بلوچستان حکومت کے چھ ماہ

بدخواہوں کی نظر بد سے خود کو بچاتی، خیرخواہوں کی نیک خواہشوں تلے بالآخر بلوچستان کی اولین ’غیر سردار۔۔۔


عابد میر January 08, 2014
[email protected]

بدخواہوں کی نظر بد سے خود کو بچاتی، خیرخواہوں کی نیک خواہشوں تلے بالآخر بلوچستان کی اولین 'غیر سردار' حکومت نے چھ ماہ 'خیر و عافیت' سے مکمل کر لیے۔ یہ عرصہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور آیندہ حکمت عملی کو جانچنے کے لیے ایک معیاری پیمانہ ہوتا ہے۔ اور اس پیمانے سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے بلوچستان میں حکومت ہے ہی نہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کس کی حکومت ہے؟ محض دعوے ہی دعوے ہیں، اعلانات ہی اعلانات ہیں، عملی اقدام کہیں کاغذوں میں ہو تو ہو، زمین پہ تو ندارد ہے۔ کوئی بہتری اگر آئی ہے تو ممکن ہے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں اس کا بسیرا ہو، کسی عوامی مقام پہ تو اب تک اس 'مخلوق' کو نہیں دیکھا گیا۔

پہلے دن سے ہی بلوچستان کے موجودہ حکمرانوں کو جس طرح مرکزی ذرایع ابلاغ سے لے کر ہر پلیٹ فارم پہ مدبر اور معزز بنا کے پیش کیا گیا، اس کا نتیجہ ہے کہ آج وہ ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں، بہتر ہی کر رہے ہیں۔ ان کے طرزِ حکمرانی پہ سوال نہ اٹھایا جائے۔ وہ خود اتنے دانش مند ہیں کہ انھیں نہ کسی کے مشوروں کے ضرورت ہے، نہ کسی سے کچھ پوچھنے کی۔ ہر دردمند خیر خواہ، ہر دانش مند دوست دیوار سے لگایا جا چکا ہے، خوشامدیوں کی ٹولیاں اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔ جس طرح کسی بھی نوکری کی لیے قابلیت کا ایک معیار مقرر کیا جاتا ہے، یوں لگتا ہے کہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں مسند نشیں ہونے کی قابلیت کے لیے جو پیمانے مقرر کیے گئے ہیں، ان میں ایک اہم نکتہ ہمہ وقت خوشامدیوں کے نرغے میں رہنا بھی ہے۔ نااہل اور نالائق ترین لوگوں کی قربت میں رہنا گویا اس 'نوکری' کا لازمی خاصہ ہے۔ اس محل میں داخل ہوتے ہی جیسے عوام سے دوری، حقائق سے چشم پوشی یہاں کے باسیوں کا وطیرہ بن جاتا ہے۔

کوئٹہ کے زرغون روڈ پہ واقع سی ایم سیکریٹریٹ کی چاردیواری میں آتے ہی گویا زمینی حقائق از خود بدل جاتے ہیں۔ اقتدار کی غلام گردشیں خدا جانے کس فسوں ساز نے ایسی سحر آگیں بنائی ہیں کہ جہاں بھوک بھی فاقہ مستی دکھائی دیتی ہے، ظالم بھی مظلوم نظر آنے لگتا ہے، مظلوم پہ شکم سیر ہونے کا گماں ہوتا ہے۔ محرومی عیاشی دکھائی دینے لگتی ہے، محکومی کے سراب ہونے کا انکشاف ہوتا ہے۔ سردار ہو یا غیر سردار، مڈل کلاس ہو ڈی کلاس اقتدار سب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ وہ اولین صف، جہاں سے آگے کے منبر و محراب تو صاف دکھائی دیتے ہیں، پیچھے سسکتے بلکتے تڑپتے کراہتے لوگ نہیں!

چھ ماہ گزر گئے...خیر خیریت سے گزر گئے۔ گنئے تو اعلانات ان گنت، دیکھیں تو دعوے بے تحاشا...پوچھیے عمل تو کوئی جواب نہیں۔ کہتے ہیں کہ سرداروں نوابوں کی سابق کرپٹ حکومتوں نے کوئی کام نہیں کیا، ان پہ کوئی تنقید نہیں ہوتی تھی، پہلی بار 'عام آدمی' کی حکومت آئی تو ہر کوئی گریبان تک آنے لگا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے مدبر حکمران مڈل کلاسیت کے نام پر ہی مدت پوری کرنے کے چکر میں ہیں۔ چھ ماہ کا حساب بس وہ یوں لگاتے ہیں کہ یہ وقت 'خیر' سے گزر گیا۔ باقی بھی گزر جائے گا۔

