جمہوریت آسان نہیں پہلا حصہ

برسوں سے سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے اور خفیہ رائے شماری سے الیکشن میں سودے بازی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

سینیٹ الیکشن نے ایک بار پھر پاکستان کی جمہوریت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ایوان بالا میں حکومت کے لیے اکثریت اس لیے بھی ضروری ہوتی ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے قوانین کو سینیٹ کی توثیق بھی درکار ہوتی ہے۔

سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت سے اب حکومت کو اہم امور میں قانون سازی کے لیے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو حکومت کے سیاسی رسوخ کو محدود کرنے کا باعث بنتا ہے۔

برسوں سے سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے اور خفیہ رائے شماری سے الیکشن میں سودے بازی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اخلاقی طور پر اس میں پائی جانے والی خرابیوں سے قطع نظر یہ طریقہ انتخاب متناسب نمایندگی کے اصول کے بھی منافی ہے کیوں کہ اسمبلی کے ارکان کسی بھی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں جس کی وجہ سے قومی اسمبلی میں کسی جماعت کی عددی نمایندگی کی عکاسی سینیٹ میں نہیں ہوتی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت میں سینیٹ کی خفیہ رائے شماری ختم کرنے پر رضامند ہونے کے باجود حالیہ انتخاب میں اس پر اصرار کیا اور الیکشن کمیشن نے بھی اسے برقرار رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی اسمبلی میں اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست پر یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار کو سات ووٹوں سے شکست دے دی۔

اس کے بعد ہونے والے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں سودے بازی کی قلعی کھل گئی۔ بیلٹ پیپر پر امیدوار کے خانے کے بجائے نام پر مہر ہونے کے باعث پریزائڈنگ افسر سینیٹر ظفر حسین شاہ نے سات ووٹ مسترد قرار دیے۔ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ بیلٹ پیپر پر رائے دہندہ کا ارادہ واضح ہونے کی صورت میں ووٹ کو درست تسلیم کیا جائے گا۔

ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار نے 54اور پی ڈی ایم کے امیدوار نے 44ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح پی ڈی ایم کے امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد تبدیل نہیں ہوئی لیکن سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کا دعوی دھرا کا دھرا رہ گیا اور الیکشن 'شفاف' ہونے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا اعتبار بھی مجروح ہوا۔

جمہوری نمایندگی کے لیے انتخابات کا طریقہ سترھویں صدی میں یورپ سے شروع ہوا اور اب دنیا بھر میں رائج ہوچکا ہے۔ یہ برصغیر کا مقامی طریقہ نہیں تھا بلکہ 1857کے برطانیہ نے اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے یہ نظام ہندوستان میں متعارف کروایا۔ 1947میں اپنے قیام کے بعد پاکستان نے ایک ترقی یافتہ جمہوری ریاست بننے کے لیے اس طریقے کو برقرار رکھا۔


عام انتخابات میں بار بار تاخیر اور مداخلت نے غیر جمہوری حکومتوں کی راہ ہموار کی جس سے ثابت ہوگیا کہ ایک ترقی یافتہ اور جدید ریاست بننے کا سفر اس سماج میں اتنے سادہ نہیں جہاں معاشرتی سطح پر اتنی تقسیم پائی جاتی ہو اور جمہوریت و مساوات کے تصورات سے عوام کی ذہنی مطابقت بھی پیدا نہ ہوسکی ہو۔

1973کے آئین کی تشکیل کو 40سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہمارا انتخابی نظام مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمیں سماج کے مختلف طبقات کی مؤثر اور قابل اعتبار نمایندگی درکار ہے۔ 1970کی دہائی میں جماعت اسلامی نے متناسب نمایندگی کا نظام متعارف کروایا تھا جس میں ووٹوں کی برتری کی بنیاد پر عوامی نمایندگی سمیٹنے کے بجائے ہر جماعت کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نمایندگی میں حصہ فراہم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

چار برس قبل انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:'' جون 2012میں سپریم کورٹ ورکرز پارٹی کیس کے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ برطانوی طرز کا زیادہ ووٹ ملنے پر نمایندگی دینے کا طریقہ اکثریت کے اصول کے منافی ہے۔ اس فیصلے میں یہ حوالہ بھی دیا گیا کہ 2008 کے انتخابات میں 40فی صد نشستوں پر ڈالے گئے ووٹوں کا پچاس فی صد سے بھی کم حاصل کرنے والے کامیاب قرار پائے۔ اس لیے حقیقی عوامی نمایندگی یقینی بنانے کے لیے متناسب نمایندگی کا طریقہ کار اختیار کیا جائے اور امیدوار اگر غالب اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو دوبارہ انتخاب کروایا جائے۔''

مشرف دور میں 1999 کے بعد کے برسوں میں انتخابی ضوابط میں کئی تبدیلیاں لائی گئیں، مثلا ووٹ دینے کی عمر 18برس کردی گئی، اسمبلی کی عام اور خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا۔

اسمبلی رکنیت کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی گئی، پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002نافذ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پارٹیوں کے لیے غیر ملکی فنڈنگ اور قانون سازی سے متعلق تصورات از سر نو متعین کیے گئے اور پارٹی سے اختلاف اور اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے حوالے سے بھی نئے ضابطے متعارف کروائے گئے۔

اس دور میں مقامی حکومتوں کے نظام کی صورت میں ایک کلیدی تبدیلی آئی۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے مقامی حکومتوں کا نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر سمجھ داری کے ساتھ یہ نظام چلایا جائے تو عوام کے مقامی مسائل فوری حل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ مستقبل کے سیاست دانوں اور ووٹرز کی تربیت کا موقعہ بھی فراہم کرتا ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story