صدرزرداری کا چارسالہ رزم نامہ

دہشت گردی پر قومی پالیسی مرتب کی اور پارلیمنٹ کے اتفاق رائے سے اسے جنرل کیانی کی تحویل میں دے دیا۔۔۔۔۔

یہ ایک کرشمہ ہے ، یا تاریخ کا معجزہ یا ایک فرد کا رزم نامہ۔چار سال پورے ہو گئے قصر صدارت میں،جنرل اسکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کی غلاظتوں سے لتھڑے ایوان صدر کو صاف کرنے کا فریضہ آصف علی زرداری نے اپنے کاندھوں پر ڈالا اور اسے پورا کر دکھایا، وہ اکیلا تھا ، اکیلا ہے، اور شاید اکیلا ہی نظر آئے گا مگر اس نے اپنی سیاسی تنہائی کو دور کرنے کا ایک نیا گر آزمایا۔کہ چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو، اس نے اے این پی، ایم کیو ایم، ن لیگ، مسلم لیگ ق اور کئی چھوٹے بڑے طبقات کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا ، ن لیگ کو شک گزرا کہ یہ تو اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ، سو اس نے اپنی الگ راہ پکڑی مگر وہ زرادری کو تنہا نہ کر سکی۔

زرداری مزید مضبوط ہوتا چلا گیا۔راز داری کا سبق کوئی زرادری سے سیکھے، وہ کیا کرنے والا ہے، اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیںہو پاتا مگر اس کے ساتھ کون کیا کرے گا، کب کرے گا، یہ سب کے علم میں ہوتا ہے، اس کی اپوزیشن بچگانہ حرکتیں کرتی ہے، بھونڈی سیاست کرتی ہے، سیاست جنرل جیلانی کو کب آتی تھی ، وہ تو صرف حکم چلا سکتا تھا، ڈنڈا ہلا سکتا تھا، سیاست میں زبان بھی ہلتی نظر نہیں آتی، سیاست ضیاالحق کو کیا آتی ، اسے تو محض دعا ئیں آتی تھیں ، سو اس نے ڈھیروں دعائیں مانگیں اور اپنی زندگی دان کر دی، کسی شبھ گھڑی میں مانگی جانے والی دعا قبول ہو گئی ، ورنہ جنرل ضیاالحق اپنے عصائے مارشل لا سے اب تک قوم کو ہانک رہا ہوتا، اس کے پیچھے فوج کی طاقت تھی، وہ برملا کہتا تھا کہ فوج میری کانسٹی چیونسی ہے۔

فوج کی یہی رعونت اس نے ایک سیاست دان میں منتقل کر دی، یہ سیاست دان فوجی تو تھا نہیں ، فوج اس کی کانسٹی چیونسی تو تھی نہیں، سو وہ نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا ، گھاٹ گھاٹ کا پانی اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا، ایسا بن باس کہ دشمن کوبھی اس پر ترس آ گیا اور وہ اس کے ساتھ میثاق جمہوریت پر آمادہ ہو گیا۔مگر جمہوریت اس کی گھٹی میں تھی نہیں، وہ نورتنوں کے نرغے میں اپنے آپ کو مغل اعظم تصور کرتا ہے، ایک زرداری ہے کہ جو پارٹی میں دور دور تک دکھائی نہ دیتا تھا، محترمہ بے نظیر شہید ہوئیں تو وہ پاکستان آیا، ایک قیامت کا عالم تھا،ملک پر دھوئیں کے کثیف بادل چھائے تھے، ایساہنگامہ برپا تھا کہ اس پر قابو پانے کے لیے کسی ذہن رسا کو ایک ہی تدبیر سوجھی کہ پورے ملک کے پٹرول پمپ بند کر دیے جائیں، لوگ گھر سے نکل ہی نہ سکیں۔

لیکن پٹرول ڈنڈا برداروں کی ضروت تو تھا نہیں،ملک جل رہا تھا، لوٹ مار کا عالم تھا، اس ہنگام میں زرداری نے صف ماتم پر بیٹھے بیٹھے للکارا مارا کہ پاکستان کھپے!پاکستان کھپے!اور وہ اس نعرے کو عملی تعبیر دینے میں آج تک کامیاب دکھائی دیتا ہے۔زرداری نام کا شخص وفاق کی علامت ہے، صدر کا عہدہ بہر حال وفاق کی علامت ہوتا ہے،مگر غلام اسحاق خان، فاروق لغاری اور رفیق تارڑ بھی صدر تھے جو وفاق کی روح سے عاری تھے، غلام اسحاق خان نے وفاق پاکستان کے مینڈیٹ پر چھری چلائی، ایک چھری سے وہ خود بھی اپنی شہہ رگ کاٹ بیٹھا، فارق لغاری نے اپنی پارٹی کی حکومت برطرف کی اور اگلی حکومت نے اس کے اقتدار کا گلا گھونٹ دیا۔

رفیق تارڑ وہ صدر ہے جو آخری وقت تک مارشل لا حکومت کے ساتھ چلتا رہامگر زرداری نے مارشل لا کی علامت جنرل مشرف کے خلاف ایسا پتا پھینکا کہ مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور زمام اقتدار زرداری کے اپنے ہاتھ میں آ گئی، کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زرداری نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ایک روز آئے گا جب ایوان صدر میں بھی بھٹو کے نعرے گونجیں گے۔اور یہ دن بہت جلد لیکن بڑے ڈرامائی انداز میں آہی گیا۔اور پھر کون تھا جس نے زرداری کو یہاں سے نکالنے کے لیے زور نہیںلگایا۔اس نیکی میں ہر کوئی پیش پیش تھامگر کسی کی پیش نہ چلی۔کوئی تدبیر کارگر نہ ثابت ہوئی،ہر وار خالی گیا، ہر بار اس قدر دھول اڑائی گئی کہ منظر گدلا گیا مگر اندر سے زرداری مسکراتا ہوا نکلتا۔اور اگلے وار کے لیے سینہ تانے کھڑا نظر آتا۔


کہتے ہیں ایک وقت ایسا آیا کہ زرداری ساری رات بندوق کے ٹریگر پر ہاتھ رکھ کر ایوان صدر میں پہرہ دیتا، جن لوگوں نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہو ، وہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے، سو اس شخص کو اخباری سرخیوں اور اینکروں کی حشر سامانیوںکا کیوںخوف وخطر ہوتا۔ وہ کہتا تھا مجھے تاریخ کے صفحات میں زندہ رہنے کا فن آتا ہے اور اس نے جو کیا وہ زندہ جاوید ہو گیا۔کوئی حاکم اپنے اختیارات سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا مگر زرداری نے اپنا ہر اختیار جو آئین میں آمروں نے اپنے نام کر رکھا تھا، عوام کی منتخب حکومت کو واپس کر دیا۔ آئین بنانا بہت مشکل کام ہے ۔

آئین میں ترمیم اس سے بھی مشکل اور اس ترمیم کو نکا لنا نا ممکن تصور کیا جاتا ہے، یہ ترمیمیں غیر جمہوری اور فوجی حکمرانوں نے کی تھیں ، انھوں نے آئین کا حلیہ ہی مسخ کر دیا تھا۔میثاق جمہوریت پر محترمہ نے دستخط کیے تھے تو اپنی پارٹی کو اس امر کا پابند کر دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر 1973 کے آئین کی روح کو بحال کرے گی۔اس مقصد کے لیے اٹھارویں ، انیسویں اور بیسویں ترمیم کے ذریعے آئین کو مارشل لا اور آمروں کی غلاظت سے پاک کیا گیا اورکمال یہ ہے کہ جو کام صرف دو تہائی اکثریت سے ہونا تھا ، اسے کامل قومی اتفاق رائے اور ایوان کی پوری طاقت کے ساتھ انجام دیا گیا۔ مخالفین کی کوشش یہ تھی کہ حکومت کچھ نہ کر سکے، اس کے ہاتھ پائوں باندھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔

ہر لحظہ نت نئے جنجال میں الجھانے کی کوشش کی گئی، اس کے خاتمے کے لیے دعائیں اور بد دعائیں کی جانے لگیں، طوطے فال نکالنے میں مصروف رہے، اینکروں اور کلینکروں نے اپنی اپنی رانی توپوں کے دہانے کھول دیئے۔مگر حکومت نے صدر کی رہنمائی میں کارناموں کے شاہنامے لکھ ڈالے۔کیا گنوائیں اور کیا نہ گنوائیں،کوئی جانتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ آخری مرتبہ کب ہوا تھا، اس حکومت نے یہ بھی کر دکھایا اور قومی اتفاق رائے سے۔ بلوچستان والے اس ملک سے ناراض تھے، مگر زرداری نے ان سے معافی بھی مانگی ا ور ان کے لیے آغاز حقوق بلوچستان پیکیج بھی روشناس کرایا۔

پارلیمان کی خودمختاری، تخفیفِ غربت کے لیے اقدامات ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، صوبائی خودمختاری،17 وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی اور گلگت بلتستان کے لیے آئینی پیکیج اور ا ب وفاق کی اکائیوں کی محرومی دور کرنے کے لیے نئے صوبوں کی تشکیل کا عزم۔اس صدر نے کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا،ہر کسی کی عزت کی خواہ جواب میں بے قدری ہی ملی، اداروں کی جنگ بھڑکانے میںکسی نے کوئی کسر نہ چھوڑی مگر صدر نے اپنے وزیر اعظم کی قربانی دی، اپنے وزیروں اور قریب تریں دوستوں کی قربانی دی،مگر اداروں کے ٹکرائو کی نوبت نہیں آنے دی۔

دہشت گردی پر قومی پالیسی مرتب کی اور پارلیمنٹ کے اتفاق رائے سے اسے جنرل کیانی کی تحویل میں دے دیا۔کہ وہ جانیں اور ان کام جانے مگر قوم کو ان کی پشت پر کھڑا کردیا ، فوج نے پانچ ہزار افسروں اور جوانوں کی شہادت دی تو قوم نے تیس ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ملکی تاریخ میں بہت سے فوجی آپریشن ہوئے، سبھی ناکامی سے دوچار ہوئے، ایک آپریشن میں ملک دو لخت ہو گیا مگر منتخب حکومت نے سوات اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کی حمایت کی تو چند ماہ میں بے گھر واپس ہو گئے اور امن بھی بحال ہو گیا۔

میڈیا کو ایسی آزادی دی کہ میڈیا نہیں جانتا، اسے ذمے داری کے ساتھ استعمال کیسے کرنا ہے۔صدر نے ہر اتحادی کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایم کیو ایم سندھ میں ان کی فطری حلیف ہے، اس کے ساتھ بہر صورت نباہ کیا۔ گلگت کا نیا صوبہ ، آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت ، ہر ضمنی نشست پر کامیابی،اس سے چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر کا نعرہ ایک زندہ حقیقت بن کر سامنے آیا اور صدر زرداری کو چار سال میں وہ عزت ملی کہ ہر کوئی انگشت بدنداں ہے۔
Load Next Story