بدھو کا آوا اور 100 بچوں کا دادا

پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد یتیم بچے ہیں، جن کی اکثریت عدم توجہی اور معاشرے کی بے اعتناعی کے باعث گرد میں کھو جاتی ہے


شیخ محمد افضل نے اپنی 136 کینال زمین یتیم بچوں کا آشیانہ بنانے کےلیے وقف کردی۔ (فوٹو: فائل)

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے مرکزی دروازے کے سامنے جی ٹی روڈ پر لاہور کا ایک تاریخی مزار ''بدھو کا آوا'' ہے۔ اس مزار کے اطراف میں شہر لاہور کا ایک قدیم قبرستان بھی ہے۔ اس قبرستان میں لاہور کے کئی نامور شرفا، کاروباری شخصیات، صنعتکار اور اہم افراد مدفون ہیں۔ میں کبھی کبھار اس قبرستان میں جاتا ہوں، قبروں کے کتبے پڑھتا ہوں اور ان کتبوں کی روشنی میں اگر کوئی اہم شخصیت دکھائی دے تو مال روڈ پر بنی سرکاری لائبریری سے ان شخصیات کو کھوجنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اپنے دور کی معروف شخصیات، جن کے نام سے آج شاید کوئی بھی واقف نہیں ہے، گمنامی کے اندھیروں میں منوں مٹی تلے دفن ہیں۔ لیکن اسی قبرستان میں اپنے دور میں غیر معروف عہد حاضر کی معروف شخصیات سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ وہ افراد ہیں جو اپنے زمانے میں کسی خاص مقصد کےلیے جیے، جو کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی وجہ بنے اور یہی مسکان انہیں آج بھی دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

میری کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کے موجودہ دور کے سپر ہیروز سے ملاقات کروں۔ ان لوگوں کے ہاتھوں کو بوسہ دوں جو دوسروں کی تقدیر سنوارنے میں مگن ہیں۔ میری یہی کھوج مجھے لاہور سے 60 کلومیٹر دور شیخوپورہ کے ایک گاؤں لے گئی، جہاں میری ملاقات ایک ایسے سپر ہیرو سے ہوئی جو اپنوں کی بے پرواہی کے باعث دس سال تک اولڈ ایج ہوم میں رہی۔

یہ سپر ہیرو شیخ محمد افضل ہیں، جنہوں نے اپنی 136 کینال زمین یتیم لیکن باہمت بچوں کا آشیانہ بنانے کےلیے وقف کردی۔ ان کی اسی زمین پر باہمت بچوں کےلیے 25 کمروں پر مشتمل آغوش ہاسٹل مکمل ہوچکا ہے، جبکہ عالمی معیار کا ایک تعلیمی ادارہ بھی زیر تعمیر ہے ۔ میں گزشتہ دنوں جب یہاں پہنچا تو دور دراز گاؤں میں ایک پرفضا مقام پر جدید ہاسٹل، اسکول اور کمپیوٹر لیب دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اسی آغوش سینٹر کے ساتھ سپر ہیرو شیخ محمد افضل ہی کی تین ایکڑ اراضی پر یتیم بچیوں کےلیے ہاسٹل بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ میں جب اس سپر ہیرو کے کمرے میں پہنچا تو سینٹر کے بچوں نے انہیں گھیر رکھا تھا۔ وہ بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ ان کے 100 پوتے ہیں، جن کے ساتھ رہ کر وہ 90 سال کی عمر میں بھی خود کو جوان اور توانا محسوس کرتے ہیں۔



میرے سینٹر میں پہنچتے ہی بچوں کی نماز اور کھیل کا وقفہ ہوچکا تھا۔ پانچ سال سے بارہ سال تک کے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ یہ بچے جنہیں معاشرے نے نظر انداز کردیا تھا، جن کے مستقبل کا کوئی تعین نہیں تھا، ان ہیروں کےلیے ایک بہترین گھر، تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیوں کا انتظام جہاں کارِ خیر ہے، وہیں یہ موقع اللہ کی جانب سے نوازے گئے بندوں کے حصے میں آتا ہے۔ میں شیخ محمد افضل کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھا کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے عہدیدران آن پہنچے۔ وہ مجھے سارا سینٹر دکھانا چاہتے تھے۔ اسی دوران میرے صحافیانہ رگ پھڑک اٹھی۔ میں اس سینٹر کی خرابیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ان سے بچوں کے رہائشی کمروں میں جانے کی فرمائش کی۔ میرا خیال تھا کہ بچوں کے کمرے جیسے گھروں میں ہوتے ہیں، ایسے ہی ہوں گے، مجھے تنقید کا موقع مل جائے گا۔ لیکن پانچ سال کے بچوں کے کمروں سے آغاز کیا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کے بستر جس قرینے سے بچھے تھے، کمبل اور تکیے جس انداز میں تھے، میرا خیال تھا کہ کسی ملازم نے ان کی آرائش کی ہوگی، لیکن بعد میں بچوں نے خود مجھے بتایا کہ وہ اپنے کمروں کی صفائی اور بستروں کا خیال خود رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ الماریوں میں کپڑوں کی آرائش بھی انہی کے ذمے ہوتی ہے۔ میں نے کچن تک رسائی کی اجازت مانگی، جو فوری مل گئی۔ لیکن وہاں سے بھی کوئی خرابی تلاش کرنا میرے لیے ناممکن تھا۔ یوں کہہ لیجئے کہ فائیو اسٹار ہوٹلز کے کچن میں خرابیاں تلاش کی جاسکتی ہیں مگر آغوش میں ایسی کوئی بھی غلطی کوشش کے باوجود نہیں ملی۔ کمپیوٹر لیب، سی سی ٹی وی کا نظام، کلاس رومز، لائبریری اور مسجد، ہر مقام سلیقہ شعاری کا نمونہ پیش کررہا تھا۔ شاید یہی انتظامات تھے کہ شیخ محمد افضل آج بھی اپنی زمین عطیہ کرنے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔



پاکستان، جہاں 50 لاکھ سے زائد یتیم بچے ہیں، جن میں سے اکثریت کی زندگی عدم توجہی اور معاشرے کی بے اعتناعی کے باعث گرد میں کھو سی جاتی ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ یہ 50 لاکھ ایٹم بم ہیں، جنہیں نتائج کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ ہر انتہائی قدم اٹھانے کےلیے تیار ہوتے ہیں۔ اگر معاشرہ انہیں اپنا لے، ریاست انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لے تو یہ وہ خام سونا ہیں، جو کندن بن کر ملک کی تقدیر سنوار سکتے ہیں۔ لیکن ان پچاس لاکھ یتامیٰ میں سے محض چند لاکھ ہی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی پناہ میں آتے ہیں۔ الخدمت فاونڈیشن جو یتامیٰ کی ایک بڑی آرگنائزیشن ہے، اس نے بھی محض 15 ہزار کے قریب یتیم بچوں کو اپنا رکھا ہے۔ اسی طرح ایدھی فاونڈیشن، پاکستان بیت المال اور دیگر ادارے بھی چند ہی سروں پر دست شفقت رکھ سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی شیخ افضل جیسے سپر ہیروز بنیں تاکہ بدھو کے آوا قبرستان میں موجود گمنام قبروں میں دفن نہ ہوں بلکہ جب ہم مٹی بن جائیں تب بھی ہمارا نام یاد رکھا جائے۔ یہ تمام خواہشات اور خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوں گے جب ہم کسی مقصد کے تحت اپنا سفر حیات شروع کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں