاؤں کی زنجیروں کو
اور میں دوڑ پڑا تھا اسی زنجیر کے ساتھ
ایک آواز سی آتی رہی آوازکے بعد
بات کرنے لگاجب میں تری تصویر کے ساتھ
ہم کو زخموں کی حفاظت کا بھرم رکھنا تھا
ہم کو مرہم بھی لگایا گیا شمشیر کے ساتھ
جھنگ کی عظمت مری توقیر بڑھا دیتی ہے
عشق زندہ ہے کہانی میں رضا ہیر کے ساتھ
(ساجد رضا خان۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل
جانے کیسے جہاں میں رہتے تھے
ہر گھڑی ہی گُماں میں رہتے تھے
آج راہوں کی دھول ہیں تو کیا؟
کل تلک آسماں میں رہتے تھے
فاختہ اَمن کی علامت تھی
تیر جب تک کماں میں رہتے تھے
کر دیا یاد نے تری بے گھر
ورنہ آنسو مکاں میں رہتے تھے
کس قدر پرسکون تھے راحل
جب کسی کی اماں میں رہتے تھے
(علی راحِل۔ بُورے والا)


۔۔۔
غزل
جو مجھ میں شے ہے ابھی کے ابھی نکالتا ہوں
میں دل نچوڑ کے سب روشنی نکالتا ہوں
مرے وجود سے تب لاوجود بولتا ہے
میں اپنے بھید سے جب شاعری نکالتا ہوں
میں موسموں کو سکھاتا ہوں ضبط کے معنی
پھر ایک پیڑ سے سب خامشی نکالتا ہوں
کئی غموں کا مداوا ہے ترا ہونا بھی
ترے ظہور سے اپنی خوشی نکالتا ہوں
ہے میرے فن کی ریاضت کا معجزہ یہ ا بیض
قلم کی نوک سے جو زندگی نکالتا ہوں
(عامر الطاف ابیض۔دیپالپور، اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
فلک فلک وہ تخیل غزل غزل یہ زمین
بس اک حنائی ہتھیلی پہ ہے سپھل یہ زمین
جمود حشر کا زینہ ہے، والہانہ چلو
دعا کرو نہ رکے کاش ایک پل یہ زمین
یہ شامیانہ فلک کا فضا کا نمگیرہ
بچھا ہے تا بہ ابد خیمۂ ازل یہ زمین
یہ دور کاٹتی عمرِ رواں کو چاٹتی ہے
خلائے ذہن میں آوارہ آج کل یہ زمین
چلو کہ زہرہ پہ ڈیرہ جماتے ہیں ابدالؔ
بنی ہمارے لیے خانہ ٔ اجل یہ زمین
(عامر ابدال۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
آپ کا ہاتھ خوبصورت ہے!
اس لیے ساتھ خوبصورت ہے
بات بے بات آپ کی ہی بات
اس لیے بات خوبصورت ہے
جیت کر کھل اٹھا ترا چہرہ
سو مری مات خوبصورت ہے
دردسے بھر گیا مرا کاسہ
تیری خیرات خوبصورت ہے
دیکھ کر، دیکھتا ہوں میں تجھ میں
کون سی بات خوبصورت ہے
دیکھیے دل کی ٹہنیوں پہ زبیر ؔ
ایک اک پات خوبصورت ہے
(زبیر قیصر۔اٹک)


۔۔۔
غزل
چٹختے، ٹوٹتے، جھڑتے بدن کی
لگے نہ بددعا اجڑے بدن کی
کہانی کار خود جلنے لگے گا
کبھی روداد جو لکھے بدن کی
سنہری انگلیاں دہکی رہیں گی
تمہیں ہے بددعا جلتے بدن کی
محبت ہے نہ ہے کوئی لگن ہی
بدن بس جستجو میں ہے بدن کی
تھکن محسوس ہوگی دیکھ لینا
کہانی ہے کسی نیلے بدن کی
کہاں جائیں گے پھر یہ داغ مہروؔ
ضرورت آپڑے اُجلے بدن کی
(مہرو ندا احمد۔ فیصل آباد)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story