جانبداری ہو تو دیانتداری کیسی

حکمران اپنا اور اپنی پارٹی کا مفاد سب سے عزیز رکھتے ہیں۔


[email protected]

PARIS: (ملک کے تمام سول سرونٹس کے نام)

اگر کوئی سرکاری افسر رشوت نہیں لیتا مگر الیکشن کے دوران حکمرانوںکے کہنے پر حکومتی امیدوار کی مدد کرتا ہے تو وہ دیانتدار ہرگزنہیں کہلاسکتا۔ '' ایمانداری'' کامفہوم بہت وسیع ہے، اس کا مطلب صرف غیرقانونی ذرایع سے پیسے بٹورنے سے اجتناب نہیں ہے، اس کے تقاضے کہیں زیادہ ہیں۔

سول سرونٹس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں مکمل طور پر غیرجانبدار رہیں۔ہمارے ہاں چونکہ جمہوری روایات پختہ نہیں ہیںاس لیے عموماً حکمرانوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے لیے رواداری اور برداشت کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے ، نقصان پہنچانے، یا بے عزت کرنے کے لیے سرکاری اداروں ، خصوصاًپولیس ، ایف آئی اے ، ایف بی آر، اینٹی کرپشن اور سول انتظامیہ کو استعمال کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انھیں کوئی احساسِ جرم یا ندامت محسوس نہیں ہوتی۔

اِس ملک کا ہر حکمران اپوزیشن میں بھی رہ چکا ہے، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہر سیاسی لیڈر سرکاری افسروں سے غیر جانبدار رہنے کا مطالبہ کرتا ہے اور ان کی جانبداری پر تنقید کرتا ہے مگر حکومت میںآکر کوئی لیڈر (سیاسی ہو یا عسکری ) سول سرونٹس کو غیرجانبدار رہنے کی تلقین نہیں کرتا۔ حکمران ہوتے ہوئے صرف ایک شخص نے سرکاری ملازموں کو غیر جانبدار رہنے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ حکم دیا اور وہی ایک شخص قائدِاعظم بھی کہلایا اور بابائے قوم بھی۔

حکمران اپنا اور اپنی پارٹی کا مفاد سب سے عزیز رکھتے ہیں، مگر ہمارے سول سرونٹس دوسروں کے مفاد کا تحفظ کرتے کرتے اپنے محکمے یا اپنے گروپ (سول سروسز) کا مفاد ، عزت اور ساکھ قربان کردیتے ہیں، جس طرح سیاستدان اپنی پارٹی کی عزت عزیز رکھتے ہیں اسی طرح سول سرونٹس کوبھی اپنے ادارے کی عزت اور اپنے امیج کا ہر حال میں تحفظ کرنا چاہیے۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا ہمارے عوام کو سرکاری اداروں یا سرکاری افسروں پر اعتماد ہے؟ تو جواب کے لیے ذرا بھی سوچنے کی ضرورت نہیں، عوام کا متفقہ جواب بہت بڑی ناں میں ہے۔عوام کو سول سرونٹس سے تین بڑی شکایات ہیں ۔وہ حرام خوری کی دلدل میں دھنس چکے ہیں، عوام کے ساتھ ان کا رویہ ترش اور غیر ہمدردانہ ہوتا ہے اور یہ کہ اپنے آپ کو پبلک سرونٹ یا ریاست کا ملازم سمجھنے کے بجائے وہ حکمرانوں کے وفادار ملازم سمجھنے لگتے ہیں اور حکمران پارٹی کے کارندے بن جاتے ہیں۔

ساڑھے تین دہائیوں کی پبلک سروس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عوام کی یہ تینوں شکایات درست ہیں۔ حرام سے نفرت اور رزقِ حلال سے محبت پیدا کرنے میں سب سے بنیادی کردار والدین کا ہے اور ان کے بعد اساتذہ ان کی سوچ اور سمت متعیّن کرتے ہیں۔

جب کہ غیر جانبداری کی اہمیت سے سول سرونٹس کو روشناس کرانا ان کے انسٹرکٹرز اور سینئرز کا فرض ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ غیرجانبدار سینئرز گزر گئے اور ہماری سول سروسز کی تربیت گاہوں کے درو دیوار اب integrity، کریکٹر ، رزقِ حلال اور غیر جانبداری جیسے الفاظ سننے کو ترستے ہیں، ان چیزوں کے بارے میں نئے سول سرونٹس کو پوری طرح Sensitise نہیں کیا جاتا۔ انھیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ غیرجانبداری کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی ایمانداری کی۔

انھیں کوئی نہیں بتاتا کہ تمھارا دفتر ایک پبلک آفس ہے، جس پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی اتنا ہی حق (Claim) ہے جتنا حکومتی پارٹی کے لوگوں کا ۔ انھیں اس حقیقت سے کوئی روشناس نہیں کراتا کہ حکومت اور ریاست میں فرق ہوتا ہے۔ آپ کی وفاداری صرف ریاست اور ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ ہونی چاہیے۔

آپ حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کے پابند ہیں مگر صرف قانونی احکامات (Lawful Orders) کے۔ کسی سیاسی مخالف کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرنے، سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے پرچے درج کرنے، الیکشن میں حکومتی پارٹی کے امیدوار کی مدد کرنے، ایک پارٹی کے کہنے پرافسران تعینات کرنے اور اپوزیشن کے ورکروں کو نظربند یا ہراساں کرنے کے احکامات سراسر غیرقانونی ہیں، جن پر سول سرونٹس عمل کرنے کے ہرگز پابند نہیں ہیں۔ غیر قانونی احکامات پر عمل کرکے وہ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس پر ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور مقدمے درج ہوسکتے ہیں۔

