فرنچائز کرکٹ کرپشن کا گڑھ بننے لگی بڑے پیمانے پر تحقیقات

زیر تفتیش آدھے کیسز لیگز کے ہی متعلق ہیں، کرپٹ لوگ فرنٹ مین کے ذریعے ٹیم خریدتے ہیں، الیکس مارشل


Sports Desk March 21, 2021
غریب ممالک کے پلیئرزآسان ہدف ہیں،اصل خطرہ کھیل پراثرانداز بکیزسے ہے،آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ چیف۔ فوٹو: فائل

فرنچائز کرکٹ کرپشن کا گڑھ بننے لگی، بڑے پمانے پر تحقیقات جاری ہیں جب کہ آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ الیکس مارشل نے کہاکہ اس وقت زیر تفتیش آدھے کیسز لیگز سے متعلق ہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ الیکس مارشل نے ''کرک انفو'' کو انٹرویو میں کہاکہ سارے پچ سائیڈر خطرناک نہیں ہیں، یہ لوگ ٹی وی نشریات میں کچھ وقت کی تاخیر کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، اصل خطرہ وہ بکیز ہیں جوپلیئرز کے ذریعے کھیل پر اثر انداز ہوتے ہیں، متحدہ عرب امارات کے محمد نوید اور شیمان انور اس کی بہترین مثال ہیں، ان کو معلوم تھا کہ وہ کس انداز میں بیٹنگ اور بولنگ کریں گے، اس لیے بڑے داؤ کھیل کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسوسی ایٹ ممالک کے پلیئرز کو چونکہ کم معاوضہ ملتا ہے اس لیے وہ بکیز کا آسان شکار بن سکتے ہیں، اسی طرح چھوٹے فل ممبران کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے،سب سے غریب فل ممبر زمبابوے کی مثال سامنے ہے ہے، ہم نے دیکھا کہ وہاں کے پلیئر کو30 ہزار ڈالر تک آفر کی گئی، اتنی رقم میں وہاں پر ایک گھر خریدا جا سکتا ہے، اسی طرح کچھ ایسوسی ایٹ ممالک کے کھلاڑیوں کو 10 ہزار ڈالرجبکہ بعض یورپیئن کلب میچز میں پلیئرز کو 3 ہزار یورو کی پیشکش بھی ہوئی، اسی لیے ہم ریجنل ایونٹس کے دوران بھی چوکنا رہتے ہیں۔

الیکس مارشل کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر سال سیکڑوں کے حساب سے معلومات موصول ہوتی رہتی ہیں جن کا انٹیگریٹی یونٹ اچھی طرح جائزہ لیتا ہے، اسی طرح مختلف ممالک میں کھیلی جانے والی لیگز پر بھی نظر رکھی جاتی ہے، بعض اوقات فرنٹ مین ٹیمیں خریدتے جبکہ اصل مالکان پیچھے رہتے ہیں، مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا پتہ چلا لیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پلیئرز کو اپنے دام میں الجھانے کیلیے ہنی ٹریپ کا طریقہ 1970 کی دہائی سے جاری ہے، ایک کیس ایسا بھی ہوا جس میں پلیئر کو پھنسانے کیلیے طوائف کا استعمال کیا گیا اور اگلے ہی روز اس سے رابطہ کرلیا گیا، ہم کرپٹ لوگوں کی نشاندہی اب زیادہ جلد کرلیتے ہیں، وہ اپنا فون اور شناخت تبدیل کرتے ہیں مگر پھر بھی نظر میں آجاتے ہیں، اس لیے ہم ان کے منصوبوں کو اکثر عملدرآمد سے قبل ہی ناکام بنادیتے ہیں، یواے ای میں کوالیفائرز کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔

مارشل نے کہا کہ کھلاڑیوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلیے اسپانسرشپ کا بھی سہارا لیا جاتا ہے مگر اس کے پیٹرن سے بھی معلوم ہوجاتا ہے، جیسے کسی کی مارکیٹ ویلیو 1000 ڈالر اور اس کو کئی گنا زیادہ معاوضہ دیا جائے تو یہ چیز بھی ہماری دلچسپی کا باعث بنتی ہے، اس وقت 42 معاملات کی تحقیقات جاری ہیں۔

انہوں بتایا کہ گذشتہ 2 برس کے دوران ہمارے زیر تفتیش کیسز کی تعداد 40 اور 50 کے درمیان رہی، ان میں سے آدھے فرنچائز کرکٹ سے متعلق تھے، جب فرنچائز کرکٹ کا معاملہ ہوتا ہے تو پھر ٹیموں کے مالکان کے حوالے سے بھی چھان بین ہوتی ہے، اسی ہمیں فرنٹ مین اور اصل مالکان کے بارے میں معلوم ہوجاتا ہے۔

الیکس مارشل کا کہنا ہے کہ ہم کرپٹ لوگوں کو فل ممالک سے دور رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایسوسی ایٹ، کلب اور ویمنز کرکٹ میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارا اینٹی کرپشن یونٹ ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلیے کوشاں رہتا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں