اقتدار دے دو

پی ڈی ایم اس فیصلے کے خلاف کورٹ جا رہی ہے جو اس کا حق ہے۔


Zaheer Akhter Bedari March 23, 2021
[email protected]

سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں ایک امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہوگئے جس کی وجہ سے انھیں ناکام قرار دے دیا گیا۔

پی ڈی ایم اس فیصلے کے خلاف کورٹ جا رہی ہے جو اس کا حق ہے لیکن اس حوالے سے ہماری ایک گزارش ہے کہ جب پی ڈی ایم ایک چھوٹے سے مسئلے کو لے کر عدالت جا رہی ہے تو پاکستان کے22 کروڑ عوام کے اربوں روپے کی لوٹ مار کو بھی اپنی شکایت کے ساتھ جوڑ کر عدالت عالیہ لے جائے تاکہ ان لٹیروں کے خلاف بھی کارروائی ہوسکے جو تیرہ سال سے پینڈنگ میں پڑی ہوئی ہے۔

پی ڈی ایم کا یہ حق ہے کہ وہ عدالت جائے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ عوام کے ان اربوں روپوں کے خلاف بھی انکوائری ہو جائے جسے ہم ڈکیتی کہہ سکتے ہیں۔ یہ عوام کی محنت کی کمائی تھی جو سیاسی لوگ دن دہاڑے لوٹتے رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متعلقہ اداروں نے اس ڈکیتی کا نوٹس کیوں نہیں لیا جو ازخود نوٹس کے زمرے میں آتی ہے۔ پی ڈی ایم کے رکن یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کے خلاف نوٹس لینا عدلیہ کی ذمے داری ہے اور عدالت یقیناً اپنی ذمے داری پوری کرے گی، یوسف رضا گیلانی کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ گیلانی صاحب بڑے شریف انسان ہیں ۔

چونکہ ماضی میں ہونے والی اربوں روپے کی اس کرپشن کو میڈیا میں زبردست کوریج اور عوام میں زبردست پذیرائی ملی ہے لہٰذا یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عدلیہ کو بھی اس کا علم ہوگا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہماری عدلیہ اس بہت بڑے کیس میں ازخود نوٹس لے؟ جن سیاستدانوں کا نام ان کارناموں کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے لہٰذا اس بات کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بھی اس بدنامی سے بچ جائیں یا نکل جائیں۔

پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر طریقہ آزما کر دیکھ لیا لیکن وہ حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ اب لانگ مارچ کا ایک آپشن رہ گیا ہے، جسے آزمانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس آپشن میں کامیابی اس لیے نہیں ہوئی کہ اس مسئلے پر اندرونی اختلاف موجود ہے۔ پی ڈی ایم کی دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی استعفوں کی سخت مخالف ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ممکنہ آپشن کا نتیجہ سیٹوں میں مزید کمی کی شکل میں سامنے آسکتا ہے اور پیپلز پارٹی ایسے کسی ممکنہ نقصان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین ہے کہ استعفے دینے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ استعفوں سے پی ٹی آئی حکومت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

اس اختلاف رائے کی وجہ سے اس آپشن کے استعمال سے گریزکیا جا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ استعفوں کے نعم البدل کے طور پر لانگ مارچ کیا جائے اس آپشن پر پی ڈی ایم تذبذب کا شکار یوں ہے کہ اس سے پہلے لانگ مارچ ناکام ہو چکے ہیں۔ اصل میں ان سارے آپشنز پر فضل الرحمن کو اطمینان ہے کہ وہ حکومت کا خاتمہ کردیں گے۔ لیکن زیادہ پارٹیاں اس مسئلے پر بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

پی ڈی ایم کے دوست ہر حال میں حکومت کو گرانا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی بے یقینی کا شکار یوں ہیں کہ عوام کا موڈ اس حوالے سے ان کا ساتھ دینے کا نظر نہیں آتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ لانگ مارچ اگر زیادہ لانگ ہو جائے تو عوام ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔

ادھر حکومت عوام کو مختلف ایسی مراعات دینے کی تیاری کرتی نظر آرہی ہے جن سے عوام کو بہت سارے ریلیف مل سکتے ہیں اور عوام لانگ مارچ، شارٹ مارچ کا رسک لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔ حکومت ایسے طویل مدتی ترقیاتی پروگراموں کی تیاری کرتی نظر آ رہی ہے جن سے عوام کو معقول ریلیف مل سکتا ہے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہے جس سے عوام حکومت سے بہت بد دل ہو رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے عوام کے اعتماد کا ووٹ لے کر اپنی حکومت کو اور مستحکم بنالیا ہے یہ بات پی ڈی ایم کے زعما اچھی طرح جانتے ہیں کہ بوجوہ حکومت کو ہٹانا اتنا آسان نہیں۔ ابھی حکومت کے پاس ڈھائی سال موجود ہیں اور وزیراعظم عمران خان ان ڈھائی سالوں میں عوام کے لیے اتنا کام کرنا چاہتے ہیں کہ اگلے پانچ سال اطمینان سے گزار سکیں۔ ادھر اہل علم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں