اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے
پاکستان کا ایٹم بم کوئی نیا ہتھیار نہیں ہے۔
PESHAWAR:
بھارت کے وزیر خارجہ اپنے اسٹاف اور اخبار نویسوں کے ایک ہجوم کے ساتھ پاکستان آئے ہیں یا ایک خاموش دھاوا بولا ہے۔ وہ بہت خوش ہیں، اب وہ پاکستان نہیں رہا جہاں کے اس طرح کے دورے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے یا کبھی آتے تھے تو بڑی ہی احتیاط اور دیکھ بھال کر کے جیسے ان کے قدموں میں کانٹے بچھے ہیں اور انھیں دیکھ دیکھ کر قدم رکھنا ہے۔ اب احتیاط اور رکھ رکھائو کے وہ زمانے گئے' ماضی کا حصہ بن گئے اور جیساکہ سرکاری اور رسمی طور پر ہماری عورت وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے متعلق کئی روائتی مؤقف ترک کر دیے ہیں۔
پاکستان کی حکومت کے ارکان جناب صدر سمیت بھارت کے لیے نرم گوشہ ظاہر کر رہے ہیں جس میں اپوزیشن بھی شامل ہے اور جناب شہباز شریف بھارتی وزیر خارجہ کے اعزاز میں دعوت سجانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ چار پانچ برسوں سے جو حکومت ملک میں قائم ہے، اس کے دل میں بھارت کبھی وہ بھارت نہیں رہا جو جنگوں کے مارے عام پاکستانیوں کا رہا ہے۔
ہم نے بھارت کے خلاف جنگ ہاری یا جیتی ہم ہر حال میں بھارت کے خلاف برسرپیکار رہے۔ جنگ جیت کر مزید جیتنے کی خواہش اور جنگ ہار کر بدلہ چکانے کی خواہش، یہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد رہی۔ کسی وزیر خارجہ کو یہ کہنے کی کبھی جرأت نہیں ہوئی کہ ہم نے ماضی کو بھلا دیا ہے اور بھارت ہمارے لیے اب کوئی اور ملک ہے۔
بھارتی حکومت اس وقت خوشی سے سرشار ہے۔ پاکستان اگرچہ اسے کبھی قابل قبول نہیں رہا، پاکستان کے حالات ایسے رہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بہت ہی محتاط رویہ رکھنے پر مجبور رہا اور اس کے لیے نخرے دکھانے کی کبھی کوئی گنجائش نہیں رہی کیونکہ پاکستان کی حکومت جیسی بھی رہی بھارت کو آنکھیں دکھانے کے لیے کافی تھی لیکن پہلے تو بھارت نے پاکستان کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کر کے پاکستان کو گویا اپنا محکوم بنا لیا اور اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے کسی چھوٹے آدمی کی طرح نامناسب زبان استعمال کی اور ہزار سال کے بدلے لیتی رہی لیکن بھارت نے یہ دیکھ لیا کہ اس کا توڑا ہوا پاکستان نہ صرف زندہ ہے بلکہ وہ ایک ایٹمی طاقت بھی بن گیا ہے۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیا کیے ہندؤوں کا سارا زعم ختم کر دیا اور ان کی زبان اور لہجہ بدل گیا۔
یہ کیفیت جاری رہی اور اگر امریکا بھارت کی مدد کو بروقت نہ پہنچتا تو ضیا الحق افغانستان کے جنگجوؤں کو کشمیر کی وادی میں دھکیل رہا تھا جہاں وہ بھارت کے خلاف اپنی ایمانی اور مال غنیمت کی خواہشیں جی بھر کر پوری کرتے۔ بھارتی اور امریکی پہلے تو ایسی باتیں سنتے رہے لیکن جب انھیں یقین ہو گیا کہ ضیاء الحق سنجیدہ ہے اور منصوبہ بندی کر لی گئی ہے تو امریکا نے بھارت کو بچانے کے لیے ضیاء الحق کو قتل کر دیا۔ بھارت کے لیے ایک مہلک خطرہ ٹل گیا اور اس کی سانس میں سانس آنے لگی لیکن پاکستان کا ایٹم بم موجود تھا اور ہے جو بھارت کے لیے حتمی خطرہ ہے۔ اسی خطرے کو ختم کرنے کے لیے امریکا سازشوں میں مصروف ہے۔
پاکستان کا ایٹم بم کوئی نیا ہتھیار نہیں ہے۔ امریکہ، روس اور دوسرے کئی ملکوں میں ڈھیروں ایٹم بم رکھے ہیں لیکن ان میں سے کسی کے پیچھے کوئی ایمانی اور نظریاتی جذبہ نہیں ہے، صرف کشور کشائی ہے اور اگر یہ ہے بھی تو اس پر کئی سیاسی قدغنیں عائد ہیں۔ پاکستان کا ایٹم بم اعلانیہ طور پر بھارت کے لیے بنایا گیا ہے، یہ جدید ترین خطرہ ہے جو بھارت کو لاحق ہو چکا ہے۔ یہ خطرہ ختم کیے بغیر بھارت آگے نہیں بڑھ سکتا' مہان نہیں بن سکتا۔ وہ جس طرف بھی قدم بڑھاتا ہے، یہ بم اس کے سامنے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
جس کے شانے کے اوپر 'بھارت' جلی حروف میں لکھا ہے۔ ہم تکنیکی اعتبار سے نہ صرف بھارت پر برتری رکھتے ہیں بلکہ اب تو ہم نے دنیا کا سب سے مؤثر میزائل بھی بنا لیا ہے جو دور ترین نشانوں پر ٹھیک ٹھیک لگتا ہے لیکن ہم کسی جارحیت کے قائل نہیں، ہم تو کسی کی جارحیت سے بچاؤ میں لگے رہتے ہیں اور ہمیں بھارتی نیتاؤں کے وہ الفاظ کبھی نہیں بھولتے جو انھوں نے ہم سے پہلے ایٹمی دھماکاکرنے کے بعد کہے تھے۔
ہمیں بھارت کی ان باتوں اور ارادوں سے بچنے کے لیے ایٹم بم کا اعلان یعنی دھماکاکرنا پڑا۔ پاکستانیوں کو یاد ہے کہ ہمارے اس دھماکے کے بعد بھارتی زبانیں گویا ان کی گدی سے باہر نکل کر گر پڑی تھیں۔ امریکا ہمارے ایٹم بم کی دشمنی پر اترا ہوا ہے اور وہ پاکستان میں ایسی کمزور حکومت کے انتظار میں ہے جس کی مدد سے وہ اس بم کو ختم کر دے۔ پرویز مشرف نے تو اس ملک دشمنی کا آغاز کر دیا تھا لیکن قدرت نے اس کو یہ موقع نہیں دیا اور ہم بچ گئے۔
میں اس وقت تفصیلات میں جا کر آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ پاکستان کے عوام پہلے سے ہی اس قدر پریشان ہیں کہ اب ایک تنکے کی گنجائش بھی نہیں ہے لیکن میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ الیکشن اگر ہوتے ہیں تو وہ پولنگ اسٹیشن کی طرف پھونک پھونک کر قدم رکھیں، دشمن گھات میں ہے اور ہمارے سیاستدان انھیں کچھ اور نہ کہیں تو احمق اور لالچی ہیں۔ حماقت اور لالچ ناقابل علاج امراض ہیں۔ پاکستانی ووٹر نہ صرف امیدواروں کو ذہن میں رکھیں جنھیں وہ خوب جانتے ہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کو بھی کڑی نظر سے دیکھیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو بہت ہی جلدی میں ہیں اور اپنی ہتھیلیوں پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ سیاستدان ہوں یا ان کی سیاسی جماعتیں پاکستانی عوام کے لیے لازم ہے کہ ذرا سی غلطی بھی نہ کریں، ملک کے حالات جس مقام تک پہنچ گئے ہیں ،کسی مہم جوئی کی گنجائش نہیں ہے۔ شاید اس لیے کچھ لوگ یہ تک بھی کہتے ہیں کہ یہ آخری الیکشن ہوں گے لیکن میں ایک بات عرض کر دوں کہ ہمارے اندر غدار یا پاکستان کو سنجیدہ نہ لینے والے بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے عوام بہت احتیاط سے کام لیں یوں کہیں کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