شاہد حمید اور شہناز نور
مہمان نوازی، بذلہ سنجی اورخوبصورت ترنم اُن کی شخصیت کے روشن ترین پہلو تھے۔
جس قدر تیزی سے احبابِ رفتگاں کی فہرست میں داخل ہوتے جارہے ہیں، اُس طرف دیکھنا ہی اَب ایک امتحان بنتا جارہا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو جس میں ایک یا ایک سے زیادہ غیرمعمولی لوگ دنیا سے پردہ نہ کرگئے ہوں۔
ہرجانے والا پہلے سے موجود زخموں کو کچھ اور ہرا کر جاتا ہے بالخصوص کسی ایسے شخص کی رحلت کی خبر جس کو آخری ملاقات میں آپ نے اچھی صحت میں اور زندگی سے بھر پور دیکھا ہو بہت ہی زیادہ مغموم اور پریشان کرتی ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر آنے والے کو جانا ہے اور کسی کے بھی جانے کا وقت مقرر نہیں ہے، بعض اموات کو دل سے تسلیم کرنے میں دِقت ہوتی ہے۔
ایسی ہی اِک اطلاع بُک کارنر کے بانی پرادرم شاہد حمید کے انتقال کی خبر تھی کہ چند ماہ پہلے ہونے والی آخری ملاقات میں، میں نے انھیں اپنے بھرپور جوان اور سعادت مند بیٹوں اَمر اور گگن شاہد ہی کی طرح چُست اور چاک و چوبند دیکھا تھا، اُن کی باڈی لینگوئج، گفتگو اور بُک کارنر کے فروغ کے بارے میں عزائم اور پروگراموں سے متعلق ایک حیات پرور روّیہ تھا جو اَب ایک طرح سے اُن کی پہچان بن چکا تھا کہ میں نے پہلی سے آخری ہر ملاقات کے دوران ان کو ایسا ہی دیکھا اور پایاجیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کتاب،کتابوں کی صنعت، پبلشنگ کے ادارے اور کتابوں کی دوکانیں سب کے سب ایک امتحانی اور بظاہر زوال آمادہ صورتِ حال میں مبتلا ہیں کہ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیشتر کتابیں چند سو کی تعدارمیں چھپتی ہیں، اُن میں استعمال ہونے والی ہر چیز پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔
پبلشر کی جگہ پر نٹر نے لے لی ہے اور زیادہ تر صورتوں میں مصنف کو کتاب کی اشاعت کے تمام تر اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں اور بیشتر کتابوں کی دوکانیں یا تو بند ہوگئی ہیں یا اُن کی جگہ سکڑتے سکڑتے دکانوں کے گوشوں تک محدود ہوگئی ہیں۔ بڑے بڑے اشاعتی ادارے بند ہوتے چلے جارہے ہیں اور سوائے درسی اور دینی کتابوں کے بہت کم کتابیں پبلشر خود سے چھاپتے ہیں۔
سماجی، سائنسز، ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق عمدہ اور معیاری انداز میں طبع شدہ کتابیں تعداد میں کم اور قیمت میں زیادتی کے عمل میں مبتلاہیں، ایسے میں لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں قائم کئی معروف اشاعتی اداروں نے یا تو کاروبار بند کردیے ہیں یا اُن کو بہت محدود کردیا ہے، ایسے میں جہلم جیسے اشاعتی اعتبار سے چھوٹے، پسماندہ اور نسبتاً غیر کاروباری علاقے میں شاہد حمید مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان اور ایک تقریباً بے نام سے اشاعتی ادارے کو جس طرح سے کتابوں کی صنعت اور مارکیٹ میں ایک مثالی اور انتہائی فعال ادارے کو شکل دی ہے، اُس پر اُن کو جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے کہ یہ بظاہر ایک سو فی صد خسارے کا کام تھا کہ ایسی بڑی تعداد میں اس قدر اہم ، متنوع ، ضخامت میں بڑی اور طباعت میں انتہائی خوب صور ت اورخوش رنگ کتابوں کو نہ صرف مسلسل چھاپا بلکہ اُن کو قارئین تک پہنچا کر بھی دکھایا، ڈسٹری بیوشن کے اس عمل کو جوبوجوہ ٹوٹ پُھوٹ کا شکار تھا، انھوں نے آن لائن فروخت یا کتاب کو قاری کے گھر تک پہنچانے کا جو نظام وضع کیا اور جس خوش اسلوبی اور مہارت سے کتابوں کے تعارف اور ترسیل کو ایک باقاعدہ سائنس کی شکل دی، وہ انھی کا حصہ ہے۔
