کالموں کا لنڈا بازار
اخبار میں شایع ہونے والی خبریں ہر قسم کے تعصب اور تبصرے سے پاک ہونی چاہیں۔
کمرشلائز ہونے سے پہلے صحافت کو ''آسمانوںسے اترے '' ہوئے کسی معتبر پیشہ کا اسٹیٹس حاصل تھا۔ جوں جوں اس میں ذاتی ترقیاتی پراجیکٹس جیسے سنہری مواقع بڑھتے گئے، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کی جگہ بل گیٹس اور گولڈ اسمتھ وغیرہ نے لے لی ہے۔ کبھی صحافی کا پرائڈ ایمانداری اور پیشہ وارانہ مہارت ہوا کرتی تھی۔ مگر ایک عرصہ سے صحافی کا پیکیج (تنخواہ بمع دیگر سہولیات) اور ہائی ایسٹ پیڈ ہونا اس کا تفاخرانہ اعزاز سمجھا جا رہا ہے۔ اخبار کی بنیاد خبر ہوتی ہے اور بہت سی خبریں اس کی تعمیرکو ایک روح، جان، جسم اور شکل عطا کرتی ہیں۔
اخبار میں شایع ہونے والی خبریں ہر قسم کے تعصب اور تبصرے سے پاک ہونی چاہیں۔ اداریہ اخبار کی صحافتی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور کالم اس کے چہرے مہرے کو تبصرے اور تجزئیے کے زیورسے جھومر بن کر سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جس انداز سے پرنٹ اور بعد ازاں الیکٹرانک میڈیا نے ''باکس آفس'' پر ترقی کی ہے اس کا موازانہ عوام کے حالات سے کرایا جائے تو غریب کی زندگی ایک ڈیڈ فلاپ فلم دکھائی دیتی ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا کا تعارف خلیجی جنگ سے ہوا اور پھر بعد ازاں دہشت گردی کی جنگ، آزاد عدلیہ کی تحریک، آمریت کے خاتمہ، لولی لنگڑی جمہوریت کی آمد اور سیاسی عدم استحکام اور ڈوبتی معیشت نے اسے ''جلابخشی''۔ صحافت اور میڈیا کی خوشحالی کی کہانی شاید غالب کے بتائے ہوئے اس غالبانہ اصول پر استوار ہوتی ہے کہ...مری تعمیر میںمضمر ہے اک صورت خرابی کی...
کیا صحافتی معاشی ترقی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے؟ اس پر بات پھر ہو گی فی الحال 'میڈیا اسٹاک ایکسچینج' کے اس شعبے کی خبر لیتے ہیں جس میں تیزی کا رجحان دیکھنے میںآ رہا ہے... جی ہاں! کالم نگاری کی گراونڈ اس وقت منفعت بخش سمجھی جا رہی ہے اور اس میں ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ جاری ہے۔ کالم اورکالم نگار کا تعلق براہ راست عوام اور حکمرانوں سے ہوتاہے، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تینوں میںایک ''لو اینڈ ہیٹ ٹرائی اینگل'' (محبت اور نفرت کی مثلث) استوار رہتی ہے، مگر حبیب جالبؔ نے اس رومانوی اور سوناموی رومان کے غبارے سے ساری ہوا یوں نکال دی تھی کہ... یا وعدہ تھا حاکم کا... یا اخباری کالم تھا... یعنی حاکموں کا وعدہ اورکالموںکاسچ، ایک جیسا ہوتا ہے۔
