آئین پاکستان میں پانی کو بنیادی انسانی حق قرار دینا ہوگا

پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے قانون سازی کرنا ہوگی، شرکاء ایکسپریس فورم


 آب پاک اتھارٹی کا بنیادی مقصد ہر فرد کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہے،پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے قانون سازی کرنا ہوگی

پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دنیا بھر میں آج پانی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

اس دن کا مقصد حکومتوں اور عوام کو پانی کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کرنا اور ان کے حل کیلئے اقدامات اٹھانے پر زور دینا ہے۔ اس اہم دن کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، آبی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عظمیٰ کاردار

(رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)

پاکستان تحریک انصاف کے منشور کے مطابق پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ہر شہری کو صاف پانی کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت نے پنجاب کاپہلا واٹر ایکٹ اور آبِ پاک اتھارٹی کا بل منظور کیا ۔ ہم نے نہ صرف آبِ پاک اتھارٹی قائم کی بلکہ اس کیلئے 10 ارب کا بجٹ بھی مختص کیا جو پانی کے مسائل حل کرنے میں ہماری سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

بیوروکریسی کی وجہ سے ہمارے بعض منصوبے سست روی کا شکار ہوئے یا ان میں تاخیر ہوئی مگر وزیراعظم عمران خان اور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں سے بہت حد تک بہتری آئی ہے۔ افسوس ہے کہ پنجاب میں 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں جبکہ 85 فیصد استعمال شدہ پانی جو 'ری سائیکل 'کیا جاسکتا ہے وہ سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پانی کو محفوظ کرنے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں تھی۔

پنجاب میں واٹر پالیسی بن چکی ہے مگر اس میں پینے کا صاف پانی شامل نہیں ہے، اس پر بھی کام کرنا ہوگا۔ بیرون ممالک مقیم لوگ وہاں نل سے پانی پیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ پانی آلودہ ہے۔ میرے نزدیک فلٹریشن پلانٹس و دیگر منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے ہمیں پانی کے پائپ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہر شخص کو گھر پر ہی صاف پانی مہیا کیا جاسکے۔ گزشتہ کئی برسوں سے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جن میں سے بے شمار ناکارہ ہوچکے ہیں، ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا نظام نہیں بنایا جاسکا، وہاں فلٹر تبدیل نہیں ہوئے جس کی وجہ سے وہ پانی زیادہ خطرناک ہوگیا ہے، اس طرف ہماری حکومت توجہ دے رہی ہے لہٰذا بہتر نظام بنایا جائے گا۔

جوڈیشل واٹر کمیشن ،زیر زمین پانی کو محفوظ بنانا، ذخائر میں اضافہ کرنا، پانی کو ری سائیکل کرنا و دیگر اہم اقدام واٹر پالیسی کا حصہ ہیں جن پر کام ہو رہا ہے ۔ میرے نزدیک حکومت اکیلے تمام مسائل حل نہیں کرسکتی، اس کے لیے ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی طرف جانا ہوگا، اس سے مسائل کے حل میں تیزی آئے گی۔ وزیراعظم نے چک جھمرہ میں واٹر فلٹریشن پراجیکٹ کا افتتاح کیا، اس منصوبے سے چک جھمرہ کے 16 دیہاتوں میں مقیم 57 ہزار افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے پانی کو بنیادی انسانی حق قرار دیا لہٰذا اب ضروری ہے کہ قومی اسمبلی میں ترمیم لاکر اسے آئین پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پانی کے ساتھ سینی ٹیشن کا مسئلہ بھی حل طلب ہے، اس حوالے سے بھی جلد قانون سازی کی جائے گی۔

ڈاکٹر شکیل خان

(چیئرمین پنجاب آبِ پاک اتھارٹی)

پانی کے حوالے سے مسائل بے شمار ہیں جن میں پانی کی کمی، پانی کے ذخائر کا نہ ہونا، آلودگی، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں و دیگر شامل ہیں۔ان میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی کوالٹی کا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی بھی شخص نل کا پانی پینے کو تیار نہیں ہے۔ اگر کسی کے گھر میں صاف پانی بھی آرہا ہو تو وہ اعتماد کی کمی کی وجہ سے نل کا پانی نہیں پیتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پانی کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے ہر شخص کے پاس سہولت نہیں ہے۔

پنجاب میں آب پاک اتھارٹی کے پیچھے بنیادی سوچ یہ ہے کہ صاف پانی چونکہ ہر فرد کا بنیادی حق ہے لہٰذا اسے پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ واٹر کوالٹی یقینی بنانے کیلئے ہم صوبے بھر کے تمام فلٹریشن پلانٹس کا ٹیکنیکل آڈٹ کرنے جارہے ہیں۔ ہر پلانٹ کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی، جو خراب ہیں انہیں ٹھیک کیا جائے گا اور پھر پانی کا معیار چیک کرکے وہاں آویزاں کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی جو اس کی مرمت و دیگر امور کا خیال رکھے گی۔

رواں برس 1500 نئے فلٹریشن پلانٹس لگائے جائیں گے۔ ہم نے علاقے طے کرنے کیلئے یہ دیکھا کہ اس علاقے میں پلانٹ کی کتنی ضرورت ہے؟ کیا واقعی ضرورت ہے یا صرف پلانٹ لگانا فیشن بن چکا ہے؟ وہاں پانی کا معیار کیسا ہے؟ اس حوالے سے مختلف ٹیسٹ بھی کیے گئے لہٰذا مکمل تحقیق کے بعد مقامات کا تعین ہوچکا ہے جلد کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔

واٹر فلٹریشن پلانٹس کی ورکنگ کو یقینی بنانے کیلئے ہمارے ساتھ مختلف شہروں کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے رابطہ کیا ہے۔ ملتان چیمبر نے آفر کی کہ واٹر فلٹریشن پلانٹس ٹھیک کر دیں، باقی تمام ذمہ داریاں وہ اپنے ذمے لے لیں گے ۔ ہم نے 11 پلانٹس ٹھیک کردیے ہیں جو اپریل کے آغاز میں ان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ اس پائلٹ پراجیکٹ کے بعد یہ منصوبہ پورے صوبے میں پھیلایا جائے گا۔

ان پلانٹس کے پانی کی کوالٹی عالمی معیار کی ہوگی جس کے بعد امیر، غریب سب ہی ان پلانٹس سے پانی لے کر اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں گے۔دنیا میں زیر زمین پانی کا استعمال 25 فیصد جبکہ سطحی پانی کا استعمال 75 فیصد ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے 90 فیصد انحصار زیر زمین پانی پر ہے جو مسائل کی بڑی وجہ ہے۔ ہم زمین سے ضرورت سے زیادہ پانی نکال رہے ہیں ج سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گرتی جارہی ہے۔

موجودہ حکومت نے اس پر توجہ دی ہے اور سرفیس واٹر کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے کام کیا جارہا ہے۔ اس کیلئے لاہور کی بی آر بی نہر کے پانی کا ٹریٹمنٹ کرکے قریبی علاقے کو فراہم کیا جائے گا۔ اس کے لیے ایشیئن انفراسٹرکچر بینک نے رقم دینے کا وعدہ کیا ہے، زمین کے حصول و دیگر مسائل کے حل کے بعد اس پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔

اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی سرفیس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیں گے تاکہ زیر زمین پانی پر انحصار کم کیا جاسکے ۔باغ جناح لاہور کے نزدیک بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے جو ذخائر بننے تھے ان میں سے ایک مکمل ہوچکا ہے، اب اس علاقے میں بارش کا پانی کھڑا نہیں ہوتا بلکہ چند منٹوں میں ہی زیر زمین ٹینکوں میں چلا جاتا ہے۔ باغ جناح اور اس کے اردگرد موجود پودوں کو یہی پانی دیا جارہا ہے جس سے پانی کی بچت ہورہی ہے۔

حکومت کا منصوبہ ہے کہ مزید پانی کو محفوظ کرنے کیلئے لاہور کے 8 مختلف علاقوں میں اسی طرز کے سٹوریج ٹینک بنائے جائیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی بنائی گئی بعض واٹر سپلائی سکیمیں کسی وجہ سے خراب ہوچکی ہیں جس سے بے شمار لوگوں کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے بعض میں کوئی بڑی خرابی بھی نہیں ہے لہٰذا اگر ان واٹر سپلائی سکیموں پر توجہ دی جائے اور نقائص دور کرکے قابل استعمال بنایا جائے تو لاکھوں افراد کے پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

ہماری اتھارٹی اس پر کام کر رہی ہے لہٰذا تیزی کے ساتھ اقدامات اٹھا کر جلد ان سپلائی سکیموں کو بحال کیا جائے گا۔ گزشتہ حکومت نے 180 کے قریب علاقوں میں پانی کیلئے سوراخ (بور) کیے ۔ اس کے بعد حکومت تبدیل ہوئی، صاف پانی سکینڈل آیا اور یہ منصوبہ رک گیا۔ چونکہ اس پر عوام کے30 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوچکے ہیں لہٰذا اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے گا اور لوگوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ میرے نزدیک پانی کی فراہمی کیلئے یہ تیز ترین طریقہ ہے، اس سے شیخوپورہ، فیصل آباد وپنجاب کے دیگر علاقوں کو بہت فائدہ ہوگا۔