بُک کارنر جہلم کے حوالے سے عام طور پر اُن کے بیٹوں گگن اور اَمر شاہدکے نام ہی سامنے آتے ہیں مگر بقول غالب ''کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں'' تو وہ باکمال ہستی شاہد حمید مرحوم ہی کی تھی جنھوں نے ساری زندگی کتاب سے محبت کے ساتھ بسر کی اور بطور انسا ن بھی بہت خوش مزاج، خوش گو اور مہمان نواز واقع ہوئے تھے اور یہی جوہر اُن کی اولاد میں بھی بھرپور اندازمیں ٹرانسفر ہوا ہے۔ میرے نزدیک کتاب کے حوالے سے جہلم شہر کو اُردو دنیا کے نقشے پر نمایاں اور مستحکم کرنے کا کریڈٹ اگر کسی آدمی کو دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف شاہد حمید مرحوم تھے ۔
مرحومہ شہناز نور سے آخری ملاقات کوئی ڈیڑھ برس قبل کراچی میں ہوئی، ان دنوں وہ ایک طویل اور سنگین بیماری سے جزوی طور پر صحت یاب ہوکر دوبار ہ سے ادبی تقریبات میں شامل ہونا شروع ہوئی تھیں لیکن یہ طویل بیماری بھی اُُن کی مخصوص مسکراہٹ کو ایک حد سے زیادہ دھندلا نہیں سکی تھی ۔حکومت سندھ کے شعبہ اطلاعات میں ایک نیم صحافیانہ زندگی گزارنے کے باعث اُن کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا مگر وہ زیادہ سہولت اپنی ادیب برادری ہی میں محسوس کرتی تھیں۔
مہمان نوازی، بذلہ سنجی اورخوبصورت ترنم اُن کی شخصیت کے روشن ترین پہلو تھے جن کی مدد سے انھوں نے زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات اور حادثات کا بہت بہادری اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، ان کی شخصیت کے یہ دونوں رُخ اُن کی شاعری میں بھی بہت نمایاں اور واضح ہیں، سماجی اور معاشرتی حوالے اُن کے یہاں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں جن کی جھلکیاں اُن کے اشعار میں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں، اُن کی ایک بہت ہی مشہور اور میری پسندیدہ غزل کے چند اشعار کے ساتھ اُن کے کچھ جستہ جستہ اشعار ایک ''الوداعیہ'' کے طور پر کچھ اس طرح سے ہیں۔
کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں رواداریاں نبھاتے ہوئے
کسی کو میرے دُکھوں کی خبر بھی ہو کیسے
کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے
نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہُوں نورؔ
بدن کی خاک سے دیوارودر بناتے ہوئے
اَنا پرست ہے جذبات میں بہے گا نہیں
وہ ملنے آئے گا مجھ سے مگر کہے گا نہیں
وہ میرا دوست بھی ایسا تھا جیسا دشمن ہے
مری تباہی پہ روئے بِنا رہے گا نہیں
ہو کوئی رُت ، غمِ ہجراں کو ساتھ رکھا جائے
سفر میں زیست کے ساماں کو ساتھ رکھا جائے
خیال ہی نہیں آیا کہ آرزو میں تری
غبار ہونے کے امکاں کو ساتھ رکھا جائے
بے نام خواہشوں کو شریکِ سفر کیا
ہم نے ہر ایک غم کو متاعِ ہنر کیا
آخر کو کاٹنا تھی کسی طور زندگی
سو ہم نے خود کو آپ سے ہی بے خبر کیا
ہونٹوں پہ آکے ٹوٹ گیا حرفِ مدّعا
اُس نے بھی جو کلام کیا مختصر کیا
رنگ بھرگئے کتنے زیست کی کہانی میں
چُوم لی ہتھیلی جب اُس نے بے دھیانی میں
دل نشیں آپ کی تصویر ہے کہنے دیجے
یہ مرے خواب کی تعبیر ہے کہنے دیجے
جس نے زخموں کو چُنا تھا کبھی لفظوںکی طرح
یہ اُسی ہاتھ کی تحریر ہے کہنے دیجے
ہر کڑی دھوپ میں جلنے کا بدن ہے عادی
یہ میرے شہر کی تقدیر ہے کہنے دیجے
ہرجانے والا پہلے سے موجود زخموں کو کچھ اور ہرا کر جاتا ہے بالخصوص کسی ایسے شخص کی رحلت کی خبر جس کو آخری ملاقات میں آپ نے اچھی صحت میں اور زندگی سے بھر پور دیکھا ہو بہت ہی زیادہ مغموم اور پریشان کرتی ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر آنے والے کو جانا ہے اور کسی کے بھی جانے کا وقت مقرر نہیں ہے، بعض اموات کو دل سے تسلیم کرنے میں دِقت ہوتی ہے۔
ایسی ہی اِک اطلاع بُک کارنر کے بانی پرادرم شاہد حمید کے انتقال کی خبر تھی کہ چند ماہ پہلے ہونے والی آخری ملاقات میں، میں نے انھیں اپنے بھرپور جوان اور سعادت مند بیٹوں اَمر اور گگن شاہد ہی کی طرح چُست اور چاک و چوبند دیکھا تھا، اُن کی باڈی لینگوئج، گفتگو اور بُک کارنر کے فروغ کے بارے میں عزائم اور پروگراموں سے متعلق ایک حیات پرور روّیہ تھا جو اَب ایک طرح سے اُن کی پہچان بن چکا تھا کہ میں نے پہلی سے آخری ہر ملاقات کے دوران ان کو ایسا ہی دیکھا اور پایاجیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کتاب،کتابوں کی صنعت، پبلشنگ کے ادارے اور کتابوں کی دوکانیں سب کے سب ایک امتحانی اور بظاہر زوال آمادہ صورتِ حال میں مبتلا ہیں کہ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیشتر کتابیں چند سو کی تعدارمیں چھپتی ہیں، اُن میں استعمال ہونے والی ہر چیز پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔
پبلشر کی جگہ پر نٹر نے لے لی ہے اور زیادہ تر صورتوں میں مصنف کو کتاب کی اشاعت کے تمام تر اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں اور بیشتر کتابوں کی دوکانیں یا تو بند ہوگئی ہیں یا اُن کی جگہ سکڑتے سکڑتے دکانوں کے گوشوں تک محدود ہوگئی ہیں۔ بڑے بڑے اشاعتی ادارے بند ہوتے چلے جارہے ہیں اور سوائے درسی اور دینی کتابوں کے بہت کم کتابیں پبلشر خود سے چھاپتے ہیں۔
سماجی، سائنسز، ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق عمدہ اور معیاری انداز میں طبع شدہ کتابیں تعداد میں کم اور قیمت میں زیادتی کے عمل میں مبتلاہیں، ایسے میں لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں قائم کئی معروف اشاعتی اداروں نے یا تو کاروبار بند کردیے ہیں یا اُن کو بہت محدود کردیا ہے، ایسے میں جہلم جیسے اشاعتی اعتبار سے چھوٹے، پسماندہ اور نسبتاً غیر کاروباری علاقے میں شاہد حمید مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان اور ایک تقریباً بے نام سے اشاعتی ادارے کو جس طرح سے کتابوں کی صنعت اور مارکیٹ میں ایک مثالی اور انتہائی فعال ادارے کو شکل دی ہے، اُس پر اُن کو جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے کہ یہ بظاہر ایک سو فی صد خسارے کا کام تھا کہ ایسی بڑی تعداد میں اس قدر اہم ، متنوع ، ضخامت میں بڑی اور طباعت میں انتہائی خوب صور ت اورخوش رنگ کتابوں کو نہ صرف مسلسل چھاپا بلکہ اُن کو قارئین تک پہنچا کر بھی دکھایا، ڈسٹری بیوشن کے اس عمل کو جوبوجوہ ٹوٹ پُھوٹ کا شکار تھا، انھوں نے آن لائن فروخت یا کتاب کو قاری کے گھر تک پہنچانے کا جو نظام وضع کیا اور جس خوش اسلوبی اور مہارت سے کتابوں کے تعارف اور ترسیل کو ایک باقاعدہ سائنس کی شکل دی، وہ انھی کا حصہ ہے۔
