کورونا کے پھیلاؤ میں خطرناک اضافہ ایس او پیز پر عمل کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت

حکومت اپنی ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کے لیے سخت ترین اقدامات کرے۔

حکومت اپنی ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کے لیے سخت ترین اقدامات کرے۔فوٹو : فائل

ملک میں طبی ماہرین کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے اب وہ حقیقت بن کر قوم کے سامنے آگئے ہیں ۔کوویڈ 19کی تیسر ی لہر بڑی تیزی کے ساتھ سندھ سمیت ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔اس لہر میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بھی اس وبا کا شکار ہوئے ہیں۔

سندھ سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر این سی او سی کے خصوصی اجلاس میں ان تمام سرگرمیوں پر پابندیوں میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا جن سے کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اپنے ویڈیو پیغام میں کورونا کی تیسری لہر میں شدت کے حوالے سے ایس اوپیز پر سختی سے عمل کروانے پر زور دیا اور کہا کہ ایس او پیز پرعملدرآمد نہ کرنے پرقانونی کارروائی ہوگی ۔ این سی او سی کے فیصلے کے مطابق کاروباری سرگرمیاں ایک مرتبہ پھر رات 8 بجے تک محدود کر دی گئی ہیں جبکہ ہفتے میں دو دن کاروبار مکمل طور پر بند ہوگا ۔

تاہم ابھی تک تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔جس طرح سندھ سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں یہ امر لازمی ہوگیا ہے کہ حکومت اپنی ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کے لیے سخت ترین اقدامات کرے۔

یہ انتہائی افسوسناک صورت حال ہے کہ طبی ماہرین کے بار بار متنبہ کرنے کے باوجود عوام نے کورونا وائرس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا۔ چھوٹے شہروں کی تو بات الگ ہے ملک کے بڑے شہروں خصوصا کراچی میں بھی شہری ماسک کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ سماجی فاصلوں کی پابندی کی بھی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ صورت حال اتنی زیادہ تشویشناک ہے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ کردیا۔

پی ایم اے کے مطابق اس وقت ملک میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19کی ویکسی نیشن کا عمل ضرور شروع ہوا ہے لیکن ابھی اس وبا پر قابو پانے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ حکومت اور عوام جب تک اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیںگے اس وقت تک سندھ سمیت ملک بھر کو ''کورونافری'' نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ طبی مطاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسک لگانا بھی ویکسی نیشن کی طرح ہے۔ اگر شہری ماسک کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو وبا کی روک تھام میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

اس حوالے سے حکومت کو بھی اب سخت اقدامات کرنا ہوںگے کیونکہ ماسک نہ لگانے والا نہ صرف خود بلکہ دیگر افراد کے لیے بھی خطرہ کا باعث ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ماسک نہ لگانے والے افراد پر بھاری جرمانہ عائد کرے اور پولیس کو یہ اختیارات دیئے جائیں کہ وہ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔

سندھ میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں انتہائی اضافہ ہوگیا ہے اور اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ نے ایک حالیہ فیصلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ،جس میں عدالت نے کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے واقعات پر فریال تالپور سمیت 2 ایم پی ایز کی رکنیت معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔اس وقت سند ھ میں سگ گزیدگی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔سرکاری سطح میں کتے کے کاٹنے سے زخمی افراد کے علاج کی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ عدالتی حکم کے بعد کئی علاقوں میں کتوں کو پکڑنے کی مہم بھی شروع کی گئی لیکن وہ بھی صرف نمائشی حد تک جاری ہے۔


سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے فریال تالپور کی معطلی کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں اور خود فریال تالپور نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے۔ان کا اپنی درخواست میں موقف ہے کہ سکھر بینچ کا فیصلہ معطل کیا جائے،عوام کا تحفظ ہم سب پر لازم ہے، ایم پی اے شہری حکومتوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ استدعا ہے کہ سکھر بینچ کے حکم نامے پر نظر ثانی کی جائے۔

ادھر پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ کتے کے کاٹنے کی وجہ سے فریال تالپور کی اسمبلی کی رکنیت معطل کرنے کا حکم قابل تشویش ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم کے حلقے میں ایسے واقعات ہونے پر ان کو معطل کرنے کا حکم ہوگا؟ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر اس مسئلے کو انسانی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود کراچی میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عوامی اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستا ن مسلم لیگ (فنکشنل)نے لیاقت آباد فلائی اوور پر جلسہ کرکے شہر میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے سہراب گوٹھ میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا ،جس سے نثار کھوڑو، سعید غنی، وقار مہدی، شہلا رضا، جاوید ناگوری، آصف خان اور دیگر نے خطاب کیا۔اس موقع پر مختلف برادریوں کی جانب سے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔

ادھر جماعت اسلامی کی جانب سے بھی 28 مارچ کو ہونے والی''حق دو کراچی ریلی''کی تیاریوں کا سلسلہ انتہائی زور و شور سے جاری ہے۔ایم کیو ایم پاکستان 25 مارچ کو اپنے یوم تاسیس کے حوالے سے نشتر پارک میں جلسے کی تیاری کر رہی ہے تو ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی 26 مارچ کو پی آئی بی گروانڈ میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔اس ضمن میں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شہر میں مثبت سیاسی سرگرمیوں کا ہونا خوش آئند ، لیکن فی الوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کو محدود کریں اور سماجی فاصلوںپر عملدرآمد کو یقینی بنائیں ۔

کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249میں ضمنی انتخاب کے حوالے سے تیاریاں جاری ہیں۔ریجنل الیکشن کمشنر کراچی نے الیکشن کمیشن سندھ کو کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں پولنگ اسٹیشنز پر پاک فوج اور رینجرز کی تعیناتی کی درخواست کردی ہے۔ اس حلقے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے استعفے کے بعد خالی ہونے والی اس نشست کے حصول کے لیے تمام جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیزی کردی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بلاول ہاؤس میں ملاقات کی بلاول بھٹو زرداری سے شاہد خاقان عباسی نے این اے 249 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کیلئے پی پی پی کی جانب سے حمایت مانگ لی۔

بلاول بھٹو زرداری نے شاہد خاقان عباسی کو بتایا کہ میں پارٹی سے مشاورت کے بعد آپ کو آگاہ کروں گا۔ادھر امجد آفریدی کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر پی ٹی آئی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور رکن سند ھ اسمبلی ملک شہزاد اعوان نے پارٹی فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی رکنیت سے استعفے دینے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف اس نشست پر ایم کیو ایم کے تعاون کی بھی طلب گار ہے۔

ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم پاکستان کنور نوید جمیل نے نے پی ٹی آئی کے وفد کو اس حوالے سے آگاہ کیا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد تحریک انصاف کو فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال بھی اس نشست سے امیدوار ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی یہاں سے اپنا امیدوار نامزدکرتی ہے یا پھر مفتاح اسماعیل پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔

اگر مفتاح اسماعیل دونوں جماعتوں کے مشترکہ امیدوار ہوئے تو پی ٹی آئی کو اپنی نشست دوبارہ حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال بھی اس نشست کے حصول کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں مسلکی اور برادری ووٹ کسی بھی جماعت کے امیدوار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اس لیے تمام جماعتیں ان ووٹوں کے حصول کے لیے متحرک ہیں۔ امکان یے کہ مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کی تاریخ میں توسیع کر دی جائے یہ الیکشن عید الفطر کے بعد کرائے جائیں۔
Load Next Story