اخبار مارکیٹ اس وقت بالی وڈ اورہالی وڈ دکھائی دے رہی ہے اور کالم نگار اس کے اسٹار، سپراسٹار اور میگا اسٹارکا روپ دھار چکے ہیں۔ سب سے پہلے سدا بہار کالموں کا ذکر ہو جائے جو ایک عرصہ سے کمرشل میڈیا میں اپنی باکس آفس پوزیشن مستحکم رکھے ہوئے ہیں۔ بیان کیے جانے والے کچھ کالم تو آپ کو فرضی لگیںگے اوربعض اسم بامسمیٰ کی صورت اختیار کرتے دکھائی دیںگے۔ ان میںکچھ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میںسوچا جاتا ہے کہ اگر لمبے عرصہ کے لیے سیکرٹ فنڈز پر پابندی لگ گئی تو ان کی ''حق گوئی'' متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ کالم کیش، چیک اور اے ٹی ایم جیسی جدید سہولیات سے جوڑ دئیے گئے ہیں۔ ان کی چیدہ، چیدہ اقسام کچھ یوں ہیں: ادھار محبت کی قینچی کالم، تناول ماحضر کالم، نکاح مسنونہ کالم، دعوت ولیمہ کالم، روانگی بارات کالم، چشم براہ کالم، خلع کالم، حلالہ کالم، طلاق اور حق مہر کالم، عدت کالم، بیوہ کالم، رنڈوا کالم اور بانجھ کالم وغیرہ وغیرہ۔ ڈیلیکس اورایگزیکٹو کالموں کی اقسام زیادہ نہیں ہیں مگر کچھ خاص اس طرح سے ہیں۔ نشاۃِ ثانیہ کالم میںبیان کیا جاتا ہے کہ اگر عوام اس بار کسی جنرل کے بجائے کپتان کو اپنے اوپر تعینات کر لیں تو ہم اپنی کھوئی ہوئی مردانہ اور مجاہدانہ عظمت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
متذکرہ کالم ''چیف آف کالم سٹاف'' خود تحریر فرماتے ہیں۔ عسکری آہنگ کے کالموں کی دیگر معروف اقسام میںفل بوٹ کالم، باوردی کالم، فوجی کالم، سول کالم، جنگی کالم، جس کا کالم اسکی بھینس کالم، ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی کالم، میریا ڈھول سپاھیا تنیوںرب دیاں رکھاںکالم اور اے کالم ہٹا ں تے نئیں وکدے شامل ہیں۔ درج بالا تمام کالم متعلقہ محکمہ سے منظور شدہ ہوتے ہیں۔ ہائی ایسٹ پیڈ کالم بیرون ملک سے بھی لکھے جاتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے لاس ویگس اورکیسنوز سے لکھے گئے کالم بہت پسند ہیںاس کی وجہ یہ ہے کہ میںبھی ان ''خوش نصیبوں'' میں شامل ہوں جنہوں نے ''گناہوںکے شہر'' کا نظارہ حال ہی میںکیا ہے۔ کیسنو کالموں میں اس شہر کا نقشہ اس قدر حقیقی انداز سے کھینچا گیا تھا کہ حقیقت کا گمان ہونے لگا اور بندۂ صحافی لاہور میں ہی بیٹھا بیٹھا اپنی بساط سے زیادہ ہار گیا۔
دیگر مہنگے کالموں میںہوائی فائرنگ کالم، کراس فائر کالم، ناراض کالم، اینگری بزرگ کالم، گالم گلوچ کالم، مغل اعظم یا شاہی کالم، پٹیالہ کالم، دو آتشہ کالم، کاک ٹیل کالم، ٹُن کالم، اسکاچ کالم، دیسی کالم، ہم خیالہ ہم پیالہ کالم، ہینگ اوور کالم اور پہلے توڑ کا کالم بھی شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جماعت اسلامی ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کی نظریاتی گود میںکئی قلمکار سن بلوغت سے عاقل بالغ ہوئے۔
بعد ازاں سبھی جماعتوں نے اس رجحان کو اپنایا اور پھر کالم نگاروں کی تقسیم در تقسیم کچھ اس طرح سے ہوتی گئی کہ جیالا کالم، جاتی عمرہ کالم، نائن زیرو کالم، ڈیزل کالم، سی این جی کالم، سندھی بریانی کالم، بھتہ کالم، بھائی بھائی کالم، فرینڈلی کالم، منی لانڈرنگ کالم، اتفاقیہ کالم، من بھاتا کھاجا کالم، خواجے کا گواہ کالم، مولا خوش رکھے کالم، بھاگ لگے رہن کالم، اللہ بسم اللہ میری جگنی کالم۔ جگنی برانڈ کالموں میںکالم نگار باقاعدہ ''کالم لوہار'' بن کر اپنے سیاسی محبوب کی جگنیاں گاتا پھرتا ہے۔ اس وقت بھارتی وزیر خارجہ پیار اورامن کا پیغام لے کر پاکستان آئے ہوئے۔
ماحول کے مطابق کچھ کالم نگار امن کی آشا بھوسلے جیسے سریلے کالم بھی لکھ رہے ہیں۔ کالم آیا تم نہیں آئے، تیرے مست مست نین کالم، راوڈی راٹھور کالم، گھنگرو کی طرح بجتا رہا کالم، میرا کالم کورا کاغذ، دل میرامفت کا کالم، منی بدنام ہوئی کالم، جلیبی بائی کالم، شیلا کی جوانی کالم، انارکلی ڈسکو چلی کالم، مجھے آواز نہ دو کالم، مجھ سے پہلی سی محبت کالم، مجھے نوٹ دکھا کالم، مندری دا تھیوا کالم، میری توبہ توبہ کالم، جہاں کالم گرتے ہیں، کہندی اے سیاں میں تیری آں کالم، سالی تو مانی نہیںکالم، ساڈا حق ایتھے رکھ کالم، میں تینوں سمجھاواں کی کالم اور خاص طور پر بتیاںبجھائی رکھدی قسم کے کالم پاک بھارت تعلقا ت میںٹریک۔ ٹو ڈپلومیسی کے سفر کو تیز کرنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ مگر امن کے پلے بیک سونگ کے کورس میں شامل یہ نہیںجانتے ایک ''جنگی لوک فنکار'' اجمل قصاب امن کی آشا کالموںکو نراشا کالموں میںبدل کر رکھ دینے کی قوت رکھتاہے۔
درجہ دوم اقسام کے کالموںکی چند ایک معروف مثالیںکچھ یوںہیں: کم خرچ بالانشیں کالم، سب کا خادم کالم، چوک یتیم خانہ کالم، رنچھوڑ لائن کالم، مسکین کالم، جگنی جاوڑی ملتان کالم، پیشی کالم، سووموٹو کالم، کچی آبادی کالم، سیم و تھور کالم، سمہ سٹہ کالم، شبیر تو دیکھے گا کالم، نذر اللہ نیاز حسین کالم، توں لنگ جا ساڈی خیر اے کالم، ماں کی دعا جنت کی ہوا کالم شامل ہیں۔ پنجاب اور خصوصاً لاہور میں میٹرو کالم کا رواج جلد فروغ پانے والا ہے جو گجومتہ سے شاہدرہ تک کے سفر میںشوق سے پڑھا جایا کرے گا۔ ذہین و فطین کالموں میں سرکاری کالم، درباری کالم، جوگی کالم، کالم آن لائن، چوہدری کالم، بنکاک کے کالمیسٹ، ہمیںکھوکر بہت پچھتاو گے کالم، ون ون ٹوٹوکالم، ون فائیو کالم، میں تو کالمیسٹ ہوں سمندر میں اتر جاوں گا کالم، گوگل اورانٹرنیٹ کالم، جھنکار کالم اور جھانجر دی پانواں جھنکار کالم معروف ہیں۔
(جاری ہے)
اخبار میں شایع ہونے والی خبریں ہر قسم کے تعصب اور تبصرے سے پاک ہونی چاہیں۔ اداریہ اخبار کی صحافتی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور کالم اس کے چہرے مہرے کو تبصرے اور تجزئیے کے زیورسے جھومر بن کر سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جس انداز سے پرنٹ اور بعد ازاں الیکٹرانک میڈیا نے ''باکس آفس'' پر ترقی کی ہے اس کا موازانہ عوام کے حالات سے کرایا جائے تو غریب کی زندگی ایک ڈیڈ فلاپ فلم دکھائی دیتی ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا کا تعارف خلیجی جنگ سے ہوا اور پھر بعد ازاں دہشت گردی کی جنگ، آزاد عدلیہ کی تحریک، آمریت کے خاتمہ، لولی لنگڑی جمہوریت کی آمد اور سیاسی عدم استحکام اور ڈوبتی معیشت نے اسے ''جلابخشی''۔ صحافت اور میڈیا کی خوشحالی کی کہانی شاید غالب کے بتائے ہوئے اس غالبانہ اصول پر استوار ہوتی ہے کہ...مری تعمیر میںمضمر ہے اک صورت خرابی کی...
