بنگلادیش ترقی کی راہ پر
بنگلادیش کی GDPکووڈ کے بحران کے دوران 5.2 فیصد جب کہ پاکستان میں یہ شرح 0.04 فیصد ہے۔
مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم مہینہ ہے۔ 1940 میں 23 مارچ کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہوئی جو قراردادِ لاہورکہلائی۔ یہ قرارداد مشرقی بنگال کے رہنما مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔
اس قرار داد میں نئے ملک پاکستان کا نقشہ واضح کیا گیا تھا۔ قرارداد لاہور میں مسلم اکثریتی صوبوں کے کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی گئی تھی ، یوں تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔ دراصل آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی تھی۔ مسلم لیگ کی اس جدوجہد کی بناء پر سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا تھا۔
اس طرح مغربی اور مشرقی بنگال کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔ اڑیسہ کا صوبہ بھی اسی اصول کے تحت قائم ہوا تھا مگر 1947 میں جب ملک آزاد ہوا تو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی 10سال تک آئین بنانے میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد آئین ساز اسمبلی سے منظور کرایا۔ اس قرارداد کی بناء پر پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی 11اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن نئی ریاست کے خدوخال کو واضح کرنے کے لیے اپنی تقریر میں جو بنیادی اصول طے کیے تھے۔
ان سے انحراف ہوا۔ پھر ملک کو وحدانی طرز حکومت کے تحت چلایا جانے لگا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ زبان کو ملک کی قومی زبان کا درجہ دیا جائے مگر اس مطالبہ کو ایک مزاحمتی تحریک کے بعد جس میں کئی بے گناہ مارے گئے اس حق کو تسلیم کیا گیا۔
50 کی دہائی میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات میں تمام مخالف جماعتیں جگتو فرنٹ کے پلیٹ فارم پر متحدہ ہوئیں اور انتخابات میں مسلم لیگ صرف چند نشستوں تک محدود ہوئی۔23مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرارداد پیش کرنے والے مسلم لیگی رہنما مولوی فضل الحق وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے مگر کراچی کی مرکزی حکومت نے 9ماہ بعد جگتو فرنٹ کی حکومت کو برطرف کیا۔
مولوی فضل الحق کے مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ کے دورہ کے موقع پر ایک بیان پر غدارکا تحفہ دیا گیا۔ بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی نے اپنے اصولوں میں نرمی کی اور وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے مگر ان کے کئی اہم معاملات پر سمجھوتے کے باوجود کچھ عرصہ بعد اس عہدہ سے برطرف کیا گیا۔
1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا۔ 1956 کے آئین کو منسوخ کیا گیا، ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا۔ دارالحکومت اسلام آباد کی تعمیر کا فیصلہ کیا، یوں دارالحکومت کی منتقلی سے مشرقی پاکستان کے عوام میں مایوسی پیدا ہوئی۔ پھر1962 کے آئین میں جو صدارتی نوعیت کا تھا تمام اختیارات صدر پاکستان کے گرد منتقل کیے گئے اور صوبوں کی خود مختاری کو محدود کردیا گیا۔ 1955 میں سندھ، پنجاب، سرحد اور مرکز کے زیرِ انتظام بلوچستان کو مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تو مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کر کے برابری کا اصول نافذ کیا گیا تھا۔
دسمبر 1970 میں عام انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کامیاب ہوئے مگر پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ میں آئین کے بارے میں سمجھوتہ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ 16 دسمبر 1971 کو بنگلادیش وجود میں آیا۔ بنگلادیش طوفانوں اور سیلابوں کا صوبہ کہلاتا تھا غربت انتہائی درجہ پر تھی مگر بنگلادیش میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے بنگلادیش کی معیشت پر خصوصی توجہ دی، یوں بنگلادیش کی معیشت بہتر ہونے لگی۔
سمندری طوفان اور دریاؤں کے سیلابوں کی روک تھام کے لیے جدید سائنسی طریقے اختیار کیے گئے۔ معاشی ماہر پروفیسر ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک نے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین کو قرضے دینے شروع کیے۔ غریب خواتین کے روزگار کے مواقعے بڑھ گئے۔ غربت کی شرح کم ہوئی، خواتین کے خوشحال ہونے سے طلاق کی شرح کم ہوئی اور گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی آئی۔ بنگلادیش کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار کیے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان سے بھی صنعت کار اپنا سرمایہ بنگلادیش لے گئے۔