بُک کارنر جہلم کے حوالے سے عام طور پر اُن کے بیٹوں گگن اور اَمر شاہدکے نام ہی سامنے آتے ہیں مگر بقول غالب ''کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں'' تو وہ باکمال ہستی شاہد حمید مرحوم ہی کی تھی جنھوں نے ساری زندگی کتاب سے محبت کے ساتھ بسر کی اور بطور انسا ن بھی بہت خوش مزاج، خوش گو اور مہمان نواز واقع ہوئے تھے اور یہی جوہر اُن کی اولاد میں بھی بھرپور اندازمیں ٹرانسفر ہوا ہے۔ میرے نزدیک کتاب کے حوالے سے جہلم شہر کو اُردو دنیا کے نقشے پر نمایاں اور مستحکم کرنے کا کریڈٹ اگر کسی آدمی کو دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف شاہد حمید مرحوم تھے ۔
مرحومہ شہناز نور سے آخری ملاقات کوئی ڈیڑھ برس قبل کراچی میں ہوئی، ان دنوں وہ ایک طویل اور سنگین بیماری سے جزوی طور پر صحت یاب ہوکر دوبار ہ سے ادبی تقریبات میں شامل ہونا شروع ہوئی تھیں لیکن یہ طویل بیماری بھی اُُن کی مخصوص مسکراہٹ کو ایک حد سے زیادہ دھندلا نہیں سکی تھی ۔حکومت سندھ کے شعبہ اطلاعات میں ایک نیم صحافیانہ زندگی گزارنے کے باعث اُن کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا مگر وہ زیادہ سہولت اپنی ادیب برادری ہی میں محسوس کرتی تھیں۔
مہمان نوازی، بذلہ سنجی اورخوبصورت ترنم اُن کی شخصیت کے روشن ترین پہلو تھے جن کی مدد سے انھوں نے زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات اور حادثات کا بہت بہادری اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، ان کی شخصیت کے یہ دونوں رُخ اُن کی شاعری میں بھی بہت نمایاں اور واضح ہیں، سماجی اور معاشرتی حوالے اُن کے یہاں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں جن کی جھلکیاں اُن کے اشعار میں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں، اُن کی ایک بہت ہی مشہور اور میری پسندیدہ غزل کے چند اشعار کے ساتھ اُن کے کچھ جستہ جستہ اشعار ایک ''الوداعیہ'' کے طور پر کچھ اس طرح سے ہیں۔
کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں رواداریاں نبھاتے ہوئے
کسی کو میرے دُکھوں کی خبر بھی ہو کیسے
کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے
نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہُوں نورؔ
بدن کی خاک سے دیوارودر بناتے ہوئے
اَنا پرست ہے جذبات میں بہے گا نہیں
وہ ملنے آئے گا مجھ سے مگر کہے گا نہیں
وہ میرا دوست بھی ایسا تھا جیسا دشمن ہے
مری تباہی پہ روئے بِنا رہے گا نہیں
ہو کوئی رُت ، غمِ ہجراں کو ساتھ رکھا جائے
سفر میں زیست کے ساماں کو ساتھ رکھا جائے
خیال ہی نہیں آیا کہ آرزو میں تری
غبار ہونے کے امکاں کو ساتھ رکھا جائے
بے نام خواہشوں کو شریکِ سفر کیا
ہم نے ہر ایک غم کو متاعِ ہنر کیا
آخر کو کاٹنا تھی کسی طور زندگی
سو ہم نے خود کو آپ سے ہی بے خبر کیا
ہونٹوں پہ آکے ٹوٹ گیا حرفِ مدّعا
اُس نے بھی جو کلام کیا مختصر کیا
رنگ بھرگئے کتنے زیست کی کہانی میں
چُوم لی ہتھیلی جب اُس نے بے دھیانی میں
دل نشیں آپ کی تصویر ہے کہنے دیجے
یہ مرے خواب کی تعبیر ہے کہنے دیجے
جس نے زخموں کو چُنا تھا کبھی لفظوںکی طرح
یہ اُسی ہاتھ کی تحریر ہے کہنے دیجے
ہر کڑی دھوپ میں جلنے کا بدن ہے عادی
یہ میرے شہر کی تقدیر ہے کہنے دیجے