پاک بھارت تعلقات میں بہتری
پاکستان میں بار بار کے مارشل لائوں سے نیشنل سکیورٹی اور خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لی....
جب دو ملکوں کے درمیان جنگیں لڑی جا چکی ہوں اور عوام کو سالہا سال یہ بتایا گیا ہو کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے بہت بڑے دشمن ہیں تو تعلقات کی بہتری اور مسائل پر بیش رفت حکومتوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن جاتی ہے جب دونوں ملکوں کے عوام کے ذہنوں میں تاریخ کو مسخ کر کے نفرت کے بیج بو دیئے گئے ہوں تو یہ چیلنج اور بڑا ہو جاتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کو اس وقت اسی چیلنج کا سامنا ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ناصرف دونوں ممالک تعلقات کی بہتری کے لیے کچھ کریں بلکہ کرتے ہوئے نظر بھی آئیں اور ناصرف کرتے ہوئے نظر آئیں بلکہ اپنے عوام کو اس حوالے سے سمجھانے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔
جب بھی بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں' امیدوں کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کشمیر' سرکریک اور سیاچن سمیت تمام امور پر بات بھی کی جائے گی اور پیش رفت ہو گی مگر ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھائی جاتی ہے کہ اپنی اپنی طے شدہ پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھئی جب دونوں اپنے اپنے مؤقف پر اڑے رہیں گے تو مذاکرات کیسے اور پیش رفت کیسی۔ بس یہی حال گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا رہا ہے اور ہرگزرتی دہائی کے ساتھ یا تو ایک جنگ کا اضافہ ہو گیا یا پھر ایک نئے مسئلے کا۔
انڈیا کے وزیر برائے امور خزانہ ایس ایم کرشنا کے حالیہ دورہ پاکستان سے بھی ایسی ہی توقعات لگائی گئیں۔ کشمیر' سرکریک' سیاچن' دہشتگردی' تجارت اور معاشی تعاون' ثقافتی تبادلہ اور ویزوں سمیت تمام معاملات پر بات ہوئی۔ تجارت اور ویزوں میں نرمی کے حوالے سے پیش رفت ایک انتہائی خوش آیند عمل ہے۔ دونوں ممالک میں بسنے والے امن پسند لوگ اس بات کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایک دفعہ عوام سے عوام کا تعلق بذریعہ تجارت بن جائے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک دوسرے کے معاشی مفادات حاوی آنے لگیں تو باقی معاملات بھی آہستہ آہستہ حل کی طرف بڑھیں گے۔
اگر تجارت کا حجم حالیہ 3 ارب ڈالر سے 2015ء میں 5 ارب ڈالر پر پہنچے گا تو کوئی شک نہیں کہ دونوں طرف رویوں میں تبدیلی آئے گی۔ یورپ' امریکہ' کینیڈا اور حال ہی میں انڈیا اور چائنہ ایک دوسرے سے تجارتی حجم میں اضافہ اس بات کی گواہی دیتا ہے، تجارت اور معاشی معاملات کو اگر اولین ترجیح دی جائے تو مسائل کے حل میں پیش رفت کے لیے خوش اسلوبی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے یا پھر کم از کم دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کی سیاست کا زور ٹوٹنے لگتا ہے اور ایسے وقت میں کہ جب پاکستان اور انڈیا دونوں یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ قطعی طور پر ایک آپشن نہیں ہو سکتی تو پھر امن ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔
مگر پاکستان اور بھارت کے کیس میں دو ممالک کے لڑنے کے لیے صرف ان کے درمیان جنگ کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے ذریعے ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کی الزام تراشی بھی دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا سماں پیدا کیے رکھتی ہے اور مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور 2009ء کے بمبئی واقعات کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کم بلکہ پروپیگنڈہ کر کے اس نازک مسئلے سے بدنامی کی کوششیں بہت زیادہ کی گئیں۔
نہ تو انڈیا کی یہ شکایت دور ہو سکی کہ پاکستان انڈیا کے حوالے سے مخصوص دہشتگرد جماعتوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستان کی یہ شکایت کہ بھارت ممبئی حملوں کے حوالے سے تحقیقات میں تعاون نہیں کرتا۔ انڈیا کی شکایت درست اس وقت لگتی ہے جب کالعدم تنظیموں کے رہنما کھل کر پاکستان میں جلسے' جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ امریکااور نیٹو سپلائی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور خود پاکستان میں تجزیہ نگار یہ کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب کسی ادارے کے ایماء پر ہو رہا ہے۔
انڈیا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کھل کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے اور پاکستان ایک ایسا ملک ہوتے ہوئے کہ جس کے 35 ہزار سے زائد شہری دہشت گردی کی نذر ہو گئے، دبائو میں نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے اس صورتحال کے سدباب کرنے اور بھارت کو پروپیگنڈہ نہ کرنے دینے کی کوئی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ دوسری طرف پاکستان کا اعتراض بھی حق بجانب ہے کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف تعاون کرتا نہیں ہے اور صرف پروپیگنڈہ کر کے پاکستان کو بدنام کرنے اور دبائو میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ بمبئی واقعات کے بعد ثبوتوں کی فراہمی میں مسائل اور حالیہ دنوں میں ابو جندل کی گرفتاری اس کی واضح مثال ہے بجائے اس کے کہ پاکستانی حکومت سے یہ معلومات شیئر کی جاتیں' میڈیا پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔
اس وقت پاکستان کے سیکریٹری خارجہ بھارت میں ہی موجود تھے کہ سارا میڈیا ان سے یہ سوالات کرنے لگا اور کیونکہ بھارتی حکومت نے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں دی تھیں تو میڈیا پر خبریں دیکھ کر بھلا پاکستانی سیکریٹری خارجہ کیا جواب دیتے۔ دنیا میں یہ کہاں ہوتا ہے کہ ایک اتنا بڑا واقعہ ہو اور دونوں حکومتیں آپس میں اس پر بات ہی نہ کریں بلکہ ساری دنیا کا میڈیا اس پر تبصرے کرتا پھرے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک بھی ابو جندل کے حوالے سے کوئی معلومات بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ شیئر نہیں کی۔ بھلا تعلقات میڈیا کو انتہائی اہم خبریں لیک کرنے اور اس پر حکومتی سطح پر بات نہ کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہی اعتراض پاکستانی حکومت پر بھی پاکستانی میڈیا میں اٹھایا جاتا رہا۔
کہ کیوں دہشت گردی کے کچھ واقعات' بلوچستان کی صورتحال کی خرابی میں بھارتی مداخلت اور براہمداغ بگٹی کی افغانستان میں موجودگی اور بھارتی سپورٹ پر صرف میڈیا میں شور مچایا جاتا ہے اور ثبوت مہیا نہیں کیے جاتے تاہم یہ تنقید اس وقت ختم ہوئی جب افغانی صدر کو باقاعدہ ثبوت مہیا کیے گئے کہ کس طرح افغان حکومت کے کچھ لوگ بھارت کے ساتھ ملکر براہمداغ بگٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں اور افغانستان میں پناہ دیئے ہوئے ہیں۔ حامد کرزئی نے ثبوتوں کی روشنی میں براہمداغ بگٹی کو افغانستان چھوڑنے کو کہا۔
اسی طرح بہتر ہو گا کہ پاکستانی حکومت دہشتگردی کے بڑے واقعات پر محض عوام میں یہ پروپیگنڈہ نہ کرے کہ اس میں بھارت ملوث ہے بلکہ باقاعدہ ثبوت بھی مہیا کرے اور بھارت اگر مخلص ہے تو ہر قسم کے ثبوت پاکستان کو مہیا کرے۔ وگرنہ بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس انتہائی اہم مسئلہ پر کہ جس سے باقی دوسرے بڑے مسائل کا حل بھی منسلک ہے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت کشمیر' سیاچن اور سرکریک جیسے معاملات پر بھی بات کرنے میں سنجیدہ نہیں اور اس کے موقف میں مزید سختی آئی ہے۔
کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جس بین الاقوامی دبائو کا پاکستان کو سامنا ہے اس دبائو کو اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے مزید بڑھا کر بھارت مذاکرات نہیں بلکہ دبائو کے ذریعے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ممکنہ پاکستانی دورے کے لیے یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ پاکستان اس دورے کے بہتر نتائج کا وعدہ کرے۔ مانا کہ پاکستان پر بین الاقوامی دبائو ہے۔
مانا کہ منموہن سنگھ کی حکومت خود کرپشن کے الزامات کی وجہ سے اندرونی دبائو کا شکار ہے اور اس دبائو کی کمی اور اگلے انتخابات کے لیے کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتی ہے مگر بھلا دنیا میں کہیں دو ملکوں کے سربراہ اس شرط کے ساتھ بھی ملتے ہیں کہ پہلے نتائج طے کریں پھر دورہ ہو گا۔ نتائج تو ملاقاتوں اور مذاکرات کے تسلسل سے حاصل کیے جاتے ہیں نہ کہ پہلے ہی شرائط طے کر دینے سے۔شاندار موقع ہے کہ دونوں ممالک میں جمہوری حکومتیں قریب آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان میں بار بار کے مارشل لائوں سے نیشنل سکیورٹی اور خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لی مگر بہر حال بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے بھارتی حکومت پر اچھا خاصہ دبائو ڈالے ہوئے ہے۔ ضرورت سنجیدگی سے بیٹھ کر دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کی ہے۔ باقی مسائل ساتھ ساتھ حل ہوتے جائیں گے۔ مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کر کے معلومات شیئر کی جائیں نہ کہ میڈیا پر پروپیگنڈہ کر کے مزید بداعتمادی پیدا کی جائے۔
پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کو اس وقت اسی چیلنج کا سامنا ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ناصرف دونوں ممالک تعلقات کی بہتری کے لیے کچھ کریں بلکہ کرتے ہوئے نظر بھی آئیں اور ناصرف کرتے ہوئے نظر آئیں بلکہ اپنے عوام کو اس حوالے سے سمجھانے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔
جب بھی بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں' امیدوں کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کشمیر' سرکریک اور سیاچن سمیت تمام امور پر بات بھی کی جائے گی اور پیش رفت ہو گی مگر ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں یہ بات بھی بٹھائی جاتی ہے کہ اپنی اپنی طے شدہ پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھئی جب دونوں اپنے اپنے مؤقف پر اڑے رہیں گے تو مذاکرات کیسے اور پیش رفت کیسی۔ بس یہی حال گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا رہا ہے اور ہرگزرتی دہائی کے ساتھ یا تو ایک جنگ کا اضافہ ہو گیا یا پھر ایک نئے مسئلے کا۔
انڈیا کے وزیر برائے امور خزانہ ایس ایم کرشنا کے حالیہ دورہ پاکستان سے بھی ایسی ہی توقعات لگائی گئیں۔ کشمیر' سرکریک' سیاچن' دہشتگردی' تجارت اور معاشی تعاون' ثقافتی تبادلہ اور ویزوں سمیت تمام معاملات پر بات ہوئی۔ تجارت اور ویزوں میں نرمی کے حوالے سے پیش رفت ایک انتہائی خوش آیند عمل ہے۔ دونوں ممالک میں بسنے والے امن پسند لوگ اس بات کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایک دفعہ عوام سے عوام کا تعلق بذریعہ تجارت بن جائے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک دوسرے کے معاشی مفادات حاوی آنے لگیں تو باقی معاملات بھی آہستہ آہستہ حل کی طرف بڑھیں گے۔
اگر تجارت کا حجم حالیہ 3 ارب ڈالر سے 2015ء میں 5 ارب ڈالر پر پہنچے گا تو کوئی شک نہیں کہ دونوں طرف رویوں میں تبدیلی آئے گی۔ یورپ' امریکہ' کینیڈا اور حال ہی میں انڈیا اور چائنہ ایک دوسرے سے تجارتی حجم میں اضافہ اس بات کی گواہی دیتا ہے، تجارت اور معاشی معاملات کو اگر اولین ترجیح دی جائے تو مسائل کے حل میں پیش رفت کے لیے خوش اسلوبی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے یا پھر کم از کم دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں کی سیاست کا زور ٹوٹنے لگتا ہے اور ایسے وقت میں کہ جب پاکستان اور انڈیا دونوں یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ قطعی طور پر ایک آپشن نہیں ہو سکتی تو پھر امن ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔
مگر پاکستان اور بھارت کے کیس میں دو ممالک کے لڑنے کے لیے صرف ان کے درمیان جنگ کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے ذریعے ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کی الزام تراشی بھی دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا سماں پیدا کیے رکھتی ہے اور مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور 2009ء کے بمبئی واقعات کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کم بلکہ پروپیگنڈہ کر کے اس نازک مسئلے سے بدنامی کی کوششیں بہت زیادہ کی گئیں۔
نہ تو انڈیا کی یہ شکایت دور ہو سکی کہ پاکستان انڈیا کے حوالے سے مخصوص دہشتگرد جماعتوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستان کی یہ شکایت کہ بھارت ممبئی حملوں کے حوالے سے تحقیقات میں تعاون نہیں کرتا۔ انڈیا کی شکایت درست اس وقت لگتی ہے جب کالعدم تنظیموں کے رہنما کھل کر پاکستان میں جلسے' جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ امریکااور نیٹو سپلائی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور خود پاکستان میں تجزیہ نگار یہ کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب کسی ادارے کے ایماء پر ہو رہا ہے۔
انڈیا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کھل کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے اور پاکستان ایک ایسا ملک ہوتے ہوئے کہ جس کے 35 ہزار سے زائد شہری دہشت گردی کی نذر ہو گئے، دبائو میں نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے اس صورتحال کے سدباب کرنے اور بھارت کو پروپیگنڈہ نہ کرنے دینے کی کوئی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ دوسری طرف پاکستان کا اعتراض بھی حق بجانب ہے کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف تعاون کرتا نہیں ہے اور صرف پروپیگنڈہ کر کے پاکستان کو بدنام کرنے اور دبائو میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ بمبئی واقعات کے بعد ثبوتوں کی فراہمی میں مسائل اور حالیہ دنوں میں ابو جندل کی گرفتاری اس کی واضح مثال ہے بجائے اس کے کہ پاکستانی حکومت سے یہ معلومات شیئر کی جاتیں' میڈیا پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔
اس وقت پاکستان کے سیکریٹری خارجہ بھارت میں ہی موجود تھے کہ سارا میڈیا ان سے یہ سوالات کرنے لگا اور کیونکہ بھارتی حکومت نے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں دی تھیں تو میڈیا پر خبریں دیکھ کر بھلا پاکستانی سیکریٹری خارجہ کیا جواب دیتے۔ دنیا میں یہ کہاں ہوتا ہے کہ ایک اتنا بڑا واقعہ ہو اور دونوں حکومتیں آپس میں اس پر بات ہی نہ کریں بلکہ ساری دنیا کا میڈیا اس پر تبصرے کرتا پھرے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک بھی ابو جندل کے حوالے سے کوئی معلومات بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ شیئر نہیں کی۔ بھلا تعلقات میڈیا کو انتہائی اہم خبریں لیک کرنے اور اس پر حکومتی سطح پر بات نہ کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہی اعتراض پاکستانی حکومت پر بھی پاکستانی میڈیا میں اٹھایا جاتا رہا۔
کہ کیوں دہشت گردی کے کچھ واقعات' بلوچستان کی صورتحال کی خرابی میں بھارتی مداخلت اور براہمداغ بگٹی کی افغانستان میں موجودگی اور بھارتی سپورٹ پر صرف میڈیا میں شور مچایا جاتا ہے اور ثبوت مہیا نہیں کیے جاتے تاہم یہ تنقید اس وقت ختم ہوئی جب افغانی صدر کو باقاعدہ ثبوت مہیا کیے گئے کہ کس طرح افغان حکومت کے کچھ لوگ بھارت کے ساتھ ملکر براہمداغ بگٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں اور افغانستان میں پناہ دیئے ہوئے ہیں۔ حامد کرزئی نے ثبوتوں کی روشنی میں براہمداغ بگٹی کو افغانستان چھوڑنے کو کہا۔
اسی طرح بہتر ہو گا کہ پاکستانی حکومت دہشتگردی کے بڑے واقعات پر محض عوام میں یہ پروپیگنڈہ نہ کرے کہ اس میں بھارت ملوث ہے بلکہ باقاعدہ ثبوت بھی مہیا کرے اور بھارت اگر مخلص ہے تو ہر قسم کے ثبوت پاکستان کو مہیا کرے۔ وگرنہ بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس انتہائی اہم مسئلہ پر کہ جس سے باقی دوسرے بڑے مسائل کا حل بھی منسلک ہے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت کشمیر' سیاچن اور سرکریک جیسے معاملات پر بھی بات کرنے میں سنجیدہ نہیں اور اس کے موقف میں مزید سختی آئی ہے۔
کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جس بین الاقوامی دبائو کا پاکستان کو سامنا ہے اس دبائو کو اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے مزید بڑھا کر بھارت مذاکرات نہیں بلکہ دبائو کے ذریعے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ممکنہ پاکستانی دورے کے لیے یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ پاکستان اس دورے کے بہتر نتائج کا وعدہ کرے۔ مانا کہ پاکستان پر بین الاقوامی دبائو ہے۔
مانا کہ منموہن سنگھ کی حکومت خود کرپشن کے الزامات کی وجہ سے اندرونی دبائو کا شکار ہے اور اس دبائو کی کمی اور اگلے انتخابات کے لیے کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتی ہے مگر بھلا دنیا میں کہیں دو ملکوں کے سربراہ اس شرط کے ساتھ بھی ملتے ہیں کہ پہلے نتائج طے کریں پھر دورہ ہو گا۔ نتائج تو ملاقاتوں اور مذاکرات کے تسلسل سے حاصل کیے جاتے ہیں نہ کہ پہلے ہی شرائط طے کر دینے سے۔شاندار موقع ہے کہ دونوں ممالک میں جمہوری حکومتیں قریب آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان میں بار بار کے مارشل لائوں سے نیشنل سکیورٹی اور خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لی مگر بہر حال بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے بھارتی حکومت پر اچھا خاصہ دبائو ڈالے ہوئے ہے۔ ضرورت سنجیدگی سے بیٹھ کر دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کی ہے۔ باقی مسائل ساتھ ساتھ حل ہوتے جائیں گے۔ مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کر کے معلومات شیئر کی جائیں نہ کہ میڈیا پر پروپیگنڈہ کر کے مزید بداعتمادی پیدا کی جائے۔