بنگلادیش نے اس مہینہ اپنی 50ویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پر جاری ہونے والے اعداد و شمار نے بہت سے حقائق آشکار کیے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بنگلادیش میں فی کس آمدنی 2064 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدنی 1130 ڈالر ہے۔
اسی طرح بنگلادیش کی GDPکووڈ کے بحران کے دوران 5.2 فیصد جب کہ پاکستان میں یہ شرح 0.04 فیصد ہے۔ اعداد و شمار کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلادیش میں زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر 42 بلین اور پاکستان میں 20.8 بلین ہے۔ بنگلادیش میں اوسط عمر 72 برس تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 67 برس ہے۔
بنگلادیش میں 50 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کم ہوئی ۔ ہر ایک ہزار میں 25 بچوں کی ہلاکت تک محدود ہوگئی ہے مگر پاکستان میں اب تک ایک ہزار بچوں میں 50 بچے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔ بنگلادیش میں 98 فیصد بچے پرائمری اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔
پاکستان میں 72 فیصد بچے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے ان اعداد و شمار کا اپنی تقاریر میں ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر جمہوری حکومتوں کے مسلسل اقتدار اور جمہوری نظام کی کمزوریوں کی بناء پر پاکستان بنگلادیش سے پیچھے رہ گیا ہے۔
اب بنگلادیش آئی ٹی کے میدان میں بھارت سے آگے نکل رہا ہے۔ دو ماہ قبل بنگلادیش کی وزیر اعظم نے وزیر اعظم عمران خان سے فون پر بات چیت میں دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کا اظہار کیا۔ بنگلادیش کی خوشحالی ایک خوشگوار خبر ہے مگر اس خوشحالی کی وجوہات پر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں شامل نکات عوامی لیگ کے 6 نکات سے قریب تر ہیں۔ اگر 1971 میں اس طرح کی ترمیم پر سب متفق ہوجاتے تو ملک نہیں ٹوٹتا۔ ماضی تو لوٹ کر نہیں آسکتا مگر سماجی جمہوریت ، صوبوں کے حقوق کے تحفظ، پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی اور شفاف نظام حکومت ہی ملک کو ترقی دے سکتا ہے۔
اس قرار داد میں نئے ملک پاکستان کا نقشہ واضح کیا گیا تھا۔ قرارداد لاہور میں مسلم اکثریتی صوبوں کے کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی گئی تھی ، یوں تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔ دراصل آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے قیام کے ساتھ ہی چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی تھی۔ مسلم لیگ کی اس جدوجہد کی بناء پر سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا تھا۔
اس طرح مغربی اور مشرقی بنگال کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔ اڑیسہ کا صوبہ بھی اسی اصول کے تحت قائم ہوا تھا مگر 1947 میں جب ملک آزاد ہوا تو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی 10سال تک آئین بنانے میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد آئین ساز اسمبلی سے منظور کرایا۔ اس قرارداد کی بناء پر پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی 11اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن نئی ریاست کے خدوخال کو واضح کرنے کے لیے اپنی تقریر میں جو بنیادی اصول طے کیے تھے۔
ان سے انحراف ہوا۔ پھر ملک کو وحدانی طرز حکومت کے تحت چلایا جانے لگا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ زبان کو ملک کی قومی زبان کا درجہ دیا جائے مگر اس مطالبہ کو ایک مزاحمتی تحریک کے بعد جس میں کئی بے گناہ مارے گئے اس حق کو تسلیم کیا گیا۔
50 کی دہائی میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات میں تمام مخالف جماعتیں جگتو فرنٹ کے پلیٹ فارم پر متحدہ ہوئیں اور انتخابات میں مسلم لیگ صرف چند نشستوں تک محدود ہوئی۔23مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرارداد پیش کرنے والے مسلم لیگی رہنما مولوی فضل الحق وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے مگر کراچی کی مرکزی حکومت نے 9ماہ بعد جگتو فرنٹ کی حکومت کو برطرف کیا۔
