پی ڈی ایم اندرونی کشیدگی حکومت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو سکتا ہے

استعفوں کے معاملے پر مستقبل قریب میں ایک پیج پر ہونا اب ممکن نہیں رہا ہے۔


رضوان آصف March 24, 2021
استعفوں کے معاملے پر مستقبل قریب میں ایک پیج پر ہونا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ فوٹو: فائل

سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں دوستی اور دشمنی ''دائمی'' نہیں ہوتی، آج کے دوست کل کے دشمن اور آج کے دشمن مستقبل میں دوست بنتے دیر نہیں لگتی، سیاسی اتحاد سیاسی ضرورتوں کے تحت وقتی طور پر بنتے ہیں اور سیاسی مفادات کے ٹکراو کے سبب ہی ٹوٹ جاتے ہیں ، اس کا ثبوت پی ڈی ایم میں پیدا ہونے والی حالیہ خلیج سے بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں جمہوری دور حکومت کا عرصہ آمریت کے دور سے کم ہے لیکن جتنا بھی عرصہ جمہوریت رہی اس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے سب سے زیادہ مدت تک حکومت کی ہے۔ جس طرح سے آگ اور پانی کا ملاپ ممکن نہیں ویسے ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد غیر فطری ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کا طرز سیاست اور نظریہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بارے میںیہ تاثر(غلط یا صحیح) پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں اور وعدے کر کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ 2008 ء کے الیکشن سے قبل مسلم لیگ(ن) نے الیکشن بائیکاٹ پر سب سیاسی جماعتوں کو راضی کیا ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی میاں صاحب کے وعدوں پر اعتبار کر بیٹھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف نے تو بائیکاٹ برقرار رکھا لیکن مسلم لیگ(ن) الیکشن لڑنے نکل پڑی۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والے معاہدے''میثاق جمہوریت'' پر دونوں نے کس حد تک عمل کیا عوام کے سامنے ہے۔

ایک وقت تھا جب مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کو سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے کا ماہر سمجھا جاتا تھا، ان کی وفات کے بعد سے اب تک کوئی ایسا سیاستدان سامنے نہیں آسکا جو نوابزادہ صاحب کی مانند سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر ہو اور سیاسی جماعتوں کو اس پرا عتماد ہو۔

مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے نام پر جو اتحاد بنایا درحقیقت وہ ان کی تخلیق نہیں ہے بلکہ موجودہ سیاسی صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو ''ایک نکاتی ایجنڈہ'' کی تکمیل کی خاطر ایک پلیٹ فارم چاہئے تھا ، پی ڈی ایم بننے کے بعد سے ابتک اس میں اختلافات کی خبریں آتی رہی ہیں جبکہ میاں نواز شریف نے اسی پلیٹ فارم کے تحت ہونے والے ایک جلسہ میں فوجی قیادت کے نام لیکر سخت ترین تقریر کر کے اس اتحاد میں مزید دراڑیں ڈال دی تھیں کیونکہ پیپلز پارٹی سمیت متعدد جماعتیں یہاں تک کہ خود مسلم لیگ(ن) کی اکثریت بھی اسٹیبلشمنٹ سے اس حد تک محاذ آرائی کے خلاف ہے۔

میاں نواز شریف اپنے خاندان اور اہم رہنماوں کے خلاف جاری ''احتساب'' کی وجہ سے سخت پریشان ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر موجودہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں خواہ وہ جمہوری طریقے سے رخصت ہو یا پھر جمہوریت ہی کیوں نہ رخصت ہو جائے۔ مسلم لیگ(ن) نے اسی تناظر میں لانگ مارچ سے قبل استعفوں کی بات چھیڑی ہے جسے پیپلز پارٹی نے یکسر مسترد کردیا ہے۔

پی ڈی ایم اجلاس میں آصف علی زرداری کی تقریر سیاسی دھماکہ تھی ،انہوں نے استعفوں کو میاں نواز شریف کی واپسی سے منسلک کر کے مسلم لیگ (ن) کو گھیر لیا ہے کیونکہ میاں صاحب نے واپس نہیں آنا اور یوں استعفے نہیں دینے۔ آصف علی زرداری کی تقریر نے مسلم لیگ(ن) کو سیاسی نقصان پہنچایا ہے اور شاید اسی وجہ سے مریم نواز نے نام لئے بغیر پیپلز پارٹی قیادت پر سخت تنقید کی ہے جس کا جواب بلاول بھٹو زرداری نے بھی استعاروں میں لیکن سخت الفاظ میں دیا ہے ۔

پیپلز پارٹی استعفے دینے کے خلاف ہے اور وہ سندھ حکومت چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔بادی النظر میں اس وقت پی ڈی ایم اتحاد غیر اعلانیہ طور پر مفلوج ہو چکا ہے دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت ایکدوسرے سے صف آراء ہے، اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال کو انجوائے کررہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی کیلئے مقتدر حلقوں میں سافٹ کارنر میں وسعت آئی ہے ۔

