اِک سعی لا حا صل
اِسے مسلم لیگ ن کی خوش قسمتی کہا جائے یا بد بختی کہ آج اُس کے دورِ حکومت میں دستورِ پاکستان کو معطل کرنے والے۔۔۔
اِسے مسلم لیگ ن کی خوش قسمتی کہا جائے یا بد بختی کہ آج اُس کے دورِ حکومت میں دستورِ پاکستان کو معطل کرنے والے کسی شخص کو اُسی آئین کے آرٹیکل 106کے تحت پہلی بار قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز مشرف جنہوں نے اِس ملک کے دستور کو دو بار مشقِ سخن بنایا تھا اور اُسے اپنے عزائم کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ سمجھ کر نہ صرف راستے سے ہٹا دیا بلکہ عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا۔ ایسا کرنا ہمارے آئین کے تحت ایک سنگین جرم ہے اور اُس کی مجوزہ سزا عمر قید اور پھانسی سے کم نہیں ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ آئین کو چند صفحوں کی ایک معمولی کتاب سمجھنے والوں نے کبھی بھی اُس میں درج اِن شقوں کو لائقِ اعتناء نہیں گردانا۔ اور جب چاہا اور جس وقت چاہا اُسے بازیچہ اطفال بنا کر خوب کھیلا اور جب چاہا توڑ موڑ کر رکھ دیا۔ کبھی اُس میں درج کسی سزا کا خوف اور نہ کبھی اُس کی پامالی کا احساس و ملال۔ اسلحے کے زور پر اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ جمایا اور من مانے طریقوں اور اُصولوں پر حکومت کی۔ ہر بار عدلیہ کو اپنا ماتحت بنا کر اُس سے اپنے غیر آئینی اِقدامات کی توثیق بھی کروا لی اور انکار پر ساری عدلیہ ہی کو چلتا کیا۔
آج جب سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانے کی خاطر ایک مقدمہ دائر کیا تو ہر طرف اِک ایسا طوفان اور ہیجان کھڑا ہو گیا کہ جیسے یہ سب کچھ میاں صاحب نے اپنے دل کی پُرخاش نکالنے کے لیے کیا ہو۔ کسی نے کہا کہ ایک اکیلا پر ویز مشرف ہی ملزم کیوں، اُس کے سارے ساتھی مدعا علیہ کیوں نہ بنائے گئے۔ کسی نے مقدمہ کو 12 اکتوبر 1999ء سے شروع کرنے کی استدعا کر کے معاملے کو اُلجھانے کی حتی المقدور سعی و کوشش کر ڈالی۔ اور کسی نے تو مقدمہ کا دائرہ کار فیلڈ مارشل محمد ایوب تک بڑھانے کی ناقابلِ عمل تجویز بھی دے ڈالی۔ لیکن یہ بات اِک طے شدہ حقیقت ہے کہ اِن سب تجاویز اور مشوروں کے پیچھے دراصل ایک ہی خواہش کار فرما ہے کہ مقدمہ قانونی پیچیدگیوں اور دلائل کی بُھول بُھلیوں میں اُلجھ کر رہ جائے اور پرویز مشرف پر آئین توڑنے کے حوالے سے کوئی الزام ثابت نہ ہو سکے۔
دستور کی قانونی شقوں پر اپنی عالمانہ رائے زنی کرتے ہوئے ہمارے یہاں ہر شخص آج خود کو ایک قانونی اور آئینی ماہر تصور کرتا ہے ۔ اور اپنے کمزور موقف کو مدلل اور ٹھوس بنانے کے لیے ایسی ایسی دلیلیں پیش کرتا ہے کہ جیسے وہی اِس مقدمہ کا منصف اور جج ہو۔ اور جو کچھ اُس کی عقلِ سلیم نے ارشاد فرما دیا ہے وہی حرفِ آخر ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی باتوں میں آ کر پرویز مشرف پاکستان تشریف لے آئے اور اِس ناگہانی مصیبت میں پھنس کر رہ گئے۔ اُن کے خلاف آئین سے غداری کا یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ پاتا ہے بھی کہ نہیں یہ ابھی کسی کو معلوم نہیں۔ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں۔ فیصلہ عدالت کریگی۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز سے متاثر نہیں ہو گی۔ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات اتنا عندیہ ضرور دے رہے ہیں کہ اِس ملک میں کسی سابق جنرل کو قانون کا کوئی درس سکھانا اُتنا ہی ناممکن اور کٹھن فعل ہے جتنا کہ کسی حاضر سروس آرمی آفیسر کو سول مقدمے میں مدعا علیہ بنانا۔ ابھی تک تو فردِ جرم ہی عائد نہیں کی گئی ہے اور حاضری سے استثنیٰ کے لیے پہلے سیکیورٹی اقدامات پر عدم اطمینان کر کے کئی تاریخیں لی گئیں اور اب خرابی صحت کو عدم شرکت کے لیے ٹھوس بنیاد بنایا جانے لگا ہے۔ لگتا ہے پرویز مشرف اِسی عارضہ قلب کے علاج کے لیے بہت جلد بیرونِ ملک پرواز کر جائیں گے اور یوں آئین کے آرٹیکل 106کے تحت کسی کو قرار واقعی سزا دینے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے گا۔
میاں صاحب کی حکومت کو بہت سے مسائل پہلے ہی سے درپیش ہیں۔ اُنہیں اِس معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ اور جذباتی ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ملک کو اقتصادی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔ بجلی اور گیس کی طویل لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے عفریت کے ہاتھوں ہمارے لوگ پہلے ہی بڑے مضطرب اور بے چین ہیں۔ پرویز مشرف کے اِس مقدمے میں خود کو ملوث کرنے کی بجائے دیگر معاملات پر اپنی گہری نظریں جمائے رکھیں تو شاید اُن کے لیے یہی بہتر ہو گا۔ زمینی حقائق اور گرد و پیش کے بدلتے تیور اُن سے اِسی بات کا تقاضا کر تے ہیں۔ مخلص اور سچے دوستوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اِس مقدمے سے خود کو لا تعلق کر کے سارا معاملہ عدلیہ کے سپرد کر دیں اور صرف ملکی معاملات پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھیں۔ اگر عدلیہ خرابیِ صحت کی بنیاد پر پرویز مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیتی ہے تو اِسے موقعہِ غنیمت جان کر خوش دلی سے قبول کر لیں ۔ کون سا بلّا کتنا دودھ پی گیا۔ یہ ہم سب کو معلوم ہے۔ این آر او کی برکتوں سے فیضیاب ہونے والے جو کام خود نہ کر سکے اب میاں صاحب کے ذریعے کروا کے صرف تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
نواز شریف سے اچانک اتنی محبت اور قرابت کے پیچھے کوئی راز ضرور پوشیدہ و پنہاں معلوم ہوتا ہے۔ مشرف کو سزا دلانے کی خواہش تو شاید پوری نہ ہو سکے البتہ اُس کے نتیجے میں اگر میاں صاحب او ر فوج کے درمیان تعلقات کشیدگی اور محاذ آرائی کی انتہائی حدوں کو چُھونے لگتے ہیں تو اِس کا بالواسطہ فائدہ یقینا اُنکے سیاسی مخالفین ہی کو پہنچے گا۔اب یہ میاں صاحب پر منحصر ہے کہ وہ پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل106 کے تحت سزا دلا کر عبرت کا نمونہ بنانا چاہتے ہیں یا پھر ملک و قوم کی تعمیر کر کے تاریخ میں ایک بہتر سول حکمراں کی حیثیت سے اپنا نام محفوظ کروانا چاہتے ہیں۔ پرویز مشرف کے سینے پر آئین سے غداری کا لیبل سجا کے شاید کسی کو اتنی تسکین اور راحت نصیب نہ ہو گی جتنا کہ اِس قوم کو معاشی دلدل سے باہر نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہوں پر گامزن کر نے سے چین و سکون حاصل ہو گا ۔ میاں صاحب کے لیے مخلصانہ اور صائب مشورہ یہی کہ دستور و آئین سے غداری کے اِس اہم معاملے کو وقت اور حالات کی نہج پر چھوڑ دیں اور فیصلہ عدلیہ کے سپرد کر دیں۔ اِسی میں اُنکی اور ساری قوم کی بہتری ہے۔ لوگوں نے اُنہیں بھر پور مینڈیٹ جس مقصد کے لیے دیا تھا صرف اُسی کا پاس رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور اِس ملک کو غیروں کی غلامی کے شکنجے سے آزاد کر کے ایک خودمختار اور خوشحال پاکستان بنا کر دم لیں۔