میری خواہش ہے کہ لوگوں کے پانی کے مسائل جلد از جلد حل ہوجائیں۔ اس حوالے سے گورنر پنجاب خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے مجھے ہدایت کی کہ ایسا بہترین کام کریں جس سے جلد از جلد ہر گھر میں لوگوں کو صاف پانی ملے۔ ہم نے تحقیق اور منصوبہ بندی مکمل کر لی ہے، اب عملدرآمد کا وقت آچکا ہے لہٰذا شفافیت کے ساتھ پانی کے مسائل تیزی سے حل کیے جائیں گے۔

مبارک علی سرور

(واٹر ایکسپرٹ)

22مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کی مناسبت سے دنیا بھر کی حکومتیں، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیںمختلف پروگرامز منعقد کرواتی ہیں جن کا مقصد پانی کے مسائل کو اجاگر کرنا ، ان کا حل تلاش کرنا اور لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔ پاکستان میں یہ دن خصوصی طور پر منایا جاتا ہے تاکہ پانی کے مسائل پر بات کی جائے، وفاقی و صوبائی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور سول سوسائٹی کے اداروں کی آراء کو بھی دیکھا جائے۔

پائیدار ترقی کے اہداف اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ پانی کی فراہمی کو ہر شخص کیلئے 30منٹ راؤنڈ ٹرپ میں یقینی بنایا جائے ، اگر کسی کو پانی کے حصول کیلئے اس سے زیادہ وقت لگتا ہے اور دور جانا پڑتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے پانی تک رسائی نہیں ہے۔ پاکستان میں 2017-18ء کے مِکس کی بات کریں تو 96 فیصد لوگوں کو پانی تک رسائی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سب کو 30منٹ راؤنڈ ٹرپ میں پانی مل رہا ہے، اس کی کولٹی بہتر ہے یا دیگر مسائل نہیں ہیں۔

پنجاب میں پانی کے حوالے سے اعداد و شمار اچھے نہیں ہیں۔حکومتی سطح پر اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ رورل واٹر سپلائی سکیموں کے ذریعے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بناتا ہے جبکہ شہری علاقوں میں محکمہ واسا لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے کام کر رہا ہے مگر اس کے باوجود مسائل موجود ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے پاس بنیادی معلومات کا فقدان ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ جو پانی وہ پی رہے ہیں اس میں مائیکروبائلوجیکل یا کیمیکل آلودگی موجود ہے۔

پنجاب کے ہر ضلع میں پانی کا معیار چیک کرنے کے لیے سرکاری لیبارٹریاں موجود ہیں مگر ٹیسٹ کا مکمل ساز و سامان نہیں ہے جبکہ دوسری طرف لوگوں کو بھی یہ آگاہی نہیں ہے کہ وہ ان لیبارٹریوں سے پانی کا مفت ٹیسٹ کروا سکتے ہیں۔ بچوں کی نشو نما کا براہ راست تعلق پانی سے ہے اور ان کی سٹنٹنگ گروتھ و دیگر بیماریوں کی ایک بڑی وجہ صاف پانی کا دستیاب نہ ہونا ہے۔

ان بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی پانی سے پیدا ہونی والی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ حکومتی سطح پر ہمیشہ علاج کی طرف توجہ دی جاتی ہے جبکہ بچاؤ پر کام نہیں کیا جاتا، میرے نزدیک پریوینشن پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، اس سے ہسپتالوں اور معیشت پر بوجھ کم ہوگا۔ ہم مختلف کمیونٹیز کے ساتھ واٹر سیفٹی پلاننگ کر رہے ہیں اور اس ماہ کے آخر تک ہم تحصیل جتوئی کی واٹر سیفٹی پلاننگ مکمل کر لیں گے۔

واٹر سیفٹی پلاننگ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ پانی کے موجودہ وسائل اور ذرائع کو کس طرح محفوظ بنانا ہے، کوالٹی کو کیسے چیک کرنا اور بہتر بنانا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی آفت کی صورت میں پانی کو کیسے ذخیرہ کرنا ہے۔ واٹر سیفٹی انتہائی ضروری ہے، حکومت کو واٹر سیفٹی پلاننگ کرنی چاہیے تاکہ پانی کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ پنجاب آب ِپاک اتھارٹی ہمارے ادارے سمیت مختلف سماجی اداروں کے ساتھ مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کر چکی ہے جس کے بعد ہم نے نئے فلٹریشن پلانٹ لگائے ہیں جبکہ برانے پلانٹس کی بحالی کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ میرے نزدیک حکومت اکیلئے مسائل حل نہیں کرسکتی، اس کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر کام کرنا ہوگا۔ افسوس ہے کہ بڑی مقدار میں پانی ضائع ہورہا ہے۔

لوگ نل کھلا چھوڑ دیتے ہیں جبکہ کسانوں کی سطح پربھی پانی کا ضیاع ہوتا ہے لہٰذا ہمیں تعلیمی اداروں، کمیونٹی اور خصوصاََ کسانوں کو آگاہی دینا ہوگی۔بدقسمتی سے پانی کے ضیاع کو روکنے کے حوالے سے ہمارے ہاں کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ کا بھی کوئی نظام نہیں ہے جس سے استعمال شدہ پانی بڑی مقدار میں ضائع ہوجاتا ہے۔

اس حوالے سے ہم واسا لاہور کے ساتھ مل کر ایک بڑا قدم اٹھانے جارہے ہیں جس کے بعد لاہور کے تمام سروس سٹیشن 'ری سائیکلڈ' پانی استعمال کریں گے۔ مذہبی عبادت گاہوں سے اب سماجی موضوعات پر بھی پیغامات دیے جارہے ہیں جو انتہائی مثبت ہے، ہمیں وسیع پیمانے پر آگاہی دینا ہوگی۔ دیہی و شہری علاقوں میں حکومتی و نجی سطح پر اچھے اقدامات کیلئے جارہے ہیں تاہم صاف پانی کی فراہمی ابھی بھی ایک بڑا چیلنج ہے، اس حوالے سے قانون سازی سمیت بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

شاہنواز خان

(نمائندہ سول سوسائٹی)

ملکی تاریخ میں موجودہ اسمبلی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میںو اٹر اور سینی ٹیشن کے حوالے سے اہم قانون سازی ہوئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تقریباََ بیس اراکین اسمبلی پر مشتمل WASH گروپ بنایا گیا ہے جو اس حوالے سے موثر کام کر رہا ہے۔ گورنر پنجاب کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں سے پنجاب واٹر ایکٹ 2019ء منظور ہوا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی سے آب پاک اتھارٹی کا بل منظور ہوا اور پھر اس پر عملی طور پر کام کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ ایک اور اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ حالیہ کابینہ نے پنجاب کی پہلی واٹر پالیسی منظور کی جو خوش آئند ہے تاہم ابھی تک ڈرکنگ واٹر پالیسی نہیں بنائی جاسکی جس کی اشد ضرورت ہے۔

یہ پالیسی پائپ لائن میں ہے لہٰذا اسے جلد از جلد کابینہ سے منظور کرایا جائے ۔ ہمارے ہاں سینی ٹیشن کی بھی کوئی باضابطہ پالیسی نہیں ہے، اس پر بھی کام کرنا ہوگا۔ پنجاب واٹر ایکٹ کا منظور ہونا خوش آئند ہے تاہم اس کے رولز آف بزنس اور عملدرآمد کے میکنزم کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ڈھائی برسوں میں ہم نے پنجاب اسمبلی سے دو قرارادیں منظور کرائیں۔ پہلی قرارداد پانی کو بنیادی انسانی حق قرار دینے جبکہ دوسری قرارداد 'اوپن ڈیفی کیشن' کے حوالے سے ہے کہ پنجاب کو آئندہ پانچ برسوں میں اوپن ڈیفی کیشن فری صوبہ بنایا جائے گا۔جنوبی پنجاب میں پانی کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ وہاں کے پانی میں سنکھیا کی مقدار زیاد ہ ہے، وہاں عام فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے جن میں سے 90 فیصد پلانٹس غیر فعال ہوچکے ہیں، ان کی مرمت اور بحالی پر کام کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ وہاں ایسے پلانٹس لگائے جائیں جو پانی کو سنکھیا و دیگر آلودہ مادوں سے پاک کریں۔

لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی و نکاسی آب جیسے کام کی ذمہ دار مقامی حکومت کی ہوتی ہے مگر افسوس یہاں مقامی حکومتیں ہی موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے لہٰذا فوری طور پر مقامی حکومتوں کا نظام بنایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔ میرے نزدیک اگر سب مل کر کام کریں گے تو پانی کے اگلے عالمی دن تک بے شمار مسائل کا خاتمہ ہوچکا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |