وزیر اعظم کے احکامات نظر انداز حکومت ترقیاتی بجٹ پورااستعمال نہ ہونے پربیوروکریسی پربرہم

650 ارب کے ترقیاتی بجٹ میں سے صرف270 ارب روپے خرچ کیے جا سکے

کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو بیوروکریسی کو احکامات نظر انداز کرنے کی جرات نہ ہوتی، اسد عمر، ۔ (فوٹو: فائل)

وفاقی حکومت نے ترقیاتی بجٹ پوری طرح استعمال نہ ہونے پر بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کیا ہے.

حال میں ہونے والے ایک اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ارکان پارلیمنٹ کے تجویز کردہ منصوبے شروع کرنے کے وزیراعظم کے احکامات نظراندز کرنے پر بیوروکریسی کی سرزنش کی ہے۔

ذرائع کے مطابق ترقیاتی بجٹ کا صرف 42 فیصد ہی خرچ کیا جا سکا ہے اور وزیراعظم کے بیشتر احکامات وزارت منصوبہ بندی کی فائلوں میں دفن ہو چکے ہیں۔

رواں مالی سال کے دوران نہ صرف پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پر عملدرآمد میں مسائل رہے بلکہ متعلقہ وزارتیں وہ فنڈز بروئے کار لانے میں بھی ناکام رہیں جن کی منظوری وزارت پلاننگ اہم منصوبوں کیلئے دے چکی ہے ان میں بھاشا ڈیم، گریٹر کراچی واٹر سپلائی سکیم، کچی کینال اور نولانگ ڈیم شامل ہیں۔

ایک اعلیٰ افسر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اسد عمر نے اجلاس میں ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو بیوروکریسی میں اس کے احکامات نظرانداز کرنے کی جرات نہ ہوتی۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ایک منتخب نمائندہ اپنے حلقے کی ضروریات کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں کی بہتر نشاندہی کر سکتا ہے۔ منصوبوں کے حوالے سے تمام احکامات باقاعدہ منظوری اور جانچ پڑتال کے عمل سے گزرے ہیں۔

اسدعمر کے علاوہ دیگر وزراء کو بھی بیوروکریسی کی کارکردگی پر تحفظات ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی شک ہے کہ بیوروکریسی جان بوجھ کر پی ٹی آئی حکومت کو نیچا دکھا رہی ہے۔


ایک وزیر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں کہا تھا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں ہیں بیوروکریسی جان بوجھ کر ان کی حکومت کو ناکام بنا رہی ہے۔ دوسری طرف بیوروکریسی بھی پی ٹی آئی حکومت سے ناخوش دکھائی دیتی ہے۔

ایک سینئر وفاقی سیکرٹری نے ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے سول سرونٹس کو ن لیگ نواز اور پی ٹی آئی نواز حلقوں میں بانٹ رکھا ہے۔

ذرائع کے مطابق اسد عمر نے ترقیاتی بجٹ کم استعمال ہونے کا معاملہ وزیراعظم اور کابینہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی وزارت کو ہدایت دی ہے کہ وہ وزیراعظم کی طرف سے جاری ہونے والے تمام احکامات اور ان میں کتنے زیرالتوا ہیں کی تفصیل سے انہیں آگاہ کریں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی مخالف رہی ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کی طرح سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کیلئے متوازی نظام اپنا رکھا ہے۔ وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک کمیٹی ایسے منصوبوں کی منظوری دیتی ہے۔

اسد عمر نے اپنی وزارت کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ دیگر وزارتوں کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ ان کے فنڈز پوری طرح استعمال کئے جا سکیں، انہوں نے کہا تیزی سے جاری منصوبوں کیلئے اضافی فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں تاکہ وہ وقت سے پہلے مکمل ہو سکیں۔

انہوں نے کہا صوبائی حکومتوں کو بھی ہیلتھ کیئر اپ گریڈ سکیموں پر کام تیز کرنے کا کہا جا سکتا ہے اور کورونا پروگرام کے وسائل ادھر منتقل کئے جا سکتے ہیں۔

رواں مالی سال کے دوران حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 650 ارب روپے مختص کئے تھے جن میں سے بمشکل 270 ارب روپے یا 42 فیصد خرچ ہو سکے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی 479 ارب روپے کے اخراجات کی منظوری دے چکے ہے۔ ذرائع کے مطابق پاور ڈویژن نے 12 ارب کے مختص فنڈز کے مقابلے میں صرف ابھی تک صرف 1.2 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔

وزارت داخلہ نے 14.8ارب مختص فنڈز کے مقابلے میں 2.3 ارب، وزارت پلاننگ نے 27.1 ارب مختص فنڈز کے مقابلے میں 6.1 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔ وزارت ہاؤسنگ نے 9.6 ارب کے بجٹ میں سے1.7 ارب، وزارت قومی صحت نے11.8 ارب کے بجٹ میں سے2.6 ارب،وزارت آبی وسائل نے 66 ارب کے بجٹ میں سے صرف18 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔ کوویڈ 19 پروگرام کے 70 ارب رپوے پوری طرح استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ایل ون پراجیکٹ کیلئے 6 ارب روپے میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔

دیامر بھاشا ڈیم کیلئے مختص16 ارب میں سے صرف 1.3 روپے خرچ کئے جا سکے ہیں۔ لواری روڈ ٹنل منصوبے کے دو ارب میں سے صرف 32کروڑ دس لاکھ روپے استعمال ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کے برعکس بعض وزارتوں نے اضافی فنڈز کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ این ڈی ایم اے نے 29 ارب، وزارت تعلیم نے4 ارب،وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے6 ارب روپے اور وزارت آبی وسائل نے9 ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے۔
Load Next Story