راشاراشا ماما گُلہ راشا
صحیح مثال دی ہے ’’رسی جل گئی بل نہیں گئے‘‘۔ ہم تو جاسکتے ہیں لیکن وہ بل نہیں جاسکتے۔
ہشت نگری کا مطلب ہے ''آٹھ دروازوں والی نگری'' پشاور کا یہ علاقہ صدیوں پہلے کا ہے۔ ہشت نگری دروازہ سے داخل ہونے کے بعد مشہور کریم پورہ بازار، مینا بازار، شاہی بازار، چوک یادگار کے پاس فوڈ اسٹریٹ بھی ہے۔
ہشت نگری کا راستہ آخر میں ایک خوبصورت تاریخی مسجد ''مسجد محبت خان'' ہے۔ 1630میں یہ مسجد تعمیر ہوئی پچھی کاری، میناکاری کا دلکش کام اصل حالت میں ہے بلکہ پوری مسجد اصل حالت میں موجود ہے۔ یہ مسجد اپنے دور میں جیسی بنائی گئی آج بالکل اسی حالت میں ہے۔
کریم پورہ بازار کو پشاور کا دل کہا جاتا ہے میں جب کریم پورہ سے آیا تو میرے ایک دوست نے پشتو میں کہا ''زڑوخادے'' (دل صحیح ہے) میں نے کہا ''خادے یرا'' (ٹھیک ہے یار) اس بات سے مجھے صحیح اندازہ ہوا کہ واقعی کریم پورہ بازار پشاور کا دل ہے۔ یہاں مختلف سامان و اشیا کی دکانیں موجود ہیں پررونق بازار ہے۔ گھنٹہ گھر سے آگے ایک پکوڑوں کی دکان 1920 میں قائم ہوئی تیسری نسل دکان چلا رہی ہے یہاں کے پکوڑے بہت مشہور ہیں۔
پشاور کے گھنٹہ گھر (ٹاور) جس کی ایک جانب صرافہ بازار، دوسری طرف منی ایکسچینج والے بیٹھے ہیں۔ سیدھی سمت قصہ خوانی جو کافی تاریخی بازار ہے ادھر جاتی ہے۔ ہشت نگری کے فالودہ والوں کی طرف گیا تو بہت ہی پرانی بات یاد آئی سخت گرمیاں تھیں 1932 کی بات ہے۔ ایک کابلی جو مزدوروں کے لیے آیا وہ ادھر سے گزر رہا تھا فالودہ والا آواز لگا رہا تھا ''راشا،راشا فالودہ خرے، دا غر غر فالودہ، مامی داپارا بولسو ادھو ماما گلہ راشا راشا، دا غر غر فالودہ'' فالودہ فروخت کرنے والا ہر گزرنے والے کو آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔
اس کابلی نے سنا کہ وہ کہہ رہا ہے آجاؤ فالودہ کھاؤ اور ماما گل تم مامی کے لیے بھی لے جاؤ۔وہ دکان کے اندر آیا دکان دار نے اس کو بٹھایا ''دلتا کینا'' (ادھر بیٹھو) وہ بیٹھ گیا اور بولا فالودہ راکا یعنی فالودہ لاؤ۔ وہ بڑے برتن میں ڈالتا گیا بعدازاں اس میں پاس چادر میں بندھی روٹی کوٹ دی اور کھانا شروع ہوا۔
سیر ہو کر اس نے فالودہ کے ساتھ روٹی کھائی۔ سیر ہونے کے بعد وہ دکان سے باہر نکلنے لگا تو دکاندار نے اسے روکا بولا ''پیسے راکا'' (پیسے دو)۔ کابلی بولا ولے؟ (کیوں) ''داخیرات دے'' (یہ تو خیرات ہے)۔ لوگ جمع ہوئے اس کا کہنا یہ تھا کہ اس نے آواز دے کر خود بلایا اور فالودہ کھلایا، اب مجھ سے پیسے مانگ رہا ہے۔ میں تو خیرات سمجھ کر خوب کھاتا رہا، مجھے کیا معلوم یہ فروخت کر رہا ہے۔ میں تو پہلی دفعہ یہاں سے گزرا ہوں، میرے پاس کوئی رقم نہیں، میں تو مزدوری کے لیے آیا ہوں۔
اس وقت جب سرکار کے پاس یہ بات گئی تو فوری ایک ''سائیکلو اسٹائل'' اطلاع نکال کر وہاں مختلف جگہ چسپا کردی گئیں۔ لکھا تھا ''آیندہ کوئی بھی آواز لگا کر نہیں بلائے گا اس طرح فروخت کرنا جرم تصور کیا جائے گا لہٰذا کوئی آواز نہ دے۔'' دستخط ڈپٹی کمشنر پشاور۔ اس پر ایسا عمل ہوا، آواز دینا ختم، جس کی مرضی ہو وہ دکان میں جائے فالودہ کھائے رقم ادا کرے۔ یہ تو تھی ایک پرانی ''پشاکال'' (گرمیوں) کی بات۔ لیکن اب تو ہر موسم میں آوازیں آتی ہیں عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔
میرے دوست نے بڑی پیاری بات کی وہ لوگ تو بے وقوف بنا رہے ہیں لیکن ہم لوگ کیوں بے وقوف بن رہے ہیں؟ سچ کڑوا ہوتا ہے حلق سے بہ مشکل اترتا ہے، سچ بات یہ ہے کہ ہم ان بدکردار، بداعمال، ملک لوٹنے والوں سے اس قدر خائف ہوتے ہیں کہ وہ ملکی اداروں کو جس قدر برا کہیں، تضحیک کریں، اداروں کے افسران کی عزتیں اچھالیں، ان کی بدکلامی، اداروں کے خلاف باتیں پوری دنیا میں سنی جائیں لیکن افسوس، صد افسوس ہم کچھ نہیں کرتے۔ اس لیے کہ شاید ڈرتے ہیں حکومت ڈرے، حکومتی ادارے ڈریں تو ان لوگوں کو مزید موقع ملتا ہے وہبرا بھلا کہنا شروع کر دیتا ہے۔
اگر کوئی چھوٹا آدمی، غریب ایک معمولی، چھوٹی بات غلطی سے بھی کہہ دے اسے پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ کئی سال تک اس کی ضمانت نہیں ہوتی، بیمار ہو، ماں مر جائے یا باپ وہ غریب مقید رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کسی غریب کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی رہی۔ اس ملک میں بہت مثالیں ہیں ایک نہیں سیکڑوں، ہزاروں اس کا صحیح موازنہ جیلوں میں جا کر لگایا جاسکتا ہے کس قدر غریب لوگ بہت چھوٹے چھوٹے جرم پر کئی سال سے بند ہیں حتیٰ کہ ابھی تک ضمانت نہیں ہو رہی۔
بڑے بڑے جرائم پر بڑے بڑے لوگوں کی ضمانت اس طرح ہو جاتی ہے جیسے کسی چمن سے پھول توڑ لیا جائے۔ کوئی مشکل نہیں بلکہ ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے الزام غلط بلکہ جس عدالت نے مجرم کو جرم کا فیصلہ سنایا وہ ان کے لیے مناسب نہیں۔ ان کے حق میں فیصلہ ہو تو بہت اچھا بلے بلے اور اگر خلاف فیصلہ ہوا تو پرخچے اڑانے میں تاخیر نہیں، منٹوں، گھنٹوں میں ان کے مفکر، دانشور، قلم کار، عوامی نمایندگان میدان میں اتر آتے ہیں۔ حکومت، ادارے شاید اس قدر خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ اندرون خانہ ان بداعمال لوگوں سے معافی تلافی کے لیے بھی تیار ہو جائیں۔ وہ ڈرتے کم اور ان کو زیادہ ڈرایا جاتا ہے کہا جاتا ہے بڑی مشکل ہوگی، ہنگامہ ہوگا، حکومت چلانی مشکل ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ معذرت خوا ہوں بات تو کڑوی، کسیلی ہے مگر ہے ایک سوچ۔
جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے چند قلم کاروں نے شکوہ کیا کہ سرکاری دفاتر جاتے ہیں تو وہاں صبح دس بجے کے بعد بھی ملازمین نہیں ملتے۔ جنرل پرویز مشرف بولے آپ لوگ کل جائیے گا۔ یہ قلم کار آپس میں کہنے لگے جنرل صاحب نے اپنی برتری کا احساس دلایاہے مشکل ہے لوگ کل صبح آٹھ بجے ملیں۔ چونکہ آفس کا وقت صبح 8 بجے کا تھا اس لیے دوسرے دن بادل نہ خواستہ صبح ساڑھے آٹھ بجے دفتر پہنچے۔ دیکھ کر سارے ششدر رہ گئے چھوٹے سے بڑا ہر ملازم موجود، معلوم یہ ہوا کہ یہ لوگ صبح ساڑھے سات بجے سے آئے ہیں۔ یہ ہے بالادستی، حکم، نظام وہی دفتر وہی لوگ وہ سب پابند ہوگئے صبح صبح وقت پر دفتر پہنچنے لگے۔
کسی نے سوال کیا اب کیا حال ہے؟ جا کر دیکھ لیں معلوم ہو جائے گا میں یہ کیسے کہہ دوں کہ بعض تو صبح گیارہ بجے کے بعد آفس پہنچتے ہیں کس میں ہمت ہے کوئی ٹوکے اگر کوئی ٹوکے گا تو پھر وہ۔۔۔۔؟
صحیح مثال دی ہے ''رسی جل گئی بل نہیں گئے''۔ ہم تو جاسکتے ہیں لیکن وہ بل نہیں جاسکتے۔