پیپلز پارٹی کی اس نئی سیاسی چال نے صرف مسلم لیگ(ن) کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی پریشان اور خوفزدہ کردیا ہے۔ دونوں ہی یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ شاید پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں کسی طور کا کوئی سمجھوتہ ہو رہا ہے ویسے بھی انہیں معلوم ہے کہ ''دلہن وہی جو پیا من بھائے'' اس لئے دونوں ہی سہمی ہوئی ہیںکہ پیپلز پارٹی میلہ نہ لوٹ لے۔ حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری کے خلاف نئی احتسابی کارروائی بھی شاید اسی خوف کا مظہر ہے ۔

اسٹیبلشمنٹ نے شدید ترین تنقید اور سیاسی مخالفت برداشت کرتے ہوئے موجودہ حکومت کا ہر ممکن دفاع کیا ہے، استعداد سے بڑھ کر حکومت کی راہوں سے کانٹے چنے ہیں لیکن حکومتی ٹیم کی کارکردگی اب ایک ایسا بوجھ بنتی جا رہی ہے جسے مزید اٹھانا اب ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر آنے والے دنوںمیں عدالت نے سید یوسف رضا گیلانی کے مسترد شدہ ووٹوں کے کیس میں ان کے حق میں فیصلہ دے دیا اور یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بن جاتے ہیں تو ایک مرتبہ پھر سے سیاسی سونامی آئے گی ۔

فارن فنڈنگ کیس بھی منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے اور حکومت پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ ڈسکہ الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار کی پوزیشن پہلے سے کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہے، اس تمام صورتحال نے سیاسی افق کو بہت زیادہ ابر آلود کردیا ہے، ہر جانب ''دھند'' چھائی ہوئی ہے اور جب حالات ایسے ہو جائیں تو کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا۔

پی ڈی ایم کی اندرونی رسہ کشی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا ایکدوسرے کے خلاف کھل کر آنے سے حکومت کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حکومت بھی مزید کمزور ہو رہی ہے۔ میجر سرجری نہ کی گئی تو بیڈ گورننس اور مہنگائی کا ناسور حکومت کو لے ڈوبے گا۔غیر جانبدار عوامی سروے کروائے جائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ ہر خاص وعام اس حکومت سے ناراض اور غیر مطمئن ہے ،آئی ایم ایف کے دباو میں کئے جانے والے معاشی فیصلے مہنگائی کی شرح میں اضافہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف اور کابینہ کی بڑی تعداد اس بات کی متمنی ہے کہ سینیٹ الیکشن ہارنے کے بعد حفیظ شیخ کو وزارت سے تبدیل کر کے اسد عمرکو وفاقی وزیر خزانہ بنایا جائے۔ اس خواہش کے پس منظر میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ اسد عمر نے بطور وفاقی وزیر خزانہ عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر ایسے اقدامات کرنے میں مزاحمت کی تھی جن سے عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھتا۔ اطلاع ہے کہ عمران خان حفیظ شیخ کو سینیٹر بنوانے کیلئے ایک نیا قانونی راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن خان صاحب کو یہ ادراک نہیں کہ ان کی اپنی پارٹی اور کابینہ ان کی اس کوششوں پر دل سے راضی نہیں ہے۔

26 مارچ کو مریم نواز کی نیب آفس میں پیشی ایک بڑا سیاسی ایونٹ بن سکتی ہے کیونکہ پی ڈی ایم رہنما بھی ان کے ساتھ جا رہے ہیں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو بھی تیار کیا جارہا ہے۔اس سے قبل بھی مریم نواز کی پیشی پر پولیس اور کارکنوں کے درمیان پتھراو ہو چکا ہے۔

اس مرتبہ حکومت کا رویہ بھی سخت دکھائی دے رہا ہے اور پیشی کے موقع پر پولیس اور کارکنوں میں تصادم کو روکنے کیلئے ہی نیب نے رینجرز تعیناتی کی درخواست کی ہے جو مان لی جائے گی شاید۔ سیاست میں تشدد کا عنصر روکنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور حکومت کو اپنا کردار ذمہ داری سے نبھانا چاہئے ۔اب یہ نظام حکومت کسی نئے سانحہ ماڈل ٹاون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان موجودہ تلخی اور کشیدگی کے باوجود فی الوقت یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکھٹا چلیں گی اور باضابطہ طور پر علیحدگی کا اعلان نہیں ہوگا لیکن استعفوں کے معاملے پر مستقبل قریب میں ایک پیج پر ہونا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ حکومت کے پاس اب غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے اسے کارکردگی بہتر بنانا ہوگی ،شاید اسی لئے سینیٹ الیکشن کے بعد پنجاب میں وسیع پیمانے پر سول اور پولیس بیوروکریسی کے تقرر وتبادلوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ کابینہ ارکان اپنے محکموں کے معاملات میں سنجیدگی سے کام کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں