گرداب

عقل مندی یہ نہیں کہ جو بھی تھپیڑا سامنے آئے بس آدمی اس سے لڑنا شروع کر دے۔


MJ Gohar March 26, 2021

سمندر کے ساحل پر دو نوجوان نہا رہے تھے۔ وہ دونوں اچھے دوست تھے اور تیراکی بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ پانی کے اوپر اوپر اور ڈبکی لگا کر پانی کے اندر بھی دور تک نکل جاتے تھے۔ جب دونوں دوست تیرتے ہوئے دور تک چلے گئے تو بپھری ہوئی موجوں کا ایک زبردست تھپیڑا آیا، دونوں اس کی زد میں آگئے۔

ایک نوجوان اپنی تیراکی کے زعم میں بولا '' میں تو موجوں سے لڑ کر پار ہو جاؤں گا'' مگر موجوں کا زور زیادہ تھا وہ اپنے طاقتور بازوؤں اور کوشش کے باوجود تند و تیز موجوں کے دباؤ سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور ڈوب کر مر گیا۔

دوسرا دوست بھی اپنے ساتھی کی پیروی میں تیراکی کے جوش میں ہاتھ پاؤں چلانے لگا لیکن اس نے یہ جلد محسوس کر لیا کہ موجوں کی شدت بہت زیادہ ہے اور اس کے بازو اس کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ مایوسی کے عالم میں اسے اچانک ایک دانا کی یہ بات یاد آگئی کہ موجیں خواہ کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں ان کا زور اوپر اوپر رہتا ہے اور پانی کے نیچے کی سطح ساکن رہتی ہے، اس نے موجوں سے لڑنے کی بجائے ڈبکی لگائی اور پانی کی نچلی سطح پر پہنچ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ ساحل کی طرف تیرنا شروع کردیا۔ بالآخر وہ سمندرکے کنارے پر زندہ سلامت پہنچ گیا۔ جس نے موجوں سے لڑنے کو تیراکی سمجھا تھا وہ اپنے زعم کے باعث ہلاک ہو گیا اور جس نے موجوں سے کترا کر نکلنے کا طریقہ اختیار کیا وہ کامیابی سے صحیح سلامت کنارے تک پہنچ گیا۔

زندگی کے روزوشب میں طرح طرح کے طوفان آتے ہیں۔ عقل مندی یہ نہیں کہ جو بھی تھپیڑا سامنے آئے بس آدمی اس سے لڑنا شروع کر دے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی حالات کا جائزہ لے کرکامیابی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچنے کے زیادہ قابل اعتماد راستے کا انتخاب کرے۔ خواہ اس کو تند وتیز موجوں کی سطح سے اتر کر نیچے نیچے اپنا راستہ کیوں نہ بنانا پڑے ، یہی قدرت کا سبق ہے۔

اس طرح قدرت ہمیں بتاتی ہے کہ طوفانی موجوں کے وقت منزل تک پہنچنے کے لیے کون سا طریقہ عمل اختیارکرنا چاہیے۔ زندگی میں کبھی طوفان سے لڑنا بھی پڑتا ہے لیکن کامیابی کا راز یہ ہے کہ انسان طوفانی سیلاب سے کترا کے نکل جائے اور طوفان کی زد سے بچتا ہوا اپنا راستہ بنائے۔

آج پاکستان کی سیاست بحرانوں اور طوفانوں کی زد میں ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت طوفانی موجوں سے لڑنے کا ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے، جب کہ لاڑکانہ کا سیاسی خانوادہ سیلابِ بلا سے کترا کے محفوظ راستے سے منزل مقصود تک پہنچنے کا آرزو مند ہے۔ پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں آصف زرداری کی تقریرکی بازگشت آج بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہا کہ آصف زرداری کی تقریر ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑ سکتا۔

پی پی پی کے سینئر رہنما قمر الزماں کائرہ نے اسی ٹی وی پروگرام میں رانا ثنا اللہ کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بالکل درست کہ زرداری صاحب نے یہ بات اور دوسری جو بھی باتیں لانگ مارچ اور استعفے کے حوالے سے کیں وہ میاں نواز شریف کی تقریر کی روشنی میں کی تھیں۔ صدر زرداری کی باتوں کو صحیح تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ قمرالزماں کائرہ نے بجا طور پرکہا کہ پی پی پی بے نظیر بھٹو کی شہادت کی صورت میں بڑا نقصان اٹھا چکی ہے لہٰذا احتیاط لازم ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے بھٹو خاندان کی جمہوریت کے لیے قربانیاں نواز خاندان سے کہیں زیادہ ہیں۔ آصف زرداری کو معلوم ہے کہ ''اینٹ سے اینٹ بجانے'' کا نعرہ لگا کر انھیں کن مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ اب وہ پیرانہ سالی اور بیماریوں کے گھیرے میں ہیں۔ خود کو اور اپنے اکلوتے بیٹے کو کسی بڑی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ حالات کے تقاضوں کے مطابق جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے وہ مصلحت آمیزی سے چلنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کو ان کی یہ ادا پسند نہیں آئی۔

قومی سیاست کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہاں کسی کو حفظ مراتب کا خیال ہے اور نہ ہی اخلاقیات کا۔ خود لیگی رہنما ماضی میں آصف زرداری اور بی بی شہید کے لیے جو ''کلمات'' ادا کرتے رہے وہ ان کا کیا جواب دیں گے؟ قصہ کوتاہ یہ کہ پی پی پی اور (ن) لیگ میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے چناؤ پر بھی تناؤ موجود ہے۔

پی پی، یوسف رضا گیلانی کو اور (ن) لیگ اپنے سینیٹر کو یہ منصب دینا چاہتی ہے۔ آصف زرداری سیاسی طوفان سے کترا کے نکل جائیں گے۔ میاں صاحب اور مولانا کو حالات کی نزاکتوں کا ادراک نہیں وہ طوفان برپا کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ''طاقتور موجوں'' کے گرداب میں پھنس جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