بلوچستان میں خشک سالی کاعفریت

بلوچستان کے کئی اضلاع میں خشک سالی نے انسانوں، مویشیوں اورکھڑی فصلوں کو یکساں متاثر کیا ہے

اس وقت بلوچستان کے اکثر حصے خشک سالی سے متاثر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

''کئی ماہ کی خشک سالی سے گندم برباد ہوچکی ہے۔ اب ہم نے مویشیوں کو کھیتوں میں چھوڑدیا ہے تاکہ اس تباہ شدہ فصل سے ہمارا نہیں توکم ازکم ان بے زبان جانوروں کا پیٹ ہی بھرجائے۔'' پیاس سے چٹختے کھیتوں کے مالک، حمل رودنی نے مجھے فون پر بتایا۔

اس وقت بلوچستان کے اکثر حصے خشک سالی سے متاثر ہیں لیکن اب تک 'ہماری پاوری ہورہی ہے جو ختم نہیں ہوپارہی'۔ اور دوسری جانب سینیٹ انتخابات میں ضمیر فروشی کے چرچوں، سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے عدم برداشت اور ٹویٹر پر شرمناک ٹرینڈز کا چرچا ہے۔ روایتی میڈیا کو ہوش کہاں کہ بلوچستان کا نوحہ پڑھے۔ اس کی آنکھوں کا ٹیسٹ کرایا گیا تو اسے بلوچستان میں سونا چاندی، پیتل اور تیل توخوب نظر آیا لیکن بھوک، بیماری اور ناخواندگی سے مجروح بلوچستان کے باشندے اسے دکھائی نہیں دیتے۔

پھر سی پیک کے ثمرات بھی بلوچستان سے ابھی بہت دور ہیں اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو واشک کے لوگوں کے دن بدلیں گے بھی یا نہیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔



بلوچستان میں خشک سالی کی وجہ آب وہوا میں تبدیلی ہے اور اس بلا کا انگریزی نام کلائمیٹ چینج ہے۔ اس وقت بلوچستان میں دو برس سے بارشیں نہیں ہوئیں۔ ہمیں ٹیلی فون پر حمل رودنی نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ہرموسم کا رنگ شدید ہوگیا ہے۔ سردی اذیت ناک ہوجاتی ہے تو کبھی بارش سیلاب میں ڈھل جاتی ہے۔ کہیں گرمی غضب ڈھاتی ہے تو کبھی بارشیں روٹھ جاتی ہیں۔ یہی وہ موسمیاتی شدت ہے جس نے پورے پاکستان کو اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن واچ کے مطابق پاکستان کلائمیٹ چینج سے متاثرہ سات بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اب اسے بلوچستان کے کئی اضلاع کے چرواہے اور کسان بھی جھیل رہے ہیں لیکن وہ اس کی سائنس سے ناواقف ہیں کیونکہ انہیں اپنی بقا کی فکر لاحق ہے۔

حمل نے بتایا کہ پہلے پیاز اور کپاس کی فصلیں کمزور ہوگئی تھیں۔ اب بارش نہ ہونے سے کھڑی گندم میں کیڑے مکوڑے امڈ آئے ہیں جسے اب جانور کھا رہے ہیں۔ ہر موسم نے شدت دکھائی جس سے زراعت تباہ ہوچکی ہے۔

''اگر دو تین ماہ یہ سلسلہ جاری رہا تو بے زبان مویشیوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور بربادی اپنی انتہا پر ہوگی۔'' حمل رودنی نے بتایا۔

جب ان سے ٹٰیوب ویل کی تنصیب کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اول تو علاقے میں بجلی کی فراہمی میں غیرمعمولی تعطل ہے اور حکومت نے 2007 سے ٹیوب ویل اور بجلی پر سبسڈی ختم کردی ہے۔ رہا سوال شمسی بجلی گھر کا، تو ایک ٹیوب ویل چلانے کےلیے 15 سے 16 لاکھ روپے درکار ہیں، جو عام کسان کی سکت سے باہر ہے۔ اس گاؤں میں 40 سے 50 گھرانے ہیں اور چند زمینوں پر ہی شمسی سیل نصب ہیں۔


چار مارچ کو محکمہ موسمیات نے اس سال ماہ جنوری کو 1961 کے بعد سے سترہواں خشک ترین مہینہ قرار دیا ہے۔ اس کا اثر بلتستان سے لے کر بلوچستان تک میں بالخصوص زراعت پر نمایاں رہا۔ لیکن بلوچستان میں یہ مظہر عروج پر تھا جہاں موسمِ سرما کی بارشیں سب سے کم رہیں۔ تاہم موسمیاتی ماہر، سردار سرفراز نے کہا کہ اب بھی مارچ کا مہینہ باقی ہے جس میں بارش ہوسکتی ہے اور پنجاب میں اس کا اثر دیکھا گیا ہے لیکن بلوچستان اب بھی پیاسا ہی ہے۔

واشک کے ایک اور دیہات کے رہائشی نبی بخش نے بھی خشک سالی سے متاثرہ گندم کی برباد ہوتی ہوئی فصل کا نوحہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ میرے کھیت میں ٹیوب ویل تو ہے لیکن اسے چلانے کےلیے بجلی درکار نہیں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے دیگر زرعی علاقوں میں عین یہی صورتحال ہے۔



''علاقے میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور مریضوں کو کوئٹہ یا کراچی لے جانا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر نصیب میں شفا ہو تو ٹھیک ورنہ واشک میں ہی اس بیمار کی قبر بنتی ہے۔'' نبی بخش نے ڈوبتے لہجے میں بتایا۔

حمل رودنی اور نبی بخش نے مقتدر حلقوں سے کہا کہ علاقے کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ انہوں نے ٹیوب ویل کی تنصیب میں حکومتی مدد، بجلی میں سبسڈی اور سولر پاور پلانٹ پر بھی زور دیا۔ تاہم نبی بخش نے علاقے میں ڈیم کی تعمیر کی تجویز بھی دی ہے۔

لیکن یہاں میں پلاٹ پر جھپٹنے، سرکاری خرچ پر حج کرنے اور ایک ہی موضوع پر دس دس پروگرام کرنے والے اینکروں سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ بلوچستان کے مسائل پر لب کشائی کب کرو گے؟

مارگلہ پہاڑیوں کے غاروں کے غلام منصوبہ سازوں تمہیں تڑپتا بلکتا بلوچستان نظر کیوں نہیں آتا؟ طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں تم بلوچستان کب جاؤ گے؟

کب؟ جب بلائیں بلوچستان کو چاٹ جائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story