فرد یا معاشرہ

ایک بہت اہم سوال ہمارے سامنے ہے وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سربلند کر کے ایک شاندار مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔۔۔

ایک بہت اہم سوال ہمارے سامنے ہے وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم سربلند کر کے ایک شاندار مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں یا بہار کے دن گزر چکے ہیں بہار کے پھول بہار کے نغمے۔ اور اب ہماری قسمت میں تاریکی، خزاں کی بربادی، ناامیدی کی جلن ہے۔ جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ ہمارے مستقبل پر فکر مند نظر آتا ہے۔ لیکن کیا ہم ماضی کے شاندار کارناموں پر فخر کرتے رہیں اور مستقبل کی فکر نہ کریں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں؟ کیا ہم کامیابی، سربلندی اور کامرانی کی شاہراہ پر ہیں یا ہم نے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا ہے؟ کیا ہم بہتر زندگی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں یا تباہی کے غار کی طرف؟ ان دونوں امکانات میں سے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ آئیے! اس وقت ہم قومی یا بین الاقوامی نظریات کو پس پشت ڈال کر اس سوال کا جواب بحیثیت ایک فرد کے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

چنانچہ۔ کیا ہم بحیثیت فرد کے زندہ دلی، خود اعتمادی اور بلند عزائم کے ساتھ زندگی کی زرخیزی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یا ہم مردہ دلی، شکست خوردگی کے عالم میں وقت کے دھاروں میں بہنے ہی میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔

اس سوال کا جواب بہ حیثیت فرد کے دینے کے بعد آئیے ہم ذرا اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائیں اور اپنے ساتھیوں، ہمدموں، رفیقوں اور پڑوسیوں کی زندگی کا جائزہ لیں۔

فرد آخر کہاں جا رہا ہے؟ اور معاشرے کی سمت کیا ہے؟

کیا یہ ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں؟ یا اس میں بھی شکست کے آثار ہویدا ہو چلے ہیں۔ کیا ہم بحیثیت فرد کے اور قوم کے۔۔۔۔ سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہے ہیں یا پھر ہمارے سامنے سورج غروب ہو رہا ہے اور اس کی مدھم ہوتی ہوئی روشنی آنسو بہاتی سرخی پر چھائی ہوئی ہے۔ ہم وقت کی اس للکار کا جواب دو متضاد صورتوں میں دیتے ہیں کچھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد کے وہ ترقی کرتے جا رہے ہیں لیکن بحیثیت قوم کے وہ تنزل کا شکار ہیں۔ اور کچھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد تو وہ کسی قسم کی بھی ترقی سے قاصر رہے ہیں۔ لیکن قوم کے اور افراد کے ساتھ ساتھ وہ کشاں کشاں بہتر حالت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کی انفرادی ترقی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی وہ اور پوری قوم اس وقت تاریکیوں کو پسپا کر رہی ہے اور اس قسم کے خیالات اتنے زیادہ ہیں کہ ہم اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ وہ اشخاص، مرد اور عورت جو دوسرے حالات میں ہمارے رہنما ہوتے وہ دل شکستہ ہیں اور زمانے کی بے وفائی سے نالاں ہیں اور یہ نظریہ اختیار کرنا ہی آسان ہے کیونکہ ہماری تمام تر جدوجہد بے اثر سی ہو کر رہ گئی ہے۔ آج فضائے عالم، ظلم، تشدد، نفرت و انتقام سے مکدر ہو رہی ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے در پے آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ الفاظ کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

دور دراز مقامات کو چھوڑیے اپنے گھر کے قریب دیکھیے آپ کو کافی ثبوت اس کا مل جائے گا۔ پورے سماج میں شکست خوردگی بڑھ رہی ہے۔ آنے والے خطرات کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ کسی بات کے قیام کا یقین نہیں آتا۔ مستقبل جانے کیا ہو گا۔


زمانہ پوچھ رہا ہے کہ کیا یہ تاریکی کسی نئی صبح کی پیش خیمہ ہے؟ یا ہمارے تمدن کی گھٹتی ہوئی سانس کی ہچکی ہے۔ ہم جو کچھ بھی جواب دیں ہمارے دل شکوک سے لبریز ہیں۔

