سردیاں اور صرف سردیاں

اس برس سردیاں سال کے آخر میں کچھ ایسی آئیں کہ اچھے اچھے لوگ ہی ہی کرتے گھومتے نظر آئے۔ یہاں تک کہ۔۔۔


Shehla Aijaz January 08, 2014
[email protected]

اس برس سردیاں سال کے آخر میں کچھ ایسی آئیں کہ اچھے اچھے لوگ ہی ہی کرتے گھومتے نظر آئے۔ یہاں تک کہ پنجاب اور سندھ میں وزیر تعلیم کو سردیوں کی چھٹیاں بڑھانی پڑ گئیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔

سردیوں کی شدت کے حوالے سے ترکی کے بارے میں یہ ہے کہ جب وہاں موسم سرما عروج پر ہو پہاڑوں پر برف پڑ رہی ہو تو ایسے میں وہ لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک پرندوں کے لیے دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری کا موسم جاری ہے۔ کیوں کہ اتنے سرد موسم میں بھوکے پرندوں کے لیے اپنی غذا تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور برف کی وجہ سے جب ہر شے سفیدی سے ڈھک جاتی ہے فضا میں موسم کی شدت خاصی بڑھ جاتی ہے تو پرندے غذا نہ ملنے کے باعث مر جاتے ہیں لہٰذا ترکی میں یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی۔ اس سلسلے میں ان کا تاریخی قول مشہور ہے '' پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر دانے پھیلا دو کہیں مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نہ مر جائیں'' کیا اعلیٰ ظرفی اور ذمے داری تھی کہ اس وقت کے خلیفہ کو نہ صرف اپنی رعایا بلکہ اپنے ملک میں بسنے والے اور آنے والے پرندوں کی جان کا کتنا خیال تھا اگر محسوس کریں تو کچھ بھی نہیں لیکن اگر ذرا گہرائی سے سوچیں تو بہت بڑی بات ہے لیکن یہ بھی تو ایک بڑائی ہے کہ آج تک وہاں کے لوگ اپنے گزرے خلیفہ کی بات پر عمل کر رہے ہیں ورنہ یہاں تو سردیوں کے زمانے میں تو اور بھی گہری میٹھی نیند آتی ہے۔

موسم سرما کی شدت جب عروج پر ہو اور اگر ایسی برفیلی ہواؤں اور ٹھٹھراتے موسم میں آپ کی چھوٹے سے چار پانچ سال کے بچے کو سنگل شرٹ میں دیکھ لیں تو آپ کے دل کی کیا حالت ہو گی، ابھی چند روز قبل ہمارے ایک شناسا مچھلی والے سے مچھلی خرید کر بنوا رہے تھے۔ اسکوٹر پر مچھلی فروخت کرنے والا ہر دوسرے تیسرے روز ان کے یہاں چکر لگاتا تھا۔ دو چھوٹے پانچ چھ سال کے بچے نجانے کدھر مچھلی دیکھ کر شوق سے آ گئے ان کے لیے مچھلی ایک دلچسپ کھیل تھی ایک بچہ اچھا خاصا ڈھنگ کا صاف ستھرا سوئیٹر پہنے ہوئے تھا جب کہ دوسرا بچہ سنگل گندی سی ہاف آستینوں والی ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا دونوں بچے شکل سے بھائی لگ رہے تھے دونوں نے جینز کی پینٹیں پہن رکھی تھیں جو شاید کبھی دھلی نہ تھیں اچھے بھلے صحت مند بچوں کے منہ سردی کی شدت سے بری طرح پھٹ رہے تھے اور چہرے پر ناک کی غلاظت نے نمونے بنا رکھے تھے۔ یہ بچے خاکروبوں کے تھے صاحب کی بیگم کو بچوں پر ترس آ گیا اور جلدی جلدی اپنے بچوں کے پرانے سوئٹرز ڈھونڈنے لگیں جن کی عمریں ان دونوں بچوں کی عمروں سے کہیں بڑی تھیں لہٰذا سائز کا تو سوال ہی نہ تھا اور پرانے گرم کپڑے وہ پچھلے ہی برس دے چکی تھیں۔ ڈھونڈ کر تھک چکیں تو پھر گیٹ پر آئیں اس وقت دونوں بچے مچھلی والے کے پاس بیٹھے شریر بلیوں کو بھگانے میں مصروف تھے جو مچھلیوں کو ندیدی نگاہوں سے دیکھتے اچک لینے کے چکر میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کر رہی تھیں خاتون خانہ نے بڑے تاسف سے کہا ''معصوم بچے کیسے سردی میں گھوم رہے ہیں ان کے ناپ کا کوئی گرم کپڑا بھی گھر میں نہیں ہے''۔ مچھلی والے نے مچھلی بناتے بناتے سر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے بولا ''آپ ان بچوں کی فکر نہ کریں اگر آپ ان کو گرم کپڑے دے بھی دیں تو کوئی فائدہ نہیں۔''

''کیا مطلب۔۔۔؟'' خاتون خانہ نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

