گیس پر جلتی زندگی
وہ بھی کیا دن تھے۔ سال بھر عید کا انتظار۔ عیدی ہاتھ آتے ہی دوڑ پڑنا۔ سڑک پر غبارے والا رنگ برنگی، پیارے پیارے ۔۔۔
وہ بھی کیا دن تھے۔ سال بھر عید کا انتظار۔ عیدی ہاتھ آتے ہی دوڑ پڑنا۔ سڑک پر غبارے والا رنگ برنگی، پیارے پیارے گیس کے غبارے لیے منتظر ہوتا۔ اُن غباروں کی ڈور تھامے رکھنی پڑتی کہ ذرا توجہ بھٹکی، اور غبارہ نو دو گیارہ ہو گیا۔ آپ ہاتھ ملتے رہ گئے۔
غبارے کو آسمان میں غائب ہوتا دیکھ، تاسف کے ساتھ تجسس بھی ہوتا۔ غائب ہو جانے والی اشیاء انسان پر طلسماتی تاثر چھوڑتی ہیں۔ جب کُل تنخواہ پندرہ تاریخ تک غائب ہو جائے، تو آدمی کیسا ششدر رہ جاتا ہے۔ ریمنڈڈیوس کا غائب ہو جانا بھی ہمیں خوب یاد ہے۔ بچپن بھی غباروں کی طرح پُھر سے اڑ گیا۔ ہم بڑے ہو گئے۔ گیس اب گاڑیوں میں بھری جانے لگی۔ کچھ برس پہلے تک گاڑیاں پٹرول کی محتاج تھیں، جس کی قیمتوں میں ہونے والا ہوش رُبا اضافہ ہمارے ہوش اڑائے رکھتا۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ گاڑیاں گیس پر چلنے لگیں۔ اِس سہولت کے طفیل ہمارے ہاں گاڑیوں کی خرید کی شرح ڈالر کی قدر کی طرح بڑھی۔ ہم نے بھی سکون کا سانس لیا کہ گیس تو اپنی ہے۔ پاکستان سے نکلتی ہے۔ ارزاں ہے۔ گاڑی میں سی این جی کٹ لگوا لی۔ کچھ روز تو زندگی مست گزری۔ بیس روپے کلو ہوتی تھی گیس۔ اضافہ ہوتا بھی تو معمولی۔ ایک روز خبر ملی، ٹرانسپورٹر چپکے چپکے بسوں میں گیس کٹ لگوا رہے ہیں۔ پریشان تو ہوئے کہ سلنڈر لگنے کے بعد ہماری کھٹارا بسیں چلتے پھرتے بم کی شکل اختیار کر لیں گی، مگر خوشی بھی تھی کہ اب مسافروں کو کچھ راحت ملے گی۔ مگر یہ تمنا پوری نہیں ہوئی۔
ٹرانسپوٹرز بھائی گیس پر منتقلی کے باوجود بڑی ایمان داری سے ڈیزل والے کرایے وصول کرتے رہے۔ مزید کمال یہ کیا کہ جب کبھی ڈیزل کی قیمت بڑھتی، معصومیت سے کرایہ بڑھا دیتے۔ جب کوئی مسافر شکایت کرتا کہ بھلے مانس، گاڑی تو گیس پر ہے۔ تو بغلیں جھانکنے لگتے۔
خیر، ہم تب بھی خوش تھے۔ غم کا آغاز تو اُس گھڑی ہوا، جب مملکت خداداد کے طول و عرض میں گیس کی بندش کے پُراسرار واقعات رونما ہونے لگے۔ ابتدا میں کبھی کبھی ہوتے، مگر پھر ان میں غصب کا تسلسل آ گیا۔ پہلے بندش کے باعث الجھن ہوتی تھی۔ پھر ٹھیک ٹھاک اذیت ہونے لگی۔
خدا کی پناہ، کل تک جو گیس تھوک کے حساب سے دستیاب تھی، اب فقط ہفتے میں تین دن ملتی۔ چار روز ترساتی۔ کیا سندھ، کیا پنجاب، کیا بلوچستان؛ ہر صوبے میں یہ گھر کی دال، مرغی برابر ہو گئی۔
دھیرے دھیرے گاڑیاں مفلوج ہونے لگیں۔ اُنھیں سستے ایندھن کی لت جو لگ گئی تھی۔ پٹرول اب بھاتا نہیں تھا۔ پھر ظالم منہگا بھی تھا۔ بندش کو جواز بنا کر ٹرانسپورٹر بھی گاڑیوں سمیت غائب ہو جاتے۔ سڑکیں سنسان۔ شہری حیران۔ سوچتے کہ پوچھیں؛ میاں گاڑیوں کی ڈیزل ٹنکی سلامت ہے، اُسے استعمال میں کیوں نہیں لاتے۔ کرایہ تو ڈیزل والا ہی لے رہے ہو۔ مگر یہ سوچ کر کہ وہ پھر بغلیں جھانکنے لگیں گے، خواہ مخواہ شرمندہ ہوں گے، خود کو باز رکھتے۔
خیر، بندش کے مافوق الفطرت واقعات کے باعث کراچی سے خیبر تک حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ حکومت حسب روایت دلاسے دیتی رہی۔ مسکراتی رہی۔
اِن ہی بندشوں کے طفیل ''بے انت قطاروں کا عہد'' شروع ہوا۔ سب بولائے بولائے رہنے لگے۔ جوں ہی سی این جی کھلتی، پمپس پر لمبی لمبی قطاریں لگ جاتیں۔ چند تو دیوار چین سی طویل اور تگڑی ہوتیں۔ شریف النفس شہری گھنٹوں سر جھکائے قطار میں لگے تہذیب یافتہ ہونے کا ثبوت دیتے۔ اور اُن بدمعاشوں کے دانت کھٹے کر دیتے، جو ہمیں اجڈ قوم قرار دیتے رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو اِس بندش نے وہ کام کیا، جو عمران خان نہیں کر سکے۔ ہمیں تبدیل کر دیا۔ شہری اپنا ڈیلی شیڈول، پمپنگ اسٹیشن کے شیڈول کو سامنے رکھ کر بنانے لگے۔ خاندان کے فارغ لڑکوں بالوں کو، عشق نے جنھیں نکما کر دیا تھا، ایک کام مل گیا۔ دھیرے دھیرے کھانا پینا بھی قطار میں ہونے لگا۔ وہیں کھڑے کھڑے آرڈر کر دیا جاتا، وہیں کھانے کی ڈیلیوری ہوتی۔ طلبا و طالبات گاڑیوں میں بیٹھے امتحان کی تیاری کرتے۔ کچھ لوگ کتاب پڑھنے جیسے فضول کام بھی وہیں انجام دیتے۔ بندش کا شیڈول سامنے رکھ کر شادی بیاہ کی تاریخ طے کی جاتی۔ ہم نے پمپس پر کاروباری میٹنگز ہوتے دیکھیں۔ لاکھوں کے معاہدے ہمارے سامنے ہوئے۔ کبھی کبھار جوا بھی ہوتا۔ ہم بھی خاصے پیسے ہارے۔
ہمارے ایک دوست، جنھیں یار بیلی پیار سے ''چھوٹا بھیم'' کہتے کہ انتہائی خوش اخلاق، خوش خوراک اور قوی الجثہ واقع ہوئے ہیں، ایک روزکہنے لگے: ''اب تو لوگ مرنے سے پہلے احتیاطاً دیکھ لیتے ہیں کہ کہیں کل گیس کی ہڑتال تو نہیں۔''
یہ چٹکلا بھی سُنایا کہ گیس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انتظامیہ کو کسی یونانی حکیم کی مدد لینی چاہیے کہ وہ پوشیدہ امراض کے ساتھ پیٹ کے امراض کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ ہم سے زیادہ خود اِس چٹکلے پر ہنسے۔
موصوف موجودہ حکومت کے بڑے ناقد ہیں۔ ایک دن غصے میں کہا: ''بھئی یہ شیرتو کچھ کر ہی نہیں رہا۔ لگتا ہے، گیس پر چلتا ہے۔''
دل میں آیا کہہ دیں: ''میاں چلا تو بلا بھی نہیں۔ اور تیر نے کیا تیر مار لیا!'' مگر چھوٹا سمجھ کر چھوڑ دیا۔ ویسے ہم میاں صاحب کے حمایتی نہیں۔ گو کسی زمانے میں اُنھیں امیر المومنین کے روپ میں دیکھنے کی دعائیں کیا کرتے۔ بچے اکٹھے کر کے قرآن خوانی کرواتے۔ بتاشے بانٹتے۔ پھر اِس مشق سے تائب ہوئے۔
ہمیں پریشانی یہ ہے کہ میاں صاحب گوناگوں مسائل کے باعث رنجیدہ رہنے لگے ہیں۔ تفکر چہرے سے عیاں۔ مسکراہٹ ہونٹوں سے غائب۔ اُنھیں مسکرانے کی عادت ترک نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے قبض سو بیماریوں کی ماں، اِسی طرح مسکراہٹ سو مسائل کا حل۔ اب دیکھیں ناں، محترم زردای صاحب نے کس طرح اپنی ''ملین ڈالر مسکراہٹ'' سے ملک کو بڑے بڑے بحرانوں سے نکالا۔ دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا۔ ہمیں یقین ہے، ڈیل کارنیگی کو اُنھوں نے جم کر پڑھا ہے۔ دوست بنانے کا فن جانتے ہیں، جب ہی تو سب کو ساتھ لے کر چلے۔ میاں صاحب کو بھی اُن کی تقلید کرنی چاہیے۔
ہم ''اہل قطار'' کی نمایندگی کرتے ہوئے میاں صاحب سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ حضور ہمارے لیے پریشان مت ہوا کریں۔ جہاں ساٹھ برس سسک سسک کر گزار لیے، باقی ماندہ بھی گزار لیں گے، آپ کیوں صحت برباد کرتے ہیں۔
ویسے بھی معالجین گیس کہلانے والی اِس ''مادہ'' کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ دل پر عجیب اثرات مرتب کرتی ہے۔ آن کی آن میں ہارٹ اٹیک جیسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ گاڑی موڑ کر اسپتال جانا پڑتا ہے۔ خبریں بن جاتی ہیں۔ مخالفین ''ٹوئٹر'' پر آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بزدل کہتے ہیں۔ اچھا خاصا تماشا لگ جاتا ہے۔
خیر، گیس پر جلتی زندگی کے موضوع کو پھر کبھی کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔ بہتر ہے، قلم کان میں اڑس لیں۔ قطار میں ہل چل ہوئی ہے۔ کچھ گاڑیاں آگے بڑھی ہیں۔ شاید پمپ کھل گیا۔ آپ سے کیا چھپانا؛ یہ کالم ہم نے حصول گیس کے لیے لگی قطار ہی میں لکھا ہے۔ افسانے بھی یہیں لکھتے ہیں۔
تو صاحبو، اب میں گیس بھرواؤں گا۔ خوشی خوشی گھر جاؤں گا۔ سینہ پھلا کر بیوی بچوں کو دکھاؤں گا۔ شریف حکومت کے گن گاؤں گا۔ اور دو روز بعد پھر لوٹ آؤں گا، اِسی قطار میں۔ تا کہ ایک اور کالم لکھ سکوں۔
امید ہے، اُس وقت تک وزیر اعظم ہمارے مشوروں پر عمل کر چکے ہوں گے۔