زندگی کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے تمام سماجی اداروں کو نئے انسان کی ضرورت ہے یا ہو سکتا ہے کہ سماج کی تشکیل نو کی ضرورت ہو اور نئے تجربات سے قوم کی ابتری دور کی جائے۔ لیکن یہ تمام باتیں ثانوی نوعیت کی ہیں۔

زمانے کی للکار کا منہ توڑ جواب نیا آدم ہی دے سکتا ہے لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ نیا آدم پیدا ہو جائے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا ہم ترقی کر رہے ہیں؟ یا تنزلی؟ کیا ہم بہتر مستقبل کی جانب بڑھ رہے ہیں یا ہمارے سامنے ہماری شکستوں کے ویرانے ہیں؟ اس کا جواب ہم، آپ نہیں دے سکتے۔ بظاہر تو حالات یہ بتاتے ہیں کہ ہم شکست کھا چکے ہیں اور ہم اپنے غلط اقدامات کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمارے پاس اس بات کے بھی کچھ ثبوت موجود ہیں کہ ہم کہیں کہیں وقت کے پردے کو چیر کر بہتر زندگی کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں اس لیے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کل کا طلوع ہونے والا سورج ہمارے لیے بہتر مواقعے کی فصل اگائے گا یا ہم اس نئے سورج کی ضیا پاشی دیکھنے سے قبل ہی ختم ہو چکے ہوں گے۔

ہم مندرجہ بالا دونوں امکانات میں سے کسی ایک کو بھی رد نہیں کر سکتے۔ ہماری قسمت میں کامیاب یا ناکام ہونا نہیں ہے۔ اگر ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کامیاب ہونگے یا ناکام، تو سمت کی جھولی ٹٹولنے کی بجائے ہم کو اپنے دل سے یہ سوال کرنا چاہیے اپنی جدوجہد سے اپنے اعتقاد، اپنی ہمت سے، جب ہی ہم زندگی کے نغمات کی سرحدوں کو چھو سکتے ہیں لیکن ابھی شبہات ختم نہیں ہوئے ابھی ہمیں فتح کا یقین نہیں ہے، اور نہ ہی اپنی شکست کا یقین ہے بہرحال ہم چاہیں تو ان شبہات کو یقین میں بدل سکتے ہیں لیکن یاد رکھیے کہ اس کا دارومدار صرف ہم پر ہے۔ ہم چاہیں تو طوفانوں کے رخ بدل سکتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں یہ خیال عام ہو چکا ہے کہ ہماری جیت، ہماری ہار پہلے ہی سے متعین ہو چکی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یا تو انسان قدم بہ قدم ترقی کرتا ہوا بڑھتا رہے گا یا اس کی قسمت اسے ہار، ناکامی اور شکست سے دوچار کر دے گی۔

بظاہر ایسے پیش کیے جانے والے نظریات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ زندگی خلق ہے لیکن اس کی تفسیر خلق نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنی تفسیر کا مصنف خود ہی ہوتا ہے۔ اور اس کے اعمال اگر فطرت کے تابع ہوتے ہیں تبھی اس کی زندگی کی کتاب کے آخری ابواب بہتر ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ ہم کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ہماری آج کی محنت ہمیں کل آرام پہنچائے گی۔ ہماری آج کی قربانی ہماری کل کی کامرانی کی وجہ بنے گی۔ اور یہ ہماری انفرادی صحت اور قومی آسودگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم جتنا بھی اس اصول پر یقین کرتے ہوئے اس پر عمل کریں گے۔ انسانیت کی بقا کے امکانات روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ ممکن ہے کہ اب بھی آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہو کہ ہم پر بحیثیت انسان کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ تو سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی موجودہ زندگی میں اور اس کے طرز میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی اجتماعی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنی زندگی سنوارنی ہو گی۔ ہمیں اپنی ترقی کے مدارج خود طے کرنے ہوں گے۔ اپنے فرائض انجام دینے ہوں گے۔ تبھی ہم دیگر افراد کو ان اصولوں پر چلنے کی دعوت دے سکتے ہیں یا راغب کر سکتے ہیں۔ قارئین کرام! ایک فرد اور ایک معاشرے کی بحث بہت قدیم ہے لیکن ایک فرد ہی ایک معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے۔ یا یہ کہہ لیں کہ ایک فرد بھی بذات خود ایک معاشرہ ہے گویا:

چلیں اپنی ہی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سونا پڑا ہے
Load Next Story