ریپ کیس کا صائب فیصلہ
حکومت اور عوام کی بڑی تعداد زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دینے کی حامی نظر آتی ہے
BAGHDAD:
لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے موٹر وے پر خاتون سے اجتماعی زیادتی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزمان عابد ملہی اور شفقت بگا کو سزائے موت سنا دی۔
لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کو اپنی کار کا پٹرول ختم ہونے پر رکنا پڑا اور اس دوران دو ملزمان نے ان کے بچوں کے سامنے انھیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایاتھا،اس کیس کے فیصلے کا انتظار پوری قوم کو تھا ،صائب فیصلہ آنے سے زیادتی کا شکار خاتون کو انصاف ملا ہے،دونوں ملزمان کو ایک ایک مرتبہ سزائے موت، ایک ایک مرتبہ عمر قید کے علاوہ دونوں ملزمان کو 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
عدالت نے مقدمے میں37گواہوں کے بیانات قلمبند کیے، گواہوں میں متاثرہ خاتون اور مقدمہ مدعی کا بیان بھی قلمبند کیا گیا، زیادتی کا شکار خاتون کے میڈیکل ٹیسٹ میں خاتون سے زیادتی ثابت ہوئی ۔گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں موٹروے پر یہ انسانیت سوز واقعہ سامنے آیا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ جب تک ایک واقعہ ہائی پروفائل نہیں بنتا اس وقت تک تو پولیس کی سطح پر بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے کیسز رپورٹ نہیں کیے جاتے اور مقدمے کے اندراج سے روکا جاتا ہے اور تصفیہ کی بات کی جاتی ہے یہاں تک کہ پولیس اکثر و بیشتر ایسی متاثرہ خواتین کے مقدمات ہی درج نہیں کرتی جو ریپ کا شکار ہوئی ہوں۔
ملک میں ایسے مقدمات میں سزائیں ملنے کی شرح پانچ فی صد سے بھی کم ہے۔قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں تفتیش کے نظام میں موجود خامیاں، شہادتیں اور گواہی جمع کرنے کے نظام میں نقائص کے ساتھ ٹرائل کے مرحلے پر بعض قانونی پیچیدگیاں ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کو سزا نہیں مل پاتی ہے۔درحقیقت خواتین پر ہونے والا کسی بھی قسم کا تشدد اْن کی جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی صحت کو ناصرف متاثرکرتا ہے،بلکہ عوامی سطح پر ان کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اس تشدد کے اثرات آنے والی نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔
خصوصاً بچوں کی نفسیات، تربیت اور نشوونما پر خواتین پر ہونے والے تشدد کا بہت منفی اثر پڑتا ہے۔خواتین پر تشدد خاندانوں اور کمیونٹیز کو نسل در نسل نقصان پہنچاتا اور معاشرے میں پائے جانے والے دیگر قسم کے تشدد کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔یعنی معاشروں کو خواتین پر تشدد کی قیمت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے جو بہت زیادہ ہے جس کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔بدقسمتی سے ہماری روایات اور اقدار کے مطابق ریپ ہونے والا یا کسی بھی قسم کے جنسی حملے کا شکار ہونے والا معاشرتی سطح پر بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
اگر ریپ کا شکار ہونے والی کنواری لڑکی ہو تو گھر والوں کے سامنے یہ سوال منہ کھول کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس سے شادی کون کرے گا؟ اس طرح معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ لڑکی صرف ریپ نہیں ہوتی بلکہ اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کتنے متاثرین ہیں جو رپورٹ کرنا چاہیں گے؟ ریپ ہونے والے کے لیے اس حادثے کو بدنامی کا سبب بنا کر معاشرے نے ریپسٹ کے ہاتھ میں ریپ کرنے کا لائسنس تھما دیا ہے۔ کیا ہمیں اس حوالے سے سماجی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت نہیں؟
وزیر اعظم عمران خان پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ '' خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ایسے ملزمان کو چوک پر لٹکانا چاہیے۔ کیونکہ ایسے واقعات سے خواتین اور بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔'' انھوںنے اپنے انٹرویو کے دوران جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے ایسے مجرموں کو جنسی قوت سے محروم کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔ ان کے بقول یہ عمل کئی ملکوں میں لاگو ہے اس لیے پاکستان میں اس کے لیے نئے قوانین متعارف کرانا ہوں گے تاکہ جنسی زیادتی کے واقعات اور اِن جرائم کے بار بار ارتکاب سے لوگوں کو روکا جا سکے۔
ہمارے تھانوں کا ماحول خواتین پر تشدد کے واقعات کی اطلاع دہندگی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔جب خواتین پر تشدد کے واقعات درج نہیں ہوں گے تو پھر کیسے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے قانون کا سہارا لیا جا سکے گا؟ہم نے اس جرم کو ریپ ہونے والے کے لیے بدنامی کا باعث بنا رکھا ہے۔ ہم جو لفظ اس حادثے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ہے''عزت لٹنا'' اور یہ عزت اس کی لٹتی ہے جس کا ریپ ہوتا ہے، جس کے ساتھ یہ زیادتی ہوتی ہے، اس کی نہیں جو زیادتی کرتا ہے۔
اس ناانصافی پر مبنی سماجی رویے کے باعث ریپسٹ تو معزز ہی رہتا ہے، بیچاری ریپ ہونے والی اور اس کے گھر والے اپنی عزت کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وطن عزیز کے بعض علاقوں میں بے عزتی کی وجہ سے اپنی بے قصور بیٹی کو ہی ختم کر دیتے ہیں۔ہماری معاشرتی اقدار ہمیشہ ظلم کرنے والے ہی کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ماہرین اس کا حل ملک میں موجود قانون اور عدل کے نظام میں بہتری خصوصاً پولیس میں خواتین کی شرکت کو قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں جنسی زیادتی سے متعلق تمام قوانین موجود ہیں، مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ ان کے اطلاق کا ہے۔
تحقیقات کے دوران فرانزک شواہد اور واقعاتی شواہد ٹھیک طریقے سے جمع نہ ہونے کے علاوہ گواہوں کے عدم تعاون کی وجہ سے ملزمان کو سزائیں نہیں مل پاتی ہیں۔ریپ کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ بہت اہمیت کے حامل ہیں، ان کے نمونوں کی ٹھیک طریقے سے حفاظت اور جانچ کے لیے اب بھی ملک میں ماہرین کی کمی ہے۔ جنسی زیادتی کے واقعے کے کئی کئی دن بعد مقدمے کا اندراج اور متاثرہ شخص کی اسپتال سے میڈیکو لیگل رپورٹ کے اجرا میں غیر معمولی تاخیر سے بھی کیس متاثر ہوتا ہے۔ بعض کیسز میں وکلا اور عدالت کی جانب سے بلاوجہ تاخیر بھی ملزمان کی سزاؤں سے بچ نکلنے کی وجہ بنتی ہے۔
سال 2020 میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کئی روز بلکہ مہینوں خبروں میں موجود رہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت یومیہ11خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج ہونے والی شکایات سے اخذ کی گئی ہے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015 سے اب تک مجموعی طور پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے جن میں سے چار ہزار 60 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں،اب تک 77 مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور صرف 18 فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچے ہیں۔
گزرے برس میں جنسی تشدد، گینگ ریپ اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادی کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔ ایسے واقعات کا ڈیٹا نامکمل ہے کیونکہ بہت سارے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔اسی طرح بیتے برس لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کا بیشتر وقت آن لائن گزرا جس کی وجہ سے ملک میں سائبر ہراسانی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سائبر ہراسانی کے حوالے سے قائم ہیلپ لائن پر سال 2020 میں مجموعی طور پر 3246 شکایات آئیں جن میں آن لائن کے علاوہ گھریلو تشدد کی شکایات بھی درج کرائی گئیں۔ سائبر ہراسانی کی شکایات میں 68 فیصد خواتین سے متعلق تھیں۔ لاک ڈاون میں سائبر ہراسانی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ان دنوں میں شکایت کی شرح 189 فیصد بڑھی۔
دوسری جانب گزشتہ سال میں خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے اور ان کے خلاف جرائم کی سرکوبی کے لیے متعدد قوانین بھی بنائے گئے۔وزارت قانون کے مطابق سال 2020 میں 'لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020'بھی منظور کیا گیا جو خواتین اور بچوں کو فوجداری مقدمات میں مالی اور قانونی امداد فراہم کرے گا۔ جنسی زیادتی کے ملزمان کو سخت سے سخت سزاؤں اور جلد از جلد مقدمات نمٹانے کے لیے ایک اہم قدم 'اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020' بھی نافذ کیا گیا ہے۔
اس آرڈیننس کے ذریعے عصمت دری اور جنسی زیادتی جیسے جرائم کے خلاف خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ اس مقصد کے لیے خصوصی عدالتوں اور خصوصی تفتیشی ٹیموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو جنسی زیادتی کے شکار افراد کے مقدمات کی فوری سماعت اور متاثرین کو فوری انصاف کی فراہمی کے لیے قانونی امداد فراہم کریں گی۔اس آرڈیننس کے تحت ریپ کی تعریف میں بھی توسیع کی گئی ہے اور سابق مقدمات کی روشنی میں ابہام دور کیا گیا ہے، اسی طرح جنسی زیادتی کے ملزمان کو نامرد بنایا جا سکے گا۔
خواتین اور لڑکیوں اور بچوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ اخلاقی اور انسانی حقوق کی ترجیح ہے،لیکن ان ترجیحات کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ ہمارے پولیس کا روایتی نظام تفتیش ہے جب کہ پولیس اہلکاروں کا رویہ بھی متاثرہ خاتون کے ساتھ انتہائی نامناسب اور غیر شائستہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں ان دنوں جنسی زیادتی کے مرتکب ملزمان کو سرِ عام پھانسی دینے کی بحث زوروں پر ہے۔ حکومت اور عوام کی بڑی تعداد زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دینے کی حامی نظر آتی ہے ۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ریپ کرنے والے ملزم کے بارے میں معاشرے میں پایا جانے والا ایک تاثر یہ ہے کہ وہ ذہنی امراض کا شکار ہوتا ہے اور یہ تاثر بالکل غلط ہے بلکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد میں سے بیشتر میں اپنی برتری یا خواتین سے متعلق اپنی ذہنیت یا دوسروں کی کمزوری سے فائدہ حاصل کرنے کا معاملہ دیکھا گیا ہے اس سے ملتی جلتی رائے سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے بھی پیش کی جن کا ماننا ہے کہ ریپ میں سب سے اہم عنصر طاقت ہے لیکن انھوں نے ساتھ ہی نفسیاتی مسائل کی جانب بھی اشارہ کیاہے۔ ملک کے قلم کار،صحافی، ادیب، ڈراما رائٹر، فلم بنانے والے، مسجد کے خطیب، عوام میں شعور وآگہی پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیںکہ معاشرے میں اس جرم کا خاتمہ ہوجائے۔