دو بوند پانی کےلیے ترستی زندگی

جاگ جائیے اس سے پہلے کہ اس دھرتی سے صاف پانی کا ہر قطرہ نچوڑ لیا جائے

ملک کے بیشتر حصوں میں صاف پانی تو درکنار آلودہ پانی کی بوند بھی دستیاب نہیں۔ (فوٹو: فائل)

وہ تھکن سے چور تھی۔ اس کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ ایک ہاتھ میں پانی کا گھڑا جبکہ دوسرے ہاتھ میں اپنا کم سن بچہ اٹھائے وہ مسلسل آگے بڑھتی جارہی تھی۔ اس کے خشک ہونٹ پانی کو ترس رہے تھے، مگر وہ اس بیابان میں پانی کی ایک گھونٹ لینے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ ان بنجر اور خشک پہاڑوں پر تو ہر ایک قدم کے بعد اسے پانی کی ضرورت تھی۔ وہ اپنے گھڑے سے ایک گھونٹ پانی اگر پی لے تو منزل تک پہنچنے سے قبل ہی پانی کا گھڑا ختم ہوسکتا ہے۔ اس نے اپنی چادر سے اپنے بچے کو ڈھانپا اور منزل کی جانب بڑھنا شروع ہوگئی۔

یہ کہانی بلوچستان کے خشک پہاڑوں میں زندگی کی تلاش میں مگن ایک بنجارن کی ہے۔ لیکن ایسی ہی درجنوں کہانیاں تھر کے صحرا، خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر کی وادیوں میں روز ہی جنم لیتی ہیں۔ اب تو پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب میں بھی پانی ناپید ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان جو زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ جہاں آبادی کا 70 فیصد حصہ اس پانی پر انحصار کرتا ہے، وہاں کنکریٹ کے جنگلات، آلودگی، بارشوں کی کمی اور پانی کے ضیاع کے باعث ایک بڑا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان دنیا کا 17 واں ملک ہے جسے پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ میں اگر صرف لاہور شہر کی بات کروں تو یہاں ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ڈھائی فٹ نیچے جارہی ہے اور اگر اس کی طرف توجہ نہ دی گئی تو اگلے دس برس یعنی 2031 تک لاہور میں پینے کا پانی ختم ہوجائے گا۔

شہر قائد کی بات کریں تو یہاں بھی شہری صاف پانی کی تلاش میں پریشان حال ہیں۔ کوئٹہ شہر ٹینکرز مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔ اسلام آباد شہر اقتدار ہے، اس شہر کو بھی مختلف مصنوعی ذرائع سے پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ شاہینوں کے شہر سرگودھا کی بات کریں تو ابھی چند دن قبل حکومت پنجاب نے انکشاف کیا کہ یہاں تو 90 فیصد زیر زمین پانی آلودہ ہے۔ ایسی ہی صورتحال ملک کے تمام چھوٹے اور بڑے شہروں کی ہے۔

آج پانی کا عالمی دن ہے، آج کرۂ ارض پر بسنے والے کروڑوں نفوس پانی بچانے کا عہد کریں گے، پانی کے مسائل سے چھٹکارا پانے کی تدابیر تلاش کریں گے۔ لیکن بحیثیت پاکستانی، کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ سالانہ آلودہ پانی پینے سے 52 ہزار پاکستان بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اسپتالوں میں آنے والے ڈیڑھ فیصد مریضوں کا تعلق پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہوتا ہے۔ ہم نے ان ہزاروں مریضوں کےلیے کیا اقدامات کئے؟ پانی تو زندگی ہے ناں، تو زندگی موت کا باعث کیوں بن رہی ہے؟ حکومتی سطح پر پہلے کوئی اقدامات ہوئے اور نہ ہی آئندہ ایسے اقدامات کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن آئندہ نسلوں تک پانی کی رسائی کےلیے ہم تو اپنے حصے کی شمع جلا سکتے ہیں؟


جہاں شہروں میں آلودہ پانی، زیر زمین پانی کی کمی سمیت دیگر آبی مسائل کا سامنا ہے، وہیں ملک کے بیشتر حصوں میں صاف پانی تو درکنار آلودہ پانی کی بوند بھی دستیاب نہیں۔ ایسے میں کچھ سرپھرے لوگ مسیحائی کےلیے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ کبھی تھر میں نعمت اللہ خان کی صورت میں کنویں کھودتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی عبدالشکور کی طرح خیبرپختونخوا میں پانی کے منصوبے لگارہے ہوتے ہیں، پنجاب کے دور دراز علاقوں میں زرعی ماہر ڈاکٹر مشتاق مانگٹ کی صورت میں سولر ہینڈ پمپس، فلٹریشن پلانٹ لگواتے فرشتے بھی اس دیس میں موجود ہیں۔

پانی کے عالمی دن کی مناسبت سے الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ملک بھر میں خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا گیا ہے، جہاں یونیورسٹیز کے لڑکے اور لڑکیاں رضا کارانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جو نوجوان نسل کو پانی کی اہمیت سے روشناس کرا رہے ہیں۔ ملک بھر میں موجود 140 فلٹریشن پلانٹ، 2 ہزار سے زائد کنویں، 8 ہزار کے قریب ہینڈ پمپ، اور ایک سو واٹر اسکیمیں فاؤنڈیشن کے کام کا مظہر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بلوچستان میں کاریز کے منصوبے لگا کر فاؤنڈیشن صوبے کے ہزاروں افراد کو مستفید کررہی ہے۔ الخدمت کے ان منصوبوں سے 32 لاکھ شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن 22 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف 32 لاکھ افراد کےلیے سہولیات ناکافی ہیں۔ ہر شخص تک صاف پانی کی رسائی ممکن بنانے کےلیے جہاں حکومت کا کردار اہم ہے، وہیں ان مخیر اداروں کے ساتھ تعاون بھی ضروری ہے۔ کیونکہ خیراتی اداروں سے وابستہ افراد کے سر پر معاشرے کے ساتھ تعاون کا جنون سوار ہوتا ہے۔ یہی جنون انہیں تھر کے خشک میدانوں، بلوچستان کے بنجر پہاڑوں، کشمیر کی برف پوش وادیوں اور خیبرپختونخوا کے دور دراز دیہاتوں تک لے جاتا ہے۔ میں جب بھی لاہور میں آلودہ پانی سے ہیپاٹائٹس کے شکار مریضوں کو دیکھتی ہوں، دور دراز گاؤں میں پیٹ کی بیماریوں کے شکار بچوں کے اعداد و شمار میرے سامنے آتے ہیں، تو دل زخموں سے چور ہوجاتا ہے۔ ملک سے پانی کے ختم ہوتے ذخائر اور شہروں میں کنکریٹ کے جنگلات نظروں کے سامنے آتے ہیں تو ابنِ آدم کی اس ترقی پر خون کے آنسو رو پڑتی ہوں۔

آج پانی کے عالمی دن کے موقع پر جی چاہتا ہے کہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کی ترکیب سوچوں، شہروں کے نواح میں چھوٹی چھوٹی مصنوعی جھیلیں کھودوں، پہاڑوں پر درخت اگاؤں، دریاؤں کا پانی محفوظ بنانے کےلیے ڈیم تعمیر کراؤں، تھر کے ریگستان سے صاف پانی کے ذخائر تلاش کروں، بلوچستان کے ہر گاؤں تک کاریز پہنچاؤں، جنوبی پنجاب کے شہروں سے سیم اور تھور کا خاتمہ کروں، ڈیرہ غازی خان اور تونسہ کے قبائلی علاقوں میں بڑے بڑے زمینداروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوجاؤں، پانی کے ذخائر پر ان کے قبضوں کی داستان سب کے سامنے رکھوں، قبائلی رسومات کے سامنے بے بسی سندھ، جنوبی پنجاب، وزیر ستان اور بلوچستان کے باسیوں کے درد کی دوا تلاش کروں۔ 22 کروڑ پاکستانیوں کو ان کے گھر میں پینے کا صاف پانی مہیا کروں، لیکن شاید ہزاروں خواہشات کی طرح اس منزل کا حصول میرے لیے ناممکن ہے، لیکن میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر الخدمت فاؤنڈیشن جیسے فلاحی اداروں کی مدد تو کرسکتی ہوں جو میری خواہشات کے اس مشن پر کام کر رہے ہیں۔

آئیے آج پانی کے عالمی دن پر خود سے عہد کریں کہ تھر کے ریگستان میں کوئی بیٹی قطرہ آب کو نہیں ترسے گی۔ خود سے وعدہ کیجئے کہ جنوبی پنجاب کے کھارے پانی سے کسی بچے کو بیمار نہیں ہونے دیں گے۔ خود سے یہ پیماں باندھیے کہ کشمیر کی وادیوں، خیبر پختونخوا کے سنگلاخ پہاڑوں اور بلوچستان کی خشک چٹانوں کے باسیوں تک قدرت کی یہ نعمت پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ جیسے قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے ویسے ہی انفرادی کوششیں انقلاب کی بنیاد بنتی ہیں۔ جاگ جائیے اس سے پہلے کہ اس دھرتی سے صاف پانی کا ہر قطرہ نچوڑ لیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story