اگر دھاندلی میں ملوث ہونے والے افسروں کے خلاف فوری طور پر مقدمے درج نہیں ہوتے ، بلکہ اوپر سے شاباش ملتی ہے اور صلے میں آیندہ مزید دلکش پوسٹنگ کی امید دلائی جاتی ہے تو وہ اِس پر بغلیں نہ بجائیں۔ وقت اور حکومت بدلنے پر بھی مقدمے درج ہوجاتے ہیں جو افسروں کو سالہا سال تک بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہر محکمے کے افسران خصوصاً پولیس اور انتظامیہ کے فیلڈ افسران کی حیثیت ایک جج کی ہوتی ہے، ان کا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیڈروں اور ورکروں سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔ اگر وہ حکومتی پارٹی کے افراد کو زیادہ اہمیت دیں گے، ان کے کہنے پر پوسٹنگ اور ٹرانسفر کریں گے، انھیں سپورٹ اور Facilitate کریں گے تو وہ نا انصافی اور بددیانتی کے مرتکب ہونگے۔

یہ درست ہے کہ فیلڈ کے ٹھاٹھ باٹھ ، وسیع وعریض بنگلے، گاڑیاں ، اعلیٰ سماجی مرتبہ ، اختیارات اور مال بنانے کے مواقعے افسران کی اکثریت کو مسحور کردیتے ہیں،اسی لیے زیادہ تر افسران ان مراعات اور Trappings کے لیے اپنے ایمان اور ضمیر کو قربان کردیتے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں تربیت گاہوں کا کرداربڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہاںمنتخب شدہ بہترین افسر تعینات کیے جائیں، پھر وہ افسر یا انسٹرکٹرز ایمانداری کے ساتھ ساتھ غیرجانبداری کو بھی بنیادی عقیدے کے طور پر زیرِ تربیت افسران کے دل و دماغ میں اتار دیں۔

مجھے یاد ہے جب میں نیشنل پولیس اکیڈیمی میں اے ایس پی صاحبان کی ٹریننگ کراتا تھا تو ہر بَبیچ کے افسران دمِ رخصت مجھ سے آخری سوال یہ پوچھا کرتے تھے کہ''اچھے پولیس افسرمیں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟'' آج سے بیس سال پہلے بھی اور آج بھی میرا وہی جواب ہے کہ ''اچھا پولیس افسر یا سول سرونٹ صرف وہ ہے جو ہر حال میں رزقِ حلال کھائے، نڈر اور بہادر ہو، دفتر میں بیٹھ کر سائلوںکاانتظار نہ کرے بلکہ افتاد گانِ خاک کے مسائل اور مصائب جاننے کے لیے خود ان تک پہنچے اور جو اوپرسے آنے والے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کی جُرأت رکھتا ہو۔میںنوجوان افسروں کو بتایا کرتاتھاکہ انھیں "Policing for the people" کے نظریے پر عمل کرنا چاہیے ۔

ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے وقت پولیس اور انتظامیہ کے افسران ایک پارٹی کی مدد کرنے یا دھاندلی اور قانون شکنی پر آنکھیں بند کر لینے پر کیوں آمادہ ہوئے۔مجھے ذاتی طور پر اس کا بہت دکھ ہے۔ بہت سے نوجوان پولیس افسر پوچھتے ہیں کہ ایسے حالات میں اچھے افسروں کو کیا کرنا چاہیے؟

اس سلسلے میں کئی ماڈل یا آپشنز ہیں جن پر مختلف اوقات میں مختلف افسر عمل کرچکے ہیں۔ بدترین ماڈل یہ ہے کہ ضلع افسر حکومت کی خواہشات پر عمل کرتے ہوئے حکومتی امیدوار کو جتوانے کے لیے ایک پارٹی کے کارندے بن جائیں اور ایسا کرکے اپنا اور اپنے محکمے کا منہ کالا کریں، دوسرا یہ (جو غالباً سیالکوٹ میں استعمال ہوا) کہ شریف اور بھلے مانس افسر خاموش تماشائی بن جائیں اور حکومتی اہلکار ان کے ماتحت افسروں یعنی اے سی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہیں۔

تیسرا یہ (جو اچھے افسروں کو استعمال کرنا چاہیے) کہ ڈی پی او اور آرپی او، آئی جی سے ملاقات کرکے صاف صاف کہہ دے کہ '' میں دھاندلی جیسے مکروہ دھندے میں حصّہ لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں، مجھے ٹرانسفر کردیں یا چھٹی پر بھیج دیں''۔ چوتھا آپشن وہ ہے جو 2010 میں گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میںپورے ملک نے دیکھا، جس میں پولیسںنہ صرف مکمل طور پر غیر جانبدار رہی بلکہ پولیس نے proactiveرول ادا کرکے دھاندلی کی کوشش ناکام بنادی۔

حکومتی امیدوار کچھ ووٹوں سے ہار گیا۔ مگر نہ کوئی ہنگامہ ہوا نہ معاملہ الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ تک پہنچا، صرف دو گھنٹے کے آپریشن میں انصاف ہوگیا۔ یہ درست ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے، ایسا کرنے والے افسران حکومتوں کے معتوب قرار پاتے ہیں اور انھیں اُسوقت بھی اور بعد میں بھی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔اُسوقت قانون کی حکمرانی قائم کرنے پر موجودہ وزیرِاعظم نے درجنوں مرتبہ مختلف چینلوں پر اِس ناچیز کی تعریف وتحسین کی ۔ مگر آج اُسی وزیرِاعظم کے منہ سے دھاندلی زدہ افسروں کے خلاف ایک لفظ تک نہیں نکل رہا بلکہ آج سول سرونٹس کے لیے غیر جانبدار رہنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں اچھے افسروں کے لیے تیسرا آپشن اختیار کرناہی مناسب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں