عوام کیا چاہتے ہیں

لب بستگی کا عہد اختتام پذیر ہے، راز کھل رہے ہیں، عقدہ کشائی ہو رہی ہے۔


Editorial March 21, 2021
لب بستگی کا عہد اختتام پذیر ہے، راز کھل رہے ہیں، عقدہ کشائی ہو رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ملک غالباً ایک نئے فکری، تہذیبی، اقتصادی اور سیاسی افق کی جانب بڑھ رہا ہے، لب بستگی کا عہد اختتام پذیر ہے، راز کھل رہے ہیں، عقدہ کشائی ہو رہی ہے، سیاسی اور معاشی حقائق اندھیرے سے روشنی میں آ رہے ہیں۔

سیاسی سوچ افشا کر کے نئے زاویے، نئے پیراڈائم اور پاکستان کی نئی نسل علمی اور تخلیقی تناظر کی فرسودگی سے الگ ہو رہی ہے، بہت سارے حقائق اور بند سیاسی فکر کے دائرے یکبارگی سیاسی اور معاشی خیالات میں کسی صائب سونامی کی ایک غیر محسوس زمینی گڑگڑاہٹ سے خبردار کر رہے ہیں، لگتا ہے کہ پاکستان بدلنے لگا ہے، روز ایک نئی بات جو اہل وطن کے سینے میں بہتر سالوں سے سربستہ راز بن کر چمٹی رہی ہے وہ کثیر جہتی انداز میں آج منکشف ہو رہی ہے، تلخ حقیقتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔

اطلاعات کا فشار اپنے جوبن پر ہے، جو عوام کل سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ انہونیاں آج ہو رہی ہیں، برف پگھل رہی ہے، میڈیا کی آزادی اس ساری صورتحال میں عوام کو حقائق سے آگاہ کر رہی ہے، خرد اور جنوں کی کرشمہ سازی عروج پر ہے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برس ہا برس کی روایتی اور فرسودہ سوچ اور جیو پولیٹیکل سیناریو کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کو بیتاب ہے، بہر حال جو کچھ بھی ہے، مبصرین کے مطابق وہ حالات کا ناگزیر بہاؤ ہے۔ بہت سے حقائق سامنے آ رہے ہیں جن پر سوچنا بھی گناہ تھا۔

گزشتہ روز اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ کی اختتامی نشست میں سلامتی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ آنے والے عشرے میں خطوں اور ملکوں کے مابین رابطہ کا ری ہما ری خارجہ پالیسی کا بنیادی عنصر ہو گا، پاکستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت کے پیش نظر نیشنل سیکیورٹی کے تصور کی نئی تشریح کرنا ہو گی، پاکستان کو بڑے داخلی چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا، قومی سلامتی کا تصور صرف فوجی طاقت سے منسلک نہیں بلکہ یہ ہیومن سیکیورٹی سے جڑی ہے۔

اہم بات یہ کی گئی کہ پاکستان کو قانون کی حکمرانی کے نیشنل آرڈر کی ضرورت ہے، جس میں فرسودہ ریاستی گورننس کے بجائے متحرک، جوان اور ہمہ جہتی سوسائٹی اجاگر ہو سکے جس میں ہر شہری اور خا ص طور پر نوجوان اور خواتین زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں، مغرب سے فاصلہ کر کے ہم نے مشرق سے رجوع کیا، سیکیورٹی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ صدی ایشیاء کی صدی ہے اور پاکستان کو علاقائی رابطہ کاری میں اہم اور مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا، مودی کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے اور ہماری زندگی میں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہے گا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا تو کیا حالات ہوتے اس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ملک دیوالیہ ہونے سے مہنگائی زیادہ اور روپے کی قدر گر جاتی، دوست ممالک نے مدد کر کے دیوالیہ ہونے سے بچایا، وزیر اعظم کو ان باوفا دوستوں کے نام بھی بتانے چاہئیں اور ان کی پاکستان کی اقتصادی امداد کے مزید حقائق سے بھی ملکی ماہرین اور اقتصادی مشیروں کو آگا کرنا چاہیے، اگر واقعی ملک دیوالیہ بننے کے خطرہ سے دوچار تھا تو اس ممکنہ خطرہ پر بند باندھنے کی تدابیر پر تیزی سے کام ہونا چاہیے، حکمرانی، داخلی سیاسی تناؤ، کشیدگی اور تصادم کی روک تھام کے لیے باہمی اختلافات کا ہر راستہ بند ہونا چاہیے۔

صائب موقع ہے کہ ملک عدم رواداری اور بلیم گیم سے پیچھے ہٹے، سیاسی مفاہمت کے امکانات پر غور و فکر ہونا چاہیے، قوم سیاسی انتشار اور ملکی معیشت کے استحکام کے مثبت اشاریوں پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ریلیف کے منتظر ہے لیکن اسے صرف اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں کے سوا کچھ ملتا نظر نہیں آتا، عوام کو اقتصادی و مالیاتی انڈیکس بھی مطمئن نہیں کرسکے، غریب اس بات سے خوش نہیں ہوگا کہ اس کی حالت کو بہتر کرنے اور اسے اوپر لانے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عوام مزید دو سو نوے ارب کے ٹیکسں کے بوجھ تلے دب جائیں گے، وہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے دل شکستہ ہوگئے ہیں، کورونا کیسز میں ہولناک اضافہ نے ان کی نیندیں اڑا دی ہیں، انھیں ویکسینیشن کی خوشیاں بھی راس نہیں آئیں، اب لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں سے سخت دباؤ میں ہیں، قوم کے سر پر ہتھوڑے کی طرح یہ خبر بھی برس رہی ہیں کہ بیروزگاری اور مہنگائی کا سلسلہ ان کی جان نہیں چھوڑے گا۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہمیں قرضوں کی واپسی کے لیے دولت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ بڑے سرمایہ کار بنڈل جزیرے پر سرمایہ کاری کے منتظر ہیں لیکن سندھ حکومت اجازت نہیں دے رہی ، مشکل حالات سے اب نکل آئے ہیں، زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے آیندہ ہفتے نئی پالیسی لائیں گے۔

یونیورسٹی آف مالاکنڈ کے نئے بلاک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے بعد وزیر اعظم نے سوات ایکسپریس وے پر تین سرنگوں کی تعمیر کے منصوبہ کا بھی افتتاح کیا۔ وزیر اعظم نے تکمیل شدہ سرنگوں کا معائنہ بھی کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے منصوبے لگا رہے ہیں جس سے ملکی دولت بڑھے گی، لاہور میں راوی سٹی منصوبے سے ہزاروں ارب روپے کی آمدنی ہوگی، غیر ملکی زرمبادلہ آنے سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی۔

وفاقی کابینہ نے جمعے کو بجلی کی قیمت میں مجموعی طور 5.65 روپے فی یونٹ اضافہ کے لیے صدارتی آرڈیننس لانے کی منظوری دیدی۔ بجلی کی قیمت میں یہ فوری اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے جس کا مقصد بجلی صارفین سے اکتوبر تک 884 ارب روپے اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہے۔5.65 روپے فی یونٹ اضافہ چھ مرحلوں میں ہوگا جس کی وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے گزشتہ روز منظوری دیدی۔

وفاقی کابینہ نے ایک دوسری سرکولیشن سمری کے ذریعے جمعہ کو آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی پیشگی شرط کے تحت 140 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی بھی منظوری دیدی ہے۔ وفاقی کابینہ نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کی بھی منظوری دی جس کے تحت حکومت کو بجلی پر ریونیو بڑھانے کے لیے مزید 10 فیصد سرچارج لگانے کا بھی اختیار حاصل ہوجائیگا اور وہ بجلی کی قیمت میں 1.40 روپے فی یونٹ اضافہ کر سکے گی۔ اس کا مقصد سرکلر ڈیٹ پروگرام پر عملدرآمد کرنا ہے، جس کی منظوری وفاقی کابینہ دے چکی ہے۔

ذرایع کے مطابق پاکستان اب آئی ایم ایف قرضہ کی تمام شرائط پوری کر چکا ہے اور آیندہ ہفتے عالمی مالیاتی ادارے کے بورڈ کی طرف سے پاکستان کے لیے قرضے کی قسط کی منظوری کا امکان ہے۔ بجلی کی قیمت میں5.65 روپے فی یونٹ اضافے کا مطلب بلوں میں سے ٹیکس نکال کر 36 فیصد اضافہ ہے۔ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان کے مطابق اپریل2021 سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ چھ مرحلوں میں ہوگا جو جون 2023 تک جاری رہے گا۔ بجلی کی قیمت میں دو بار اضافہ سالانہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور چار سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کے تحت کیا جائیگا۔

اس کے بعد 10 فیصد سرچارج شامل ہونے سے قیمت سات روپے فی یونٹ بڑھ جائے گی جس کا صارفین پر 934 ارب روپے اضافی بوجھ پڑے گا، اسٹیٹ بینک نے آیندہ 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے شرح سود7فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق جنوری میں گزشتہ اجلاس کے بعد معاشی نمو اور روزگار میں بحالی آتی گئی اور کاروبار کا اعتماد بہتر ہوا، معاشی ترقی کی شرح نمو3 فیصد کے لگ بھگ ہے اور ابھی تک معتدل ہے جس سے رواں مالی سال معاشی نمو کے اندازے درست رہنے کی امید ہے۔

جنوری میں مہنگائی دو سال سے زیادہ عرصے کی پست ترین سطح پر رہی تاہم فروری میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا، چینی و گندم کی قیمتوں میں اضافہ اس کا سبب بنا، بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے اثرات آیندہ مہینوں کے دوران مہنگائی کی شکل میں ظاہر ہوں گے جو قبل ازیں اعلان کردہ7-9 فیصد کی حدود کی بالائی حد کے قریب رہے گی، آگے چل کر جب سرکاری قیمتوں کے باعث مہنگائی میں حالیہ اضافے کا اثر مدھم پڑے گا تو وسط مدت میں مہنگائی کم ہوکر5-7 فیصد کی حدود تک آنی چاہیے۔

کووڈ کی تیسری اور زیادہ مہلک لہر کی وجہ سے خطرات برقرار ہیں، گرمیوں میں اجرتوں پر مذاکرات اور اگلے سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات رسدی دھچکوں کو بڑھا سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس سال امریکی قیادت میں ہونے والی عالمی بحالی اجناس، بشمول غذا اور تیل، کی بلند بین الاقوامی قیمتوں پر منتج ہو رہی ہے جو ملکی مہنگائی پر اثرات قائم رکھ سکتی ہے۔

معیشت جیسے جیسے بحال ہو رہی ہے، تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے جس کا جزوی سبب اشیائے سرمایہ اور صنعتی سامان کے ساتھ غذا کی بھی درآمدات ہیں جب کہ بڑھتی ہوئی عالمی قیمتیں بھی ایک وجہ ہیں۔ اس سے قطع نظر، مالی سال 21ء میں جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بدستور کم رہنے کی توقع ہے۔

سیاست، معیشت اور تعلیم و صحت سمیت تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بڑے اور نتیجہ خیز اقدامات ہی معاشرتی تبدیلی لاسکتے ہیں لیکن قوم کی نفسیاتی تحلیل کو بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وزیر اعظم کی ٹیم میں ملک کی معاشی تقدیر بدلنے کی وہ امنگ، عزم اور اقتصادی بریک تھرو کرنے کے ''سیاسی ارادہ'' کی جس کی خاص طور پر نوجوان نسل وزیر اعظم سے توقع رکھتی ہے اپنی اصل طاقت کے ساتھ بروئے کار نہیں لائی جاسکی ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق ارباب اختیار جب تک سیاسی موسم کو مسلمہ جمہوری اور پارلیمانی روایات سے ہم آہنگ نہیں کرینگے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، سیاست میں تدبر اور تحمل کی واپسی ناگزیر ہے، ملک کو تاریخ کے اس سبق کو یاد کرنا ہوگا کہ تاریخ بربریت کے اعادہ ہی کا نام ہے، اس انداز نظر کی ہمارے ہاں سیاسی مثالیں جابجا پھیلی ہوئی ہیں، جمہوری نظام سے عوام نے سونے چاندی یا ہاتھی گھوڑوں کی فرمائش نہیں کی ہے۔ وہ دہائیوں سے زندگی میں تبدیلی کی آرزو رکھتے ہیں، اور یہ ان کا حق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