پھر وہی SOPs

ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ ایسے کتنے ہی لوگ، خصوصاً معیشت کے اس بدترین دور میں بھوکوں مر رہے ہوں گے۔


ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ ایسے کتنے ہی لوگ، خصوصاً معیشت کے اس بدترین دور میں بھوکوں مر رہے ہوں گے۔فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 90

عربی زبان کا مقولہ ہے ''اَلنّاس علیٰ دِین ِ مُلوُکِہِم'' یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے راستے پر چلتے ہیں (یعنی اُنھی کی تقلید کرتے ہیں)۔ یہاں لفظ مُلُوک، (مَلِک یعنی امیر، سردار یا بادشاہ کی جمع) استعمال ہوا ہے۔ ہم اپنی تفہیم کے لیے ترجمے میں حاکم، حکمراں، صدر اور وزیراعظم استعمال کرسکتے ہیں۔

جس ملک کا ''ولایت پلٹ''، آکسفرڈ سے سندیافتہ، اڑسٹھ سالہ سربراہِ حکومت (وزیراعظم) اب تک یہی سمجھتا اور کہتا آیا ہے کہ Tiger کو اُردو میں 'چِیتا' کہتے ہیں (حالانکہ وہ شیر ہے اور چیتے کو برطانوی انگریزی میں Leopard اور امریکی انگریزی میں Cheetah کہتے ہیں اور یہ بات اس خاکسار کے قلم سے دوتین بار منظرعام پر آچکی ہے، مگر صاحب بہادر اور اُن کے متوالے پڑھتے ہی کہاں ہیں، تو عوام النّاس کا اس بارے میں مغالطہ کون دورکرے؟ یہاں ہندوستانی فلموں اور ڈراموں سے مستعار چالو بولی یعنی Slang میں کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ ہاں سہیل صاحب کا بولنا، یہاں بنتا ہے۔

اب کیا بتائیں، کیا کیا بنتا ہے، کہاں کہاں بنتا ہے اور کس کس کو کچھ نہ کچھ بناکر بنتا ہے۔ ہمیں تو یہ پتا ہے کہ ہم ایسے ''اُلّو'' (یعنی بے وقوف) بہ آسانی بن جاتے ہیں، بس بنانے والا، ماہر ہو۔ سربراہِ حکومت (وزیراعظم)، سربراہ ِمملکت (صدر)، تمام صوبے داران [Governors] اور وُزرائے اعلیٰ سمیت تمام اہل ِ اقتدار و حزب ِ اختلاف، کرونا (کورونا اصل لفظ ہے جو کثرت ِاستعمال سے کرونا ہواہے، لہٰذا رائج ومروج کے اصول کے تحت درست ہے) کی مصنوعی وباء میں بچاؤ کے لیے اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کو SOPs کہہ رہے ہیں۔ خاکسار کو ایک مرتبہ پھر اس وضاحت کا اعادہ کرنا پڑرہا ہے کہ SOPs=Standard Operatin Procedures کا مفہوم ''احتیاطی تدابیر/احتیاطی اقدامات'' نہیں ہے۔

اس کے لیے انگریزی میں Preventive measuresکی اصطلاح موجود ہے۔ میں نے اپنے حلقے میں متعدد اہل قلم بشمول محترمہ تنویر رؤف صاحبہ سے بھی تصدیق چاہی جو بچوں اور بڑوں کی منفرد ادیبہ اور تجربہ کار معلمہ انگریزی و ماہر مترجم ہیں۔ سبھی نے میری تائید کی۔ اب اتمام ِحُجّت کے لیے خاکسار یہاں SOPs کے معانی بزبان انگریزی پیش کررہا ہے تاکہ کسی قسم کا شائبہ نہ رہے۔ (ویسے بھی جہاں آسان اردو لفظ، ترکیب، مُحاوَرہ، کہاوت، اصطلاح، استعارہ، کِنایہ اور تشبیہ موجود ہو، ''فادری زبان'' کا زبردستی استعمال کیوں کیا جائے؟):

  1. An SOP is a procedure specific to your operation that describes the activities necessary to complete tasks in accordance with industry regulations, provincial laws or even just your own standards for running your business. Any document that is a "how to" falls into the category of procedures.


[https://www.brampton.ca/EN/Business/BEC/

resources/Documents/What%20is%20a%20

Standard%20Operating%20Procedure(SOP).pdf]

  1. standard operating procedure noun


Definition of standard operating procedure: established or prescribed methods to be followed routinely for the performance of designated operations or in designated situations

- called also standing operating procedure

Examples of standard operating procedure in a Sentence

Recent Examples on the Web

In December, the commission unanimously approved a series of changes to the police department's standard operating procedure about the use of force.

- Elliot Hughes, Milwaukee Journal Sentinel, "Promotion of sergeant disciplined in Frank Jude case delayed," 5 Mar. 2021

Pyro and confetti blasts became standard operating procedure for every electronic mainstage.

- Kat Bein, Billboard, "Fin: Why Daft Punk Was the Most Influential Electronic Act of Its Time," 22 Feb. 2021

[https://www.merriam-webster.com/dictionary

/standard%20operating%20procedure]

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یہاں عوام وخواص اردو میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں : SOPsکو Follow کیا جائے۔ یہ Make sure کریں کہ SOPsFollow ہورہی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ ''احتیاطی تدابیر لازماً اختیار کی جائیں۔'' اسی کم بخت مصنوعی وباء کے ضمن میں بات کرتے ہوئے اور بھی بہت سی غلط سلط اصطلاحات، تراکیب اور الفاظ خوب خوب برتے جارہے ہیں۔ بول چال میں ِSocial distancing/Physical distancing کا ہمہ