''ارے بی بی! یہ اب اتنے بھی غریب نہیں ہیں آپ ان کو اپنے بچوں کے نئے سوئیٹر دے کر دیکھیں۔۔۔ بس گندے ہوں گے اور یہ اتار پھینکیں گے۔۔۔۔ آپ کیا کرتی ہیں اپنے بچوں کے گندے سوئیٹروں کا؟'' اس نے پھر مسکراتے ہوئے پوچھا۔

''ارے دھو کر رکھ دیتی ہوں، اگلے موسم میں پھر کام آتے ہیں، اتنے مہنگے سوئیٹرز ہوتے ہیں مہنگائی دیکھی ہے تم نے؟'' وہ کچھ چڑ سی گئی تھیں۔

''یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ کتنے مہنگے ہوتے ہیں کیونکہ آپ نے خریدے ہیں پر انھیں ان کی قیمت سے کوئی مطلب نہیں، انھیں کپڑے ملتے رہتے ہیں اچھے اچھے کپڑے مفت میں مل جاتے ہیں لوگ بھر بھر کے دیتے ہیں ان کی نظر میں اس کی کیا قدر؟'' یہ بات انھوں نے ہم سے خاصے شکایتی انداز میں کی کہ آج کل لوگوں کے دلوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ان صاحبہ کے دل میں ان بچوں کو دیکھ کر ہوک سی اٹھی اپنے بچوں کا بھی خیال آیا لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں غربت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اپنے رویے بھی خراب ہیں اس میں ہمارے اپنے سگھڑ پن کی کمی بھی نظر آتی ہے گلی گلی مچھلیاں بیچتا وہ شخص یقینا کسی گھر میں کام نہیں کرتا کسی سے اپنے بچوں اور بیوی کے لیے پرانے کپڑوں کی مانگ کا مطالبہ نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ اس کے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہے۔

ایک وہ جو بار بار مانگتے ہیں ہاتھ پھیلاتے ہیں یہ ان کی روٹین ہے وہ مانگنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں پھر ان مانگے کی چیزوں کو انتہائی بے پرواہی سے استعمال کر کے یوں فالتو جان کر پھینک دیتے ہیں جیسے ان چیزوں کی کوئی قدر ہی نہ ہو۔ حالانکہ ایسے بہت سے کپڑے اور اشیا ان کے مالکان اچھی اچھی مہنگی دکانوں سے خوب مہنگے داموں خریدتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ استعمال کے بعد انھیں گھریلو کام کرنے والوں کے سپرد کر کے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں کہ اس طرح انھوں نے غریب لوگوں کی مدد کر کے خدا کی نظر میں بڑا مقام حاصل کر لیا جب کہ گلی گلی گھومنے والے ردی پیپر والے، مچھلی والے، جوتے مرمت کرنے والے اور کچرا چننے والے لوگ نہ تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں نہ ہی اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ذرا کبھی کسی کچرا چننے والے بچے کو نزدیک بلا کر پیار سے چند روپے دیجیے اور کہیے کہ اس کی چیز کھا لینا پھر آپ اس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ دیکھیے۔ یہ مسکراہٹ آپ کے اندر کتنی توانائی بھر دیتی ہے اور آپ کے اندر کتنے جذبے ابھار دیتی ہے کہ جس سے آپ کا دل ٹوٹ کر چاہتا ہے کہ آپ ایسے بہت سے محنت کرنے والوں کے کسی کام آ سکیں۔۔۔۔ لیکن خدارا! اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس طرح آپ بار بار ان بچوں اور لوگوں کو پیسے پکڑا کر انھیں یہ احساس دلائیں کہ اس طرح کی آمدنی بڑی آسانی سے مل جاتی ہے پھر محنت کرنے کی کیا ضرورت۔۔۔؟

اہم بات ہے عزت نفس کی۔۔۔۔جب ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس سے پہلے وہ اپنے نفس کی عزت کو قتل کرتا ہے بظاہر لفظوں میں یہ قتل بہت معمولی سا محسوس ہوتا ہے درحقیقت اس لفظ کی حرمت کے قد کو بلند کر کے دیکھیے۔ ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو بہت کوتاہ قد محسوس کریں گے، ہم غلطیوں سے نہیں سیکھتے اور رو رو کر اپنے اوپر عذاب کو کوستے ہیں یہ عذاب کیسے اور کیوں آتے ہیں جب ہم اپنے عزت نفس کو قتل کرتے ہیں بس عزت نفس کی اس ہلاکت کو اگر ہم اپنی روزمرہ کے معمولات میں شامل کر لیں تو ترقی کی منزلیں چڑھنا کیا کود کر سب کچھ عبور کر جانا مشکل نہیں۔ اٹھارہ مارچ 1974ء کو جب سعودی عرب نے تیل کا بائیکاٹ اٹھایا تو دنیا کی معاشی بدحالی اور مسائل خاصے گمبھیر ہو چکے تھے یہ بائیکاٹ سعودی عرب نے امریکا پر کیوں لگایا تھا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ہنری کسنجر نے اپنے تمام فیصلوں کو جو اس سلسلے میں کیے گئے تھے محسوس کیا اور کہہ کر الزامات کا ٹوکرا اپنے سر لے لیا۔ I made a mistake ایک بڑی قوت اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور ایک بڑی قوت نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ کیا ہم بڑی قوتوں سے عزت نفس کا سبق سیکھ سکتے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں