اغوا ریپ اور قتل کی انتہا ہوگئی

بہت سے لوگوں کو عدالت تک رسائی نہیں ہوتی، اس لیے کہ پولیس ان کے مقدمات کی ایف آئی آر نہیں کاٹتی۔

zb0322-2284142@gmail.com

ISLAMABAD:
ویسے تو مردوں کے غلبے والے معاشرے میں یہ عمل ریاست کے وجود کے بعد ہی شروع ہوا اور اس وقت دنیا بھر میں کم و بیش بچیوں ، بچوں اور عورتوں کو اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہاں مگر قرون وسطیٰ اور اولیٰ وسطیٰ میں فاتحین کے لیے لڑکیاں اور عورتیں مال غنیمت کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔

قبل از مسیح تا 17 ویں صدی تک فاتحین نے لاکھوں خواتین اور لڑکیاں اپنی کنیزیں بنائیں اور اب بھی جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں کنیزیں بھی ہیں۔ دور جدید میں چند ملکوں مثال کے طور پر منگولیا ، نیپال ، کیوبا ، بھوٹان ،کمبوڈیا ، لاؤس، اسکینڈینیون ممالک ، بالٹک ریاستیں ، وسطی ایشیا اورکوہ قاف کے علاوہ تقریباً ہر ملک اور جگہ پر لڑکیاں ، لڑکے اور خواتین کا اغوا ، ریپ اور قتل ہوتا ہے۔

ابھی حال ہی میں لندن میں ایک خاتون کی لاش ملنے پر کئی دنوں تک ہزاروں لاکھوں خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس کے چند دنوں بعد جنوبی کوریا میں چار خواتین کی لاشیں ملنے کے خلاف وہاں بھی خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا پولیس سے تصادم بھی ہوا۔ مگر دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں کہ جہاں یہ زیادتیاں زیادہ ہوتی ہیں، جن میں بھارت، نائیجیریا ، بنگلہ دیش ، افغانستان اور پاکستان ہیں۔ پاکستان میں تو اس کی انتہا ہوگئی ہے۔ دنیا میں چند ملکوں میں ریاست کی طرف سے خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا جاتا ۔

پاکستان میں تو ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ یہاں اغوا، ریپ اور قتل نہ ہوتا ہو۔ خواتین پر گھریلو تشدد ، سسرال والوں کی جانب سے زیادتیاں اور قتل تو معمول کا فعل ہے۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو میڈیا پر آتے ہیں اور ہمیں پتا چل جاتا ہے اور جو میڈیا پر نہیں آتے ہم اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ چونکہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد ہے اس لیے وہاں زیادہ قتل ہوتے ہیں مگر بلوچستان میں بھی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا ہے اور اسے روایات کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں تو لڑکیوں کے تالیاں بجانے پر پورے خاندان کا قتل ہو جاتا ہے۔ سندھ میں کاروکاری کے واقعات میں 90 فیصد لڑکیاں ہی قتل ہوتی ہیں۔ ان واقعات کے پس منظر میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔

شادی کے جہیز اور اخراجات زیادہ ہونے پر شادی ہونے میں دیر ہو جاتی ہے۔ بے روزگاری بھی ایک بڑی وجہ ہے اور بے گھری بھی۔ جیساکہ بے روزگاری بہت سی سماجی برائیوں چھینا جھپٹی ، ڈکیتی ، خودکشی ، اغوا ، گداگری ، عصمت فروشی ، امراض اور ناخواندگی وغیرہ کو جنم دیتی ہے۔ اسی طرح لڑکیوں ، لڑکوں اور عورتوں کے ساتھ درندہ صفت حرکتیں مختلف تاریخی پس منظر اور عوامل کے تسلسل میں رونما ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اغوا ، تاوان اور زیادتیاں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن آج کل بچوں کو قتل کرنا معمول کی بات بن گئی ہے۔

جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس وقت بھی ٹی وی پر کئی مقامات پر بچوں سے ریپ اور قتل کے واقعات نشر ہو رہے ہیں۔ ان واقعات میں ملوث اخلاقی مجرموں کو رہائی مل جاتی ہے ، معمولی سزا ہوتی ہے یا پھر خون بہا لے کر رفع دفع کر دیا جاتا ہے، یا مقتول کے والدین معاف کردیتے ہیں۔


بہت سے لوگوں کو عدالت تک رسائی نہیں ہوتی، اس لیے کہ پولیس ان کے مقدمات کی ایف آئی آر نہیں کاٹتی۔ فریقین سے رشوت خوری کی بنیاد پر ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ بچوں سے زیادتی کرکے پھر قتل کرنا کتنا مکروہ اور بے ہودہ عمل ہے۔ اس پر پولیس ، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، مذہبی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں تقریباً سب ہی خاموش رہتی ہیں۔ ہاں مگر خواتین کی تنظیمیں اور سماجی تنظیمیں ایک حد تک متحرک نظر آتی ہیں۔ ویسے تو خواتین کا احترام ، خواتین کی عزت ، ان کے پاؤں کے نیچے جنت اور بیٹی رحمت ہے وغیرہ کے آداب و القاب کے جملے سننے میں ضرور آتے ہیں مگر بچوں اور خواتین کے قتل پر کوئی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت احتجاج کرتی ہے، ہڑتال کرتی ہے اور نہ جلوس نکالتی ہے۔

ہاں مگر اقتدار کی کھینچا تانی میں ہر وقت ضرور مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ ہم اس بات کو تب گہرائی میں جا کر سمجھ سکتے ہیں جب ہماری اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا ہو تو ہماری کیا کیفیت ہوگی۔ اگر اس نہج پر جا کر سوچا جائے تو بات سمجھ میں آئے گی۔ جب تک پاکستان کا شہری یہ محسوس نہیں کرے گا کہ یہ میری بیٹی ہے، اس وقت تک آگہی ہوگی اور نہ حکمران ہوش کے ناخن لیں گے۔

ویسے تو مسائل بے شمار ہیں بے روزگاری ، بے گھری ، بے علاجی اور بھوک وغیرہ۔ لیکن زندگی کو بچانا اور خاص کرکے کھلتی ہوئی کلیوں کو زندگی کے لطف سے محروم کرنے کی راہوں کو روکنا آج کے انسانوں کا اولین فریضہ ہے۔

اس قتل کو روکنے کے لیے بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہوگا ، بے گھروں کو مفت گھر دینا ہوگا۔ تعلیم سب کو دینی ہوگی۔ پولیس، اور عوام کو بستیوں میں خودکار اور خودمختار کمیٹیوں کی تشکیل کرنی ہوگی جو چوکنا رہ کر ان تمام جرائم پر نظر رکھیں۔ ابھی چند دنوں قبل کی بات ہے کہ ناظم آباد میں نجی اسکول انتظامیہ کی جانب سے فیس نہ دینے پر ساتویں جماعت کی طالبہ کے ساتھ ناروا سلوک کا واقعہ سامنے آیا۔ متاثرہ بچی کے والد نے رضویہ تھانے میں اسکول کے مالک اور دو اساتذہ کے خلاف بیٹی کو حبس بے جا میں رکھنے اور ناروا سلوک کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

طالبہ کے والد نے مقدمہ درج کراتے ہوئے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ متاثرہ طالبہ کے والد کی مدعیت میں اسکول کے مالک اور پرنسپل اور دو اساتذہ کے خلاف مقدمہ دفعہ 506/34.342 کے تحت درج کروایا۔ بیٹی کے والد نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شہر میں لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی آمدنی شدید متاثر ہوئی تھی۔ ان کی بیٹی نجی اسکول میں ساتویں جماعت میں تعلیم حاصل کرتی تھی اور انھیں 7 ماہ کی فیس اسکول میں جمع کرانی تھی جس میں سے 3 ماہ کی فیس ادا کرچکے تھے اور 4 ماہ کی فیس ادا کرنی تھی۔

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ خود اسکول جا کر اسکول کی انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ ہر ماہ ڈبل فیس دے کر تمام واجبات ادا کردیں گے اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے رضامندی ظاہر کرنے کے باوجود بھی ان کی بیٹی کو مسلسل 3 روز تک ہراساں کیا جاتا رہا۔ ان کی بیٹی کو پورا پورا دن کلاس کے باہر کھڑا رکھا گیا۔ بیٹی کو ایک دن مالی کے کمرے میں بند کرکے اسکول بیگ چھین لیا گیا۔ اسکول بیگ میں موجود لنچ بھی بیٹی کو فراہم نہیں کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ اسکول انتظامیہ کے ظلم سے تنگ آ کر قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا اور رضویہ تھانے میں درخواست جمع کرائی جس پر پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے۔ باقی تمام راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔
Load Next Story