کووڈ 19 کی برطانوی قسم موجودہ ویکسین کی افادیت کم کرسکتی ہے پاکستانی تحقیق

کورونا وائرس کی تیسری لہر شاید اسی نئے وائرس کی وجہ سے ہے، ڈاکٹر مشتاق حسین، کالج آف بایوٹیکنالوجی، ڈاؤ یونیورسٹی


سہیل یوسف March 20, 2021
برطانیہ سے پھیلنے والا B.1.1.7 وائرس، ووہان وائرس سے 30 تا 60 فیصد زائد پھیلاؤ رکھتا ہے اور شاید پاکستان میں کووڈ 19 کی تازہ لہر میں بھی یہی وائرس کارفرما ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کووِڈ 19 کی حالیہ عالمی وبا کا باعث بننے والے ''سارس کوو ٹو'' وائرس کی تبدیل شدہ برطانوی قسم شاید پاکستان میں بھی کورونا وبا کی تیسری لہر کے بعد اس کے تیز رفتار پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہے۔

دوسری جانب بعض دیگر تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ سے پھوٹنے والا وائرس، جسے SARS-CoV-2/B.1.1.7 یا مختصراً B.1.1.7 کا نام بھی دیا گیا ہے، ہماری موجودہ ویکسینز کی افادیت کو کم کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سال فروری کے آخری ہفتے میں حکومتِ پاکستان ملک میں وائرس کی برطانوی قسم کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ سب سے پہلے چینی شہر ووہان میں نمودار ہونے والے ''سارس کوو ٹو'' کے مقابلے میں اس کی نئی اور تبدیل شدہ قسم B.1.1.7 قدرے تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

اب مزید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے شفایاب ہونے اور امنیاتی قوت پانے والے افراد بھی شاید دوبارہ اس نئے وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

اس ضمن میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ذیلی ادارے ''کالج آف بایوٹیکنالوجی'' کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مشتاق حسین کی نگرانی میں نوجوان اسکالرز نے ووہان اور برطانوی کووڈ 19 وائرس کا تفصیلی اور سالماتی (مالیکیولر) پیمانے پر موازنہ کیا ہے۔

ثانیہ شبیر، انوشہ امان اللہ، فوزیہ رضا، محمد جنیس امداد اور سحر زیدی نے دونوں وائرسوں کی ساخت اور بیماری پھیلانے کی استعداد کا جائزہ لیا ہے۔


ڈاؤ یونیورسٹی کالج آف بایو ٹیکنالوجی کے نائب صدر ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ سارس کوو ٹو کی برطانوی قسم پھیلاؤ میں تیز رفتارہے اور اینٹی باڈیز کو بھی ناکارہ بناسکتی ہے۔ (تصویر بشکریہ: ڈی یو ایچ ایس کالج آف بایوٹیکنالوجی)







 

یہ تحقیق ''جرنل آف میڈیکل وائرولوجی'' کی 11 مارچ 2021 کی اشاعت میں شائع ہوئی ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ دونوں طرح کے وائرس اپنے اسپائک پروٹین کے ذریعے انسانی خلیے سے یکساں شدت سے جڑتے ہیں۔

تاہم دونوں اقسام کے اسپائک پروٹینز میں خاصا فرق بھی دیکھا گیا۔ اسی فرق کی وجہ سے B.1.1.7 اُن حفاظتی اینٹی باڈیز کو بھی بہ آسانی جُل دے کر ناکام بنا سکتا ہے جو اس کے پیشرو اور اصل وائرس سے متاثر ہونے کے بعد انسانی جسم میں پیدا ہوجاتی ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے جسم میں امراض سے لڑنے کا قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) قدرتی اجزاء یعنی اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔

جیسے جیسے ہمارے جسم کو وائرس اور بیکٹیریا (جراثیم) وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے، ویسے ویسے انہیں ناکارہ بنا کر ہمیں بیماری سے بچانے کےلیے ہمارے جسم میں مختلف اینٹی باڈیز کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے جو ہمارے خون میں جمع ہوتی رہتی ہیں۔

بیماریوں کے خلاف یہ انسانی جسم کی ایسی خاموش جنگ ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے لیکن ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔

لیکن گزشتہ 15 ماہ کے دوران SARS-CoV-2 وائرس ایک انسانی گروہ سے دوسرے گروہ میں جست بھرتا رہا اور بدلتا رہا۔

پاکستانی ٹٰیم نے پہلے یعنی ووہان وائرس کے مقابلے میں برطانوی وائرس میں 29 بڑی تبدیلیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔

اگرچہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ پرانے ووہان وائرس کو شکست دے کر صحت یاب ہوچکے ہیں، وہ برطانوی کورونا وائرس (B.1.1.7) سے متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ پرانے وائرس کے خلاف مؤثر اینٹی باڈیز، نئے برطانوی وائرس کے خلاف شاید بہت زیادہ کارگر ثابت نہ ہوں۔

نومبر 2020 میں برطانیہ میں نمودار ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے بعد برطانیہ میں جنوری 2021 تک اس وبا کا تیزی سے عروج دیکھا گیا اور سخت لاک ڈاؤن لاگو کرنا پڑے۔

بعد ازاں پاکستان، بالخصوص پنجاب میں کورونا وبا کے نئے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس میں برطانوی قسم کا عمل دخل نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

شاید یہ پہلے وائرس سے پیدا ہونے والی امنیاتی استعداد کو بھی غیر مؤثر کرسکتا ہے۔

 

کیا ہم 17 سال پرانے مہلک وائرس کی راہ پر جا رہے ہیں؟


دسمبر 2019 میں چین سے پھوٹنے والے وائرس کا نام ''سارس کوو ٹو'' تو ہے، لیکن آج سے 17 برس قبل ہم ''سارس کوو'' (SARS-CoV) وائرس کو جھیل چکے ہیں جو پھیلاؤ میں کمزور لیکن ہلاکت خیزی میں بہت خطرناک تھا۔

ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے برطانوی وائرس کے اسپائک پروٹین اور ''او آر ایف ایٹ'' (ORF-8) نامی پروٹین میں غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔



یہ کورونا وائرس پروٹینز کی وہی جماعت ہے جسے اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ B.1.1.7 قسم کے وائرس میں ''او آرایف 8'' جین اس حد تک بدل چکا ہے کہ اس کے دو پروٹین بن چکے ہیں۔

ان میں سے چھوٹا پروٹین خلیے کے باہر نکل جاتا ہے اور دوسرا بڑا پروٹین خلیے کے اندر ہی بیٹھا رہتا ہے۔

2003 میں سارس کوو وائرس میں بھی یہی ہوا تھا۔ یعنی اس وقت او آرایف 8 کی وجہ سے دو پروٹین بنے تھے۔ یہ وائرس 2019 کے ووہان وائرس کے مقابلے میں پھیلاؤ میں کم شدید لیکن زیادہ مہلک تھا!

ڈاکٹر مشتاق حسین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی ویکسین لگوانے والے تمام افراد چہرے پر ماسک اور سماجی فاصلے سمیت تمام ضوابط پر کاربند رہیں کیونکہ موجودہ ویکسینز صرف ''سارس کوو ٹو'' کے خلاف مؤثر ہیں جبکہ برطانوی قسم کے سامنے ان کی افادیت ماند پڑسکتی ہے۔

 

کووڈ 19 کی نئی لہروں کے مزید شواہد


ڈاؤ یونیورسٹی کی تحقیق شائع ہونے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ممتاز سائنسی جریدے نیچر میں ایک اور مقالہ شائع ہوا جس سے پاکستانی تحقیق کی تائید ہوتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ووہان وائرس کےلیے تیارکردہ ویکسینز B.1.1.7 کے خلاف مکمل تاثیر نہیں رکھتیں۔

اہم بات یہ ہے کہ دونوں تحقیقات آزادانہ طور پر اسپائک پروٹین میں تبدیلیوں کا ذکر کررہی ہیں جو پہلے وائرس سے ملنے والی امنیاتی قوت کو زائل کرسکتی ہے۔

اسلام آباد میں واقع قومی ادارہ برائے صحت کے ماہرین نے بھی اس ضمن میں تحقیق کی ہے اور کہا ہے کہ برطانوی قسم کا وائرس اپنی تیزی کے باعث پاکستان میں زائد کیسز کی وجہ بن رہا ہے۔

انہوں نے اپنے مقالے میں بڑے پیمانے پر جینیاتی تجزئیے اور مناسب ساز و سامان والی تجربہ گاہوں کے پاکستان بھر میں قیام پر زور دیا ہے تاکہ آبادی میں اس نئے وائرس کی شناخت کو تیز کیا جاسکے۔

اس کے بعد حال ہی میں ممتاز بین الاقوامی ماہرین کی ایک رپورٹ جریدے ''سیل'' میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ B.1.1.7 ووہان وائرس سے 30 تا 60 فیصد زائد پھیلاؤ رکھتا ہے اور شاید پاکستان میں کووڈ 19 کے تازہ واقعات میں یہی وائرس کارفرما ہو۔

برطانوی وائرس کے آغاز سے متعلق جب ڈاکٹر مشتاق سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اب تک حتمی طور پر نہیں بتاسکتے کہ ''سارس کوو ٹو'' کی یہ نئی قسم کیسے پیدا ہوئی، تاہم یہ دیگر خردنامیوں (مائیکروبز) کی طرح ایک ارتقائی عمل بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ اس معاملے میں قدرے تیز رفتار ہے۔

سائنسی لٹریچر سے ثابت ہوتا ہے کہ امنیاتی مدافعتی طریقوں کی وجہ سے وائرس میں تبدیلیاں (میوٹیشنز) تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اسی لیے لوگوں کو وائرس کے لحاظ سے ہی امنیاتی معالجہ (امیون تھراپی) فراہم کرنا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں