مہنگی بجلی عوام کے لیے زہر قاتل
اگرکابینہ کاباقاعدہ اجلاس کیاجاتا تویقیناً وزرا بجلی مہنگے ہونے پر عوام کی مشکلات پر رائے دیتے لیکن اجلاس ہی نہیں ہوا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی مہنگی کر دی ہے۔ اس ضمن میں کابینہ سے سمری کے ذریعے منظوری لینے کے بعد آرڈیننس سے بجلی مہنگی کی جا رہی ہے۔
ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اعتماد کے ووٹ کے بعد انھوں نے دوسری اننگ شروع کی ہے اور اب حکومت صرف کارکردگی پر توجہ مرکوز رکھے گی۔ اس ضمن میں وزراء کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپوزیشن کو نشانہ پر رکھنے کے بجائے کارکردگی کو عوام کے سامنے لائیں۔
ایک نہیں متعدد بار وزیر اعظم ملک میں بڑھتی مہنگائی کے خلاف نوٹس لینے کے اعلانات کر چکے ہیں۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کئی اجلاس بھی کیے گئے تاہم مہنگائی کم نہیں ہو رہی۔ پتہ نہیں کیوں حکمران یہ بات سمجھ نہیں رہے کہ پناہ گاہیں ملک میں مہنگائی کے سیلاب کے خلاف بند نہیں باندھ سکتیں۔
سفید پوش آدمی نہ تو پناہ گاہ جا سکتا ہے اور نہ کوئی اناپرست بھوکا ہی لنگر خانوں سے جا کر روٹی کھا سکتا ہے۔ حکمران کیا چاہتے ہیں کہ لوگ گھر چھوڑ کر پناہ گاہوں میں شفٹ ہو جائیں اور گھروں میں کھانا کھانے کے بجائے لنگر خانوں میں جا کر روٹی کھائیں۔
آئی ایم ایف نے ملک میں بجلی مہنگی کرنے کی شرط رکھی اور حکومت نے آمین کہہ دیا ہے۔ کابینہ نے بجلی مہنگی کرنے پر اجلاس کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ہے بلکہ وزرا نے ڈاک کے ذریعے ہی سمری پر دستخط کر دیے ہیں۔ اور اب صدر اس پر پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانے کے بجائے آرڈیننس جاری کر رہے ہیں۔
اگر کابینہ کا باقاعدہ اجلاس کیا جاتا تو یقیناً وزرا بجلی مہنگے ہونے پر عوام کی مشکلات پر رائے دیتے لیکن اجلاس ہی نہیں ہوا۔ اگر آرڈیننس کے بجائے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاتی تو یقیناً ارکان عوام کی مشکلات پر بات کرتے۔ تا ہم پارلیمنٹ تو پہلے حکومت نے غیر فعال کی ہوئی ہے۔ اب یہ اس کی ایک اور مثال سامنے ہے کہ ملک میںجمہوریت ہوتے ہوئے آمریت کے انداز میں حکومت چلائی جارہی ہے۔
مجھے یاد آرہے ہیں وہ عمران خان جنھوں نے ذرا سی بجلی مہنگی کرنے پر کنٹینر پر بجلی کے بلوں کو آگ لگا دی تھی۔ جنھوں نے عوام سے اپیل کر دی تھی کہ وہ بجلی کے بل ادا نہیں کریں۔ انھوں نے بنی گالہ کے بجلی کے بل ادا کرنے بھی بند کر دیے تھے۔ وہ عمران خان جو عوام کی زبان بولتے تھے، جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر آئی ایم ایف کو للکارتے تھے اور آئی ایم ایف کے سامنے نہ جھکنے کا اعلان کرتے تھے، جو گردشی قرضہ کا بوجھ عوام پر نہ ڈالنے کا اعلان کرتے تھے اور جو عوام کی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے تھے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ بجلی چوری پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ حکومت ملک میں بجلی چوری کے خلاف کوئی بھی موثر مہم چلانے میں نا کام رہی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پنجاب کے سوا باقی صوبوں سے بجلی چوری روکنے میں حکمران ناکام ہوئے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بجلی چوری کی وجہ سے گردشی قرضہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حکومت ملک میں بجلی چوری اور گردشی قرضے کے خلاف کسی بھی قسم کی حکمت عملی بنانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی مہنگی کرنا کیا ہماری خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں ہے۔
مہنگی بجلی کا اثر ہر گھر اور ہر کاروبار پر ہوگا۔ حکومت کو کیوں احساس نہیں ہو رہا کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس روز بروز مر رہی ہے۔ مہنگائی نے ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر کر دی ہے۔ اب جب بجلی مہنگی ہوگی تو ہر گھر کے بجلی کے بل میں اضافہ ہوگا۔ گرمیاں آرہی ہیں۔
پنکھے بھی چلنے ہیں اور مڈل کلاس گھروں میں اب ایک اے سی بھی ہے وہ بھی چلے گا،فریج بھی ہے، استری بھی ہے۔ کیا حکومت چاہتی ہے کہ لوگ ان سب چیزوں کا استعمال بھی بند کردیں۔ دکانوں کارخانوں کے بجلی کے بل بڑھ جائیں گے وہ کیا کریں گے چیزیں مہنگی کریں گے۔ کہاں سے دیں گے یہ بجلی کے بل۔ پہلے ہی ہمارے برآمد کنندگان کا گلہ ہے کہ ملک میں مہنگی بجلی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ ایسے میں جب بجلی مزید مہنگی ہوگی تو کیا اب ہمارے لیے عالمی منڈی میں مقابلہ مزید مشکل نہیں ہو جائے گا۔
مہنگی بجلی کا زراعت میں بھی اثر ہوگا۔ کسان کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ اس کی فصل مہنگی ہوگی۔ جس کی وجہ سے مزید مہنگائی ہوگی۔ پاکستان کی زراعت پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے۔ ایسے میں مہنگی بجلی زراعت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بجلی چوری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ڈسٹری بیوشن لاسز بھی اہم مسئلہ ہے۔ ملک میں بجلی چوری عام ہے۔ ہم نے فاٹا کو کے پی میں ضم تو کر لیا ہے۔ لیکن ہم وہاں سے بجلی کا بل لینے میں نا کام ہیں۔ ہم بلوچستان سے بجلی کا بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ ہم اندرون سندھ سے بجلی کا بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ کہاں گئے تحریک انصاف کی قیادت کے وہ نعرے اور دعویٰ کے ایک ایک بجلی چور کو عبرت کانشان بنا دیا جائے گا۔ آج بجلی چوری پر کیوں خاموشی ہے کیا یہ خاموشی مجرمانہ نہیں ہے۔ ن لیگ اپنے دور میں بار بار یہ تجویز پیش کرتی تھی کہ بجلی کے بلوں کی ریکوری صوبوں کو دے دی جائے۔ وفاق کے لیے بجلی کے بلوں کی ریکوری ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
لیکن تحریک انصاف اس کی مخالفت کرتی تھی۔ تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت اپنی نااہلی صوبوں پر کیوں ڈال رہی ہے۔ آج کیا یہ سوال اہم نہیں کہ وفاق اپنی نااہلی کی سزا عوام کو کیوں دے رہا ہے۔
مہنگی بجلی پاکستان کی تباہی کا نشان ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ مہنگی بجلی ملک میں مہنگائی کا طوفان لائے گی۔ امیر و غریب دونوں کے لیے مشکلات لائے گی۔ مڈل کلاس کے دن رات مشکل کرے گی اور حکومت کے مہنگائی کنٹرول کرنے کے تمام خواب بھی ناکام بنا دے گی۔ ہم مرکزی حکومت سے اکثر یہ گلہ سنتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ وہ مہنگائی کا جن قابو کرنے کی ذمے داری صوبائی حکومت پر ڈالتے ہیں۔ کیا صوبائی حکومتیں بجلی اور پٹرول مہنگا کر رہی ہیں۔
کیا ادویات کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ کہیں نہ کہیں اس تمام مہنگائی کی ذمے داری وفاقی حکومت کو قبول کرنا ہوگی۔ یہ مہنگائی تحریک انصاف کی حکومت کی مقبولیت کو زہر کی طرح کھا رہی ہے۔ اسے سمجھنا ہوگا کہ ہر بل کے ساتھ ہر گھر، ہر دکان، ہرکارخانہ اور ہر کاروبار میں لوگ اس کو ہی ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ عوام میں اب مزید مہنگائی سہنے کی سکت نہیں ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اب عوام انھیں این آر او دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اب صرف برا بھلا کہنے اور چور مچائے شور نہیں چلے گا۔
ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اعتماد کے ووٹ کے بعد انھوں نے دوسری اننگ شروع کی ہے اور اب حکومت صرف کارکردگی پر توجہ مرکوز رکھے گی۔ اس ضمن میں وزراء کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپوزیشن کو نشانہ پر رکھنے کے بجائے کارکردگی کو عوام کے سامنے لائیں۔
ایک نہیں متعدد بار وزیر اعظم ملک میں بڑھتی مہنگائی کے خلاف نوٹس لینے کے اعلانات کر چکے ہیں۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کئی اجلاس بھی کیے گئے تاہم مہنگائی کم نہیں ہو رہی۔ پتہ نہیں کیوں حکمران یہ بات سمجھ نہیں رہے کہ پناہ گاہیں ملک میں مہنگائی کے سیلاب کے خلاف بند نہیں باندھ سکتیں۔
سفید پوش آدمی نہ تو پناہ گاہ جا سکتا ہے اور نہ کوئی اناپرست بھوکا ہی لنگر خانوں سے جا کر روٹی کھا سکتا ہے۔ حکمران کیا چاہتے ہیں کہ لوگ گھر چھوڑ کر پناہ گاہوں میں شفٹ ہو جائیں اور گھروں میں کھانا کھانے کے بجائے لنگر خانوں میں جا کر روٹی کھائیں۔
آئی ایم ایف نے ملک میں بجلی مہنگی کرنے کی شرط رکھی اور حکومت نے آمین کہہ دیا ہے۔ کابینہ نے بجلی مہنگی کرنے پر اجلاس کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ہے بلکہ وزرا نے ڈاک کے ذریعے ہی سمری پر دستخط کر دیے ہیں۔ اور اب صدر اس پر پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانے کے بجائے آرڈیننس جاری کر رہے ہیں۔
اگر کابینہ کا باقاعدہ اجلاس کیا جاتا تو یقیناً وزرا بجلی مہنگے ہونے پر عوام کی مشکلات پر رائے دیتے لیکن اجلاس ہی نہیں ہوا۔ اگر آرڈیننس کے بجائے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاتی تو یقیناً ارکان عوام کی مشکلات پر بات کرتے۔ تا ہم پارلیمنٹ تو پہلے حکومت نے غیر فعال کی ہوئی ہے۔ اب یہ اس کی ایک اور مثال سامنے ہے کہ ملک میںجمہوریت ہوتے ہوئے آمریت کے انداز میں حکومت چلائی جارہی ہے۔
مجھے یاد آرہے ہیں وہ عمران خان جنھوں نے ذرا سی بجلی مہنگی کرنے پر کنٹینر پر بجلی کے بلوں کو آگ لگا دی تھی۔ جنھوں نے عوام سے اپیل کر دی تھی کہ وہ بجلی کے بل ادا نہیں کریں۔ انھوں نے بنی گالہ کے بجلی کے بل ادا کرنے بھی بند کر دیے تھے۔ وہ عمران خان جو عوام کی زبان بولتے تھے، جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر آئی ایم ایف کو للکارتے تھے اور آئی ایم ایف کے سامنے نہ جھکنے کا اعلان کرتے تھے، جو گردشی قرضہ کا بوجھ عوام پر نہ ڈالنے کا اعلان کرتے تھے اور جو عوام کی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے تھے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ بجلی چوری پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ حکومت ملک میں بجلی چوری کے خلاف کوئی بھی موثر مہم چلانے میں نا کام رہی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پنجاب کے سوا باقی صوبوں سے بجلی چوری روکنے میں حکمران ناکام ہوئے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بجلی چوری کی وجہ سے گردشی قرضہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حکومت ملک میں بجلی چوری اور گردشی قرضے کے خلاف کسی بھی قسم کی حکمت عملی بنانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی مہنگی کرنا کیا ہماری خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں ہے۔
مہنگی بجلی کا اثر ہر گھر اور ہر کاروبار پر ہوگا۔ حکومت کو کیوں احساس نہیں ہو رہا کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس روز بروز مر رہی ہے۔ مہنگائی نے ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر کر دی ہے۔ اب جب بجلی مہنگی ہوگی تو ہر گھر کے بجلی کے بل میں اضافہ ہوگا۔ گرمیاں آرہی ہیں۔
پنکھے بھی چلنے ہیں اور مڈل کلاس گھروں میں اب ایک اے سی بھی ہے وہ بھی چلے گا،فریج بھی ہے، استری بھی ہے۔ کیا حکومت چاہتی ہے کہ لوگ ان سب چیزوں کا استعمال بھی بند کردیں۔ دکانوں کارخانوں کے بجلی کے بل بڑھ جائیں گے وہ کیا کریں گے چیزیں مہنگی کریں گے۔ کہاں سے دیں گے یہ بجلی کے بل۔ پہلے ہی ہمارے برآمد کنندگان کا گلہ ہے کہ ملک میں مہنگی بجلی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ ایسے میں جب بجلی مزید مہنگی ہوگی تو کیا اب ہمارے لیے عالمی منڈی میں مقابلہ مزید مشکل نہیں ہو جائے گا۔
مہنگی بجلی کا زراعت میں بھی اثر ہوگا۔ کسان کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ اس کی فصل مہنگی ہوگی۔ جس کی وجہ سے مزید مہنگائی ہوگی۔ پاکستان کی زراعت پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے۔ ایسے میں مہنگی بجلی زراعت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اصل مسئلہ سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بجلی چوری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ڈسٹری بیوشن لاسز بھی اہم مسئلہ ہے۔ ملک میں بجلی چوری عام ہے۔ ہم نے فاٹا کو کے پی میں ضم تو کر لیا ہے۔ لیکن ہم وہاں سے بجلی کا بل لینے میں نا کام ہیں۔ ہم بلوچستان سے بجلی کا بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ ہم اندرون سندھ سے بجلی کا بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ کہاں گئے تحریک انصاف کی قیادت کے وہ نعرے اور دعویٰ کے ایک ایک بجلی چور کو عبرت کانشان بنا دیا جائے گا۔ آج بجلی چوری پر کیوں خاموشی ہے کیا یہ خاموشی مجرمانہ نہیں ہے۔ ن لیگ اپنے دور میں بار بار یہ تجویز پیش کرتی تھی کہ بجلی کے بلوں کی ریکوری صوبوں کو دے دی جائے۔ وفاق کے لیے بجلی کے بلوں کی ریکوری ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
لیکن تحریک انصاف اس کی مخالفت کرتی تھی۔ تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت اپنی نااہلی صوبوں پر کیوں ڈال رہی ہے۔ آج کیا یہ سوال اہم نہیں کہ وفاق اپنی نااہلی کی سزا عوام کو کیوں دے رہا ہے۔
مہنگی بجلی پاکستان کی تباہی کا نشان ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ مہنگی بجلی ملک میں مہنگائی کا طوفان لائے گی۔ امیر و غریب دونوں کے لیے مشکلات لائے گی۔ مڈل کلاس کے دن رات مشکل کرے گی اور حکومت کے مہنگائی کنٹرول کرنے کے تمام خواب بھی ناکام بنا دے گی۔ ہم مرکزی حکومت سے اکثر یہ گلہ سنتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ وہ مہنگائی کا جن قابو کرنے کی ذمے داری صوبائی حکومت پر ڈالتے ہیں۔ کیا صوبائی حکومتیں بجلی اور پٹرول مہنگا کر رہی ہیں۔
کیا ادویات کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ کہیں نہ کہیں اس تمام مہنگائی کی ذمے داری وفاقی حکومت کو قبول کرنا ہوگی۔ یہ مہنگائی تحریک انصاف کی حکومت کی مقبولیت کو زہر کی طرح کھا رہی ہے۔ اسے سمجھنا ہوگا کہ ہر بل کے ساتھ ہر گھر، ہر دکان، ہرکارخانہ اور ہر کاروبار میں لوگ اس کو ہی ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ عوام میں اب مزید مہنگائی سہنے کی سکت نہیں ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اب عوام انھیں این آر او دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اب صرف برا بھلا کہنے اور چور مچائے شور نہیں چلے گا۔