الیکشن کمیشن یا غریب کی جورو
شائد ہی کوئی ایسا الیکشن کمیشن یا چیف الیکشن کمشنر گزرا ہوجس پرناکامی سے دوچارکوئی سیاستداں کیچڑ اچھالنے سے باز رہاہو۔
اس ملک میں پہلے آئین کے تحت ایک سینئر بیورو کریٹ ایف ایم خان پچیس مارچ انیس سو چھپن کو اول چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوئے۔چونکہ ملک میں کبھی عام انتخابات نہیں ہوئے تھے لہٰذا کم از کم عوامی سطح پر کسی ہما شما کو اندازہ نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔اس سے پہلے کہ ملک میں عام انتخابات کی نوبت آتی پہلا مارشل لا لگ گیا اور پہلا الیکشن کمیشن بھی ایک پتا ہلائے بغیر ستائیس اکتوبر انیس سو اٹھاون کو فارغ ہو گیا۔
مگر شائد ہی کوئی ایسا الیکشن کمیشن یا چیف الیکشن کمشنر گزرا ہو جس پر ناکامی سے دوچار کوئی سیاستداں کیچڑ اچھالنے سے باز رہا ہو اور کامیابی سے سرشار امیدوار رطب اللسان نہ رہا ہو۔
جس طرح آج کل پی ٹی آئی اوپر سے نیچے تک چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سمیت پورے کمیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہوئی ہے۔حالانکہ راجہ صاحب اور کمیشن کے دیگر چار صاحبان کا تقرر خود وزیرِ اعظم عمران خان اور قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کی تائید سے حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کی مساوی نمایندگی پر مشتمل بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی نے تین تین ناموں میں سے ایک ایک نام چن کر جنوری دو ہزار بیس میں کیا تھا۔
حاسدوں کا خیال ہے کہ اگر فارن فنڈنگ کیس ، ڈسکہ ضمنی انتخاب، سینیٹ الیکشن کے چیلنج اور بلدیاتی انتخابات کی خاطر نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کی حتمی منظوری جیسے مطالبات اور دیگر اڑچنیں نہ ہوتیں تو پھر موجودہ الیکشن کمیشن سے اچھا کمیشن شائد پی ٹی آئی حکومت کو پاکستان کی پوری تاریخ میں نظر نہ آتا۔
فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا
(جمال احسانی )
اب مشکل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن مالی و انتظامی اعتبار سے ایک خود مختار آئینی ادارہ ہے۔اس کی مدتِ حیات بھی پانچ برس ہے۔اور اگر بال بیکا نہ ہوا تو دو ہزار تئیس کے عام انتخابات بھی یہی الیکشن کمیشن کروائے گا۔ اس کمیشن کے چار میں سے دو ارکان یعنی پنجاب کی نمایندگی کرنے والے ریٹائرڈ جسٹس الطاف ابراہیم اور خیبر پختون خوا کے نمایندہ جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر تین ماہ بعد یعنی جون میں ریٹائر ہونے والے ہیں اور ان کی جگہ پر کرنے کے لیے پھر حزبِ اختلاف کی رضامندی ضروری ہو گی۔اس وقت حزبِ اقتدار و اختلاف کے مابین جس قدر '' محبت کا زمزمہ '' موجزن ہے اس کے پیشِ نظر دو نئے ارکان کی تقرری بھی فریقین کے مابین ایک نئی کشیدگی کا موجب بننا ناگزیر ہے ۔
سرکار کو بھی معلوم ہے کہ چیف الیکشن کمشنر یا کسی بھی رکن کو ہٹانے کا طریقِ کار کتنا مشکل ہے۔کمیشن کے سربراہ کا مرتبہ سپریم کورٹ کے جج کے برابرہے۔ انھیں ہٹانے کے لیے بھی وہی راستہ ہے جو کسی بھی اعلیٰ جج کی سبکدوشی یا برطرفی کے لیے آئین نے مقرر کر رکھا ہے۔
یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجنا ہوگا۔ اب یہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کونسل پر منحصر ہے کہ وہ اس ریفرنس میں پیش کردہ شکایات و دلائل تسلیم کرتی ہے یا ریفرنس ہی اٹھا کر پھینک دیتی ہے۔
البتہ گذشتہ دو ماہ کی جملہ انتخابی بے قاعدگیوں کو سرکار کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سر منڈھنے کی مسلسل مہم اور اپوزیشن کی طرف سے اس مہم کو بلیک میلنگ قرار دے کر اس کی مزاخمت کے عزم نے پہلے سے ہی کشیدہ باکسنگ رنگ میں ایک اور نوکیلے پتھر کا اضافہ کر دیا ہے۔
آپ کو غالباً یاد ہو کہ جب بیس جولائی دو ہزار بارہ کو گیلانی حکومت نے فخر الدین جی ابراہیم کے بطور چیف الیکشن کمشنر تقرر کا اعلان کیا تو پہلی بار پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام چھوٹی بڑی سرکردہ جماعتوں نے فخرو بھائی کی تقرری کا متفقہ خیرمقدم کیا۔کیونکہ فخرو بھائی کی پوری قانونی زندگی داغ سے پاک تھی۔
لیکن جب گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں نواز شریف نے سادہ اکثریت حاصل کر لی تو نہ صرف پیپلز پارٹی نے انتخابی عمل پر مایوسی کا اظہار کیا بلکہ عمران خان نے تو اس انتخاب کو ملکی تاریخ کا بدترین دھاندلی والا انتخاب قرار دے ڈالا۔
نہ صرف عمران خان بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بھی الیکشن کمشنر سمیت پورے کمیشن کے استعفی کا مطالبہ کیا۔اصول و قانون پسند فخرو بھائی کے لیے یہ سارا کھیل تماشا ناقابلِ برداشت تھا چنانچہ انھوں نے الیکشن کے ڈھائی ماہ بعد صرف ایک برس اس عہدے پر رہتے ہوئے احتجاجاً استعفی دے دیا۔
اس کے بعد تقریباً سولہ ماہ تک چیف الیکشن کمشنر کی کرسی خالی رہی۔کیونکہ نواز شریف حکومت اور حزبِ اختلاف پیپلز پارٹی مختلف ناموں کو پسند ناپسند کرتے رہے۔بالاخر قرعہِ فال وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سردار رضا خان کے نام کا نکلا۔پی ٹی آئی نے بھی اس نام کو خاموشی سے قبول کر لیا۔
جیسے ہی الیکشن کمیشن نے اکبر بابر کی جانب سے دائر پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس سماعت کے لیے قبول کیا پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کا نام ولن کے خانے میں لکھ دیا۔مگر جولائی دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کو الیکشن کمیشن پھر سے اچھا اور مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمیعیت علماِ اسلام وغیرہ کو زہر لگنے لگا۔
ابتدائی برسوں میں الیکشن کمیشن عملاً حکومتِ وقت کا تابعدار ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ایوب خانی آمریت میں تین بیورو کریٹ یکے بعد دیگرے چیف الیکشن کمشنر بنے۔ سابق گورنر مغربی پاکستان اختر حسین انیس سو باسٹھ سے چونسٹھ تک، جی معین الدین خان چونسٹھ سے سڑسٹھ تک اور این اے فاروقی سڑسٹھ سے اپریل انیس سو انہتر تک چیف الیکشن کمشنر رہے۔
اس دوران باسٹھ کا صدارتی آئین بنا۔ بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہوئے اور پھر محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے مابین صدارتی مقابلہ ہوا۔ الیکشن کمیشن کا بس اتنا کام تھا کہ حکومتِ وقت جو بھی انتخابی منصوبہ بنا کر دے دے اسے وفادار بیورو کریسی کی مدد سے پایہِ تکمیل تک پہنچا دے۔
ہر کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایچ او سمیت جملہ سرکاری مشینری اپنے تئیں الیکشن کمیشن تھے اور ان کا کام انتخابی عمل کو غیر جانبداری سے پایہِ تکیمل تک پہنچانے کے بجائے اپنے اپنے حلقے کے سیاستدانوں کو سدھانا اور جبری مینجمنٹ کے زریعے نتائج کا دھارا حکمرانِ وقت کے حق میں موڑنا تھا۔
لیکن جب ایوب خان کو سپاہ سالار یحیی خان نے معزول کیا تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر پہلی بار مغربی اور مشرقی پاکستان میں عام انتخابات کے لیے ایک ایسے بااختیار الیکشن کمیشن کی ضرورت محسوس کی گئی جو وسیع ترین انتخابی مشق کا بار متعلقہ سرکاری اداروں کی مدد سے اٹھا سکے۔
بنیادی جمہوریت نامی نیم جمہوری نظام کے اسی ہزار مہروں کو ہانکنا نسبتاً آسان کام تھا۔مگر ایک حساس انتخابی ماحول میں پہلی بار ملک گیر حلقہ بندیاں کرنا، کروڑوں ووٹروں کی رجسٹریشن اور پھر تشدد سے پاک ماحول میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی مشق کو کامیابی سے پایہِ تکمیل تک پہنچانا بچوں کا کھیل نہیں تھا۔دھاندلی ہو سکتی تھی لیکن اس دھاندلی کے سبب کیا کیا انہونے نتائج جنم لے سکتے تھے۔شائد اسی خدشے نے اسٹیبلشمنٹ کو کھل کے اپنے روائیتی عزائم کی تکمیل سے باز رکھا اور یوں الیکشن کمیشن کو پہلی بار اپنا وہ کردار ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا کہ جو اس کا اصل کام ہے۔ یعنی ہر انتظامی ادارے کے تعاون سے غیرجانبدارانہ طریقے سے انتخابات کروانا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس عبدالستار کو اپریل انیس سو انہتر میں چیف الیکشن کمشنر نامزد کیا گیا۔کمیشن نے پہلی بار ایک سیاسی و انتخابی ضابطہِ اخلاق تشکیل دیا۔دسمبر انیس سو انہتر میں ہی اعلان کر دیا گیا کہ ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات اگلے اکتوبر میں منعقد ہوںگے۔چنانچہ انیس سو ستر کا سال شروع ہوتے ہی انتخابی مہم شروع ہو گئی۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر انتخابی شیڈول کا اعلان دس ماہ پیشگی کرنے کے بجائے تین ماہ قبل کیا جاتا تو شائد مشرقی اور مغربی بازو میں مسلسل بڑھتی ہوئی سیاسی و انتخابی دوریوں کو کم سے کم رکھا جا سکتا تھا۔
مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کے سبب ہونے والے بھاری جانی و مالی نقصان کے نتیجے میں انتخابات کی تاریخ کو بادلِ نخواستہ مزید دو ماہ آگے بڑھانا پڑا اور یہ انتخابات اکتوبر کے بجائے سات دسمبر انیس سو ستر کو منعقد ہوئے۔
نتائج سے قطع نظر پولنگ کا عمل تقریباً بخیر و خوبی شفاف طریقے سے انجام پایا۔بعد ازاں جو خرابا ہوا اس کی ذمے دار سیاسی و مارشل لا قیادت کو تو ٹھرایا جا سکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اپنے فرائص صاف ستھرے انداز میں تندہی سے انجام دیے۔
جسٹس عبدالستار بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کے چیف جسٹس بنے اور پھر انیس سو اکیاسی میں ملک کے صدر بھی بنائے گئے۔لیکن انیس سو ستر کے انتخابی تجربے کے بعد شاید لاشعوری طور پر طے کر لیا گیا کہ انتخابی عمل اتنا نازک کام ہے کہ اسے کلیتاً ایک خود مختار الیکشن کمیشن کی صوابدید پر چھوڑنا خطرناک ہو گا۔ چنانچہ آگے کے انتخابات کو کس طرح مینیج کیا گیا۔ اس کا احوال منگل کو پڑھئے گا۔انشاء اللہ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)