مولوی فضل الحق کے مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ کے دورہ کے موقع پر ایک بیان پر غدارکا تحفہ دیا گیا۔ بنگال کے سابق وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی نے اپنے اصولوں میں نرمی کی اور وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے مگر ان کے کئی اہم معاملات پر سمجھوتے کے باوجود کچھ عرصہ بعد اس عہدہ سے برطرف کیا گیا۔
1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا۔ 1956 کے آئین کو منسوخ کیا گیا، ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا۔ دارالحکومت اسلام آباد کی تعمیر کا فیصلہ کیا، یوں دارالحکومت کی منتقلی سے مشرقی پاکستان کے عوام میں مایوسی پیدا ہوئی۔ پھر1962 کے آئین میں جو صدارتی نوعیت کا تھا تمام اختیارات صدر پاکستان کے گرد منتقل کیے گئے اور صوبوں کی خود مختاری کو محدود کردیا گیا۔ 1955 میں سندھ، پنجاب، سرحد اور مرکز کے زیرِ انتظام بلوچستان کو مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا تو مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کر کے برابری کا اصول نافذ کیا گیا تھا۔
دسمبر 1970 میں عام انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کامیاب ہوئے مگر پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ میں آئین کے بارے میں سمجھوتہ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ 16 دسمبر 1971 کو بنگلادیش وجود میں آیا۔ بنگلادیش طوفانوں اور سیلابوں کا صوبہ کہلاتا تھا غربت انتہائی درجہ پر تھی مگر بنگلادیش میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے بنگلادیش کی معیشت پر خصوصی توجہ دی، یوں بنگلادیش کی معیشت بہتر ہونے لگی۔
سمندری طوفان اور دریاؤں کے سیلابوں کی روک تھام کے لیے جدید سائنسی طریقے اختیار کیے گئے۔ معاشی ماہر پروفیسر ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک نے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین کو قرضے دینے شروع کیے۔ غریب خواتین کے روزگار کے مواقعے بڑھ گئے۔ غربت کی شرح کم ہوئی، خواتین کے خوشحال ہونے سے طلاق کی شرح کم ہوئی اور گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی آئی۔ بنگلادیش کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار کیے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان سے بھی صنعت کار اپنا سرمایہ بنگلادیش لے گئے۔
بنگلادیش نے اس مہینہ اپنی 50ویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پر جاری ہونے والے اعداد و شمار نے بہت سے حقائق آشکار کیے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بنگلادیش میں فی کس آمدنی 2064 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدنی 1130 ڈالر ہے۔
اسی طرح بنگلادیش کی GDPکووڈ کے بحران کے دوران 5.2 فیصد جب کہ پاکستان میں یہ شرح 0.04 فیصد ہے۔ اعداد و شمار کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلادیش میں زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر 42 بلین اور پاکستان میں 20.8 بلین ہے۔ بنگلادیش میں اوسط عمر 72 برس تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 67 برس ہے۔
بنگلادیش میں 50 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کم ہوئی ۔ ہر ایک ہزار میں 25 بچوں کی ہلاکت تک محدود ہوگئی ہے مگر پاکستان میں اب تک ایک ہزار بچوں میں 50 بچے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔ بنگلادیش میں 98 فیصد بچے پرائمری اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔
پاکستان میں 72 فیصد بچے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے ان اعداد و شمار کا اپنی تقاریر میں ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر جمہوری حکومتوں کے مسلسل اقتدار اور جمہوری نظام کی کمزوریوں کی بناء پر پاکستان بنگلادیش سے پیچھے رہ گیا ہے۔
اب بنگلادیش آئی ٹی کے میدان میں بھارت سے آگے نکل رہا ہے۔ دو ماہ قبل بنگلادیش کی وزیر اعظم نے وزیر اعظم عمران خان سے فون پر بات چیت میں دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کا اظہار کیا۔ بنگلادیش کی خوشحالی ایک خوشگوار خبر ہے مگر اس خوشحالی کی وجوہات پر بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں شامل نکات عوامی لیگ کے 6 نکات سے قریب تر ہیں۔ اگر 1971 میں اس طرح کی ترمیم پر سب متفق ہوجاتے تو ملک نہیں ٹوٹتا۔ ماضی تو لوٹ کر نہیں آسکتا مگر سماجی جمہوریت ، صوبوں کے حقوق کے تحفظ، پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی اور شفاف نظام حکومت ہی ملک کو ترقی دے سکتا ہے۔