کیا صحافتی معاشی ترقی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے؟ اس پر بات پھر ہو گی فی الحال 'میڈیا اسٹاک ایکسچینج' کے اس شعبے کی خبر لیتے ہیں جس میں تیزی کا رجحان دیکھنے میںآ رہا ہے... جی ہاں! کالم نگاری کی گراونڈ اس وقت منفعت بخش سمجھی جا رہی ہے اور اس میں ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ جاری ہے۔ کالم اورکالم نگار کا تعلق براہ راست عوام اور حکمرانوں سے ہوتاہے، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تینوں میںایک ''لو اینڈ ہیٹ ٹرائی اینگل'' (محبت اور نفرت کی مثلث) استوار رہتی ہے، مگر حبیب جالبؔ نے اس رومانوی اور سوناموی رومان کے غبارے سے ساری ہوا یوں نکال دی تھی کہ... یا وعدہ تھا حاکم کا... یا اخباری کالم تھا... یعنی حاکموں کا وعدہ اورکالموںکاسچ، ایک جیسا ہوتا ہے۔
اخبار مارکیٹ اس وقت بالی وڈ اورہالی وڈ دکھائی دے رہی ہے اور کالم نگار اس کے اسٹار، سپراسٹار اور میگا اسٹارکا روپ دھار چکے ہیں۔ سب سے پہلے سدا بہار کالموں کا ذکر ہو جائے جو ایک عرصہ سے کمرشل میڈیا میں اپنی باکس آفس پوزیشن مستحکم رکھے ہوئے ہیں۔ بیان کیے جانے والے کچھ کالم تو آپ کو فرضی لگیںگے اوربعض اسم بامسمیٰ کی صورت اختیار کرتے دکھائی دیںگے۔ ان میںکچھ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میںسوچا جاتا ہے کہ اگر لمبے عرصہ کے لیے سیکرٹ فنڈز پر پابندی لگ گئی تو ان کی ''حق گوئی'' متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ کالم کیش، چیک اور اے ٹی ایم جیسی جدید سہولیات سے جوڑ دئیے گئے ہیں۔ ان کی چیدہ، چیدہ اقسام کچھ یوں ہیں: ادھار محبت کی قینچی کالم، تناول ماحضر کالم، نکاح مسنونہ کالم، دعوت ولیمہ کالم، روانگی بارات کالم، چشم براہ کالم، خلع کالم، حلالہ کالم، طلاق اور حق مہر کالم، عدت کالم، بیوہ کالم، رنڈوا کالم اور بانجھ کالم وغیرہ وغیرہ۔ ڈیلیکس اورایگزیکٹو کالموں کی اقسام زیادہ نہیں ہیں مگر کچھ خاص اس طرح سے ہیں۔ نشاۃِ ثانیہ کالم میںبیان کیا جاتا ہے کہ اگر عوام اس بار کسی جنرل کے بجائے کپتان کو اپنے اوپر تعینات کر لیں تو ہم اپنی کھوئی ہوئی مردانہ اور مجاہدانہ عظمت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
متذکرہ کالم ''چیف آف کالم سٹاف'' خود تحریر فرماتے ہیں۔ عسکری آہنگ کے کالموں کی دیگر معروف اقسام میںفل بوٹ کالم، باوردی کالم، فوجی کالم، سول کالم، جنگی کالم، جس کا کالم اسکی بھینس کالم، ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی کالم، میریا ڈھول سپاھیا تنیوںرب دیاں رکھاںکالم اور اے کالم ہٹا ں تے نئیں وکدے شامل ہیں۔ درج بالا تمام کالم متعلقہ محکمہ سے منظور شدہ ہوتے ہیں۔ ہائی ایسٹ پیڈ کالم بیرون ملک سے بھی لکھے جاتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے لاس ویگس اورکیسنوز سے لکھے گئے کالم بہت پسند ہیںاس کی وجہ یہ ہے کہ میںبھی ان ''خوش نصیبوں'' میں شامل ہوں جنہوں نے ''گناہوںکے شہر'' کا نظارہ حال ہی میںکیا ہے۔ کیسنو کالموں میں اس شہر کا نقشہ اس قدر حقیقی انداز سے کھینچا گیا تھا کہ حقیقت کا گمان ہونے لگا اور بندۂ صحافی لاہور میں ہی بیٹھا بیٹھا اپنی بساط سے زیادہ ہار گیا۔
دیگر مہنگے کالموں میںہوائی فائرنگ کالم، کراس فائر کالم، ناراض کالم، اینگری بزرگ کالم، گالم گلوچ کالم، مغل اعظم یا شاہی کالم، پٹیالہ کالم، دو آتشہ کالم، کاک ٹیل کالم، ٹُن کالم، اسکاچ کالم، دیسی کالم، ہم خیالہ ہم پیالہ کالم، ہینگ اوور کالم اور پہلے توڑ کا کالم بھی شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جماعت اسلامی ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کی نظریاتی گود میںکئی قلمکار سن بلوغت سے عاقل بالغ ہوئے۔
بعد ازاں سبھی جماعتوں نے اس رجحان کو اپنایا اور پھر کالم نگاروں کی تقسیم در تقسیم کچھ اس طرح سے ہوتی گئی کہ جیالا کالم، جاتی عمرہ کالم، نائن زیرو کالم، ڈیزل کالم، سی این جی کالم، سندھی بریانی کالم، بھتہ کالم، بھائی بھائی کالم، فرینڈلی کالم، منی لانڈرنگ کالم، اتفاقیہ کالم، من بھاتا کھاجا کالم، خواجے کا گواہ کالم، مولا خوش رکھے کالم، بھاگ لگے رہن کالم، اللہ بسم اللہ میری جگنی کالم۔ جگنی برانڈ کالموں میںکالم نگار باقاعدہ ''کالم لوہار'' بن کر اپنے سیاسی محبوب کی جگنیاں گاتا پھرتا ہے۔ اس وقت بھارتی وزیر خارجہ پیار اورامن کا پیغام لے کر پاکستان آئے ہوئے۔
ماحول کے مطابق کچھ کالم نگار امن کی آشا بھوسلے جیسے سریلے کالم بھی لکھ رہے ہیں۔ کالم آیا تم نہیں آئے، تیرے مست مست نین کالم، راوڈی راٹھور کالم، گھنگرو کی طرح بجتا رہا کالم، میرا کالم کورا کاغذ، دل میرامفت کا کالم، منی بدنام ہوئی کالم، جلیبی بائی کالم، شیلا کی جوانی کالم، انارکلی ڈسکو چلی کالم، مجھے آواز نہ دو کالم، مجھ سے پہلی سی محبت کالم، مجھے نوٹ دکھا کالم، مندری دا تھیوا کالم، میری توبہ توبہ کالم، جہاں کالم گرتے ہیں، کہندی اے سیاں میں تیری آں کالم، سالی تو مانی نہیںکالم، ساڈا حق ایتھے رکھ کالم، میں تینوں سمجھاواں کی کالم اور خاص طور پر بتیاںبجھائی رکھدی قسم کے کالم پاک بھارت تعلقا ت میںٹریک۔ ٹو ڈپلومیسی کے سفر کو تیز کرنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ مگر امن کے پلے بیک سونگ کے کورس میں شامل یہ نہیںجانتے ایک ''جنگی لوک فنکار'' اجمل قصاب امن کی آشا کالموںکو نراشا کالموں میںبدل کر رکھ دینے کی قوت رکھتاہے۔
درجہ دوم اقسام کے کالموںکی چند ایک معروف مثالیںکچھ یوںہیں: کم خرچ بالانشیں کالم، سب کا خادم کالم، چوک یتیم خانہ کالم، رنچھوڑ لائن کالم، مسکین کالم، جگنی جاوڑی ملتان کالم، پیشی کالم، سووموٹو کالم، کچی آبادی کالم، سیم و تھور کالم، سمہ سٹہ کالم، شبیر تو دیکھے گا کالم، نذر اللہ نیاز حسین کالم، توں لنگ جا ساڈی خیر اے کالم، ماں کی دعا جنت کی ہوا کالم شامل ہیں۔ پنجاب اور خصوصاً لاہور میں میٹرو کالم کا رواج جلد فروغ پانے والا ہے جو گجومتہ سے شاہدرہ تک کے سفر میںشوق سے پڑھا جایا کرے گا۔ ذہین و فطین کالموں میں سرکاری کالم، درباری کالم، جوگی کالم، کالم آن لائن، چوہدری کالم، بنکاک کے کالمیسٹ، ہمیںکھوکر بہت پچھتاو گے کالم، ون ون ٹوٹوکالم، ون فائیو کالم، میں تو کالمیسٹ ہوں سمندر میں اتر جاوں گا کالم، گوگل اورانٹرنیٹ کالم، جھنکار کالم اور جھانجر دی پانواں جھنکار کالم معروف ہیں۔
(جاری ہے)