ہماری مڈل کلاس حکومت کا سب سے بڑا دعویٰ کرپشن سے پاک ہونے کا ہے۔ اس سے مراد پیسوں کی خورد برد ہے۔ چلیے بہت اچھا ہے کہ آپ پیسوں کی خورد برد نہیں کر رہے ہیں، لیکن عوام پوچھتے ہیں کہ اس سے انھیں کیا فائدہ ہوا؟ جب کہ انھیں آج بھی سردیوں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی میسر نہیں۔ آپ کے چھ ماہ میں بے روزگاروں کی وسیع کھیپ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ لاپتا افراد کا معاملہ کوئٹہ، کراچی سے ہوتا اسلام آباد لانگ مارچ تک جا پہنچا۔ مسخ شدہ لاشوں کے سلسلے کے خاتمے کی نوید سناتے ہوئے ذہن میں رکھیے کہ ابھی اسی ہفتے مکران میں چار نوجوان مارے گئے...اور مسخ کر کے مارے گئے۔ بلدیاتی انتخابات کے پرامن انعقاد کی خوش خبری دیتے ہوئے یہ بھی بتائیے کہ مکران سے ہی آپ کے دس کونسلر مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اغوا ہوئے اور واپسی پہ اپنا استعفیٰ لکھ کر دے دیا۔ صوبے کا واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ بلوچستان یونیورسٹی تین ماہ تک بحرانوں کی زد میں رہا، اُس وقت تک اس سے صَرفِ نظر کیا گیا جب تک کہ معزز اساتذہ سڑکوں پہ بھیک مانگنے پہ مجبور نہ ہوئے۔ مکران میں قائم ہونے والی نوخیز تربت یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف کی بھرتیوں کے اولین مرحلے میں ہی اقربا پروری کے الزامات سامنے آئے۔ این ٹی ایس کے امتحان میں ٹاپ کرنے والے نوجوان پریس کانفرنسوں میں محض مکران کے لوکل افراد کی بھرتیوں کی دُہائی دیتے رہے۔ لیکن مجال ہے جو یونیورسٹی انتظامیہ سے لے کر سرکار کی کان پہ جوں تک رینگی ہو۔

وزیر اعلیٰ کو میڈیا سے شکوہ ہے کہ وہ ان کے 'اعلیٰ اقدامات' کی مناسب تشہیر نہیں کرتا۔ یہ شکو ہ کچھ نیا نہیں ہے۔ ایوب خان اور ضیا الحق سے لے کر پرویز مشرف تک سب کو میڈیا سے یہ گلہ رہا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ کیا اب یہ سادہ سی رمز بھی مدبر حکمرانوں کو سمجھانی پڑے گی کہ ریاستی ذرایع ابلاغ کے مقابلے میں متبادل میڈیا کا قیام ہی بنیاد ی طور پر اس لیے عمل میں لایا گیا کہ یہ حکومتوں کی خامیوں پہ نظر رکھ سکے۔ بالکل ایسے ہی جیسے سرکاری میڈیا حکومتی کارکردگی کا مثبت چہرہ دکھانے پہ مامور ہے۔ اب سرکاری میڈیا کے معاملے میں اس شکوے کو ذرا الٹ کر کے دیکھیں اور سرکار سے پوچھیں کیا یہ ممکن ہے کہ سرکاری میڈیا کبھی سرکاری کی خامیوں پہ بھی بات کرے؟ یا اپوزیشن (ہر نو ع کی مخالف قوت) کو بھی اتنا ہی وقت دے جتنا کہ حکومتی جماعت کو دیا جاتا ہے؟ کبھی سرکاری میڈیا پہ مزاحمت کاروں کی کوئی ایک خبر چلی ہے؟ تو پھر متبادل نجی اور آزاد میڈیا سے ہر سرکار یہ توقع کیوں رکھتی ہے کہ وہ محض ان کی مثبت کارکردگی کا چہرہ ہی دکھائے! سیدھی سی بات ہے کہ آپ کی حاصلات کی تفصیلات دیکھنے کے لیے سرکاری ذرایع ابلاغ موجود ہیں، جنہوں نے آپ کی مثبت کارکردگی دیکھنی ہے، وہ سرکاری ذرایع ابلاغ پہ دیکھ لیں گے۔ متبادل میڈیا سے تو عوام رجوع ہی اس لیے کرتے ہیں کہ حکومت اور حکمرانوں کی خامیوں اور ناکامیوں سے آگاہی حاصل کی جائے۔ بادی النظر میں آزاد میڈیا سے یہ مطالبہ سرکاری ابلاغ کی عوام میں عدم مقبولیت کا سرکاری اعتراف نامہ بھی بن جاتا ہے۔ سرکارِ نامدار کو عوامی اجتماعات میں خود پر ہونے والی تنقید شاید اس لیے بھی ناگوار گزرتی ہے کہ سی ایم سیکریٹریٹ میں محض سرکاری ذرایع ابلاغ اور انھی کا پروردہ 'سرکاری سچ' ہی میسر ہے۔ آپ کو رات اچھی لگی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورج کے طلوع ہونے پہ ہی پابندی لگا دی جائے۔

خود کو اعلیٰ و برتر سمجھنے والوں کو کوئی بتائے کہ خود اپنی خوبیاں گنوانا ادنیٰ پن ہے، اپنی خامیوں پہ نظر رکھنا ہی اعلیٰ وصف ہے۔ مگر ہائے یہ بورژوا جمہوریتوں کا اقتدار، جو ہر اعلیٰ وصف کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی یہ سفاکیت تب تک واضح نہیں ہوتی جب تک کہ یہ ساری صلاحیتوں کو کند کر کے اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر نہ پھینک دے۔

سو صاحب، اطمینان رکھیے جیسے آپ کے چھ ماہ 'خیریت' سے گزر گئے، پانچ برس بھی گزر جائیں گے۔ بلوچستان میں نہ کچھ بدلا ہے، نہ بدلے گا۔ سوائے اس کے کہ بعد از خرابی ء بسیار مڈل کلاس کا نام بھی ویسی ہی ندامت کی علامت اور تضحیک کا نشانہ بن جائے گا، جیسے آج کے بلوچستان میں عوام دشمن نوابوں اور سرداروں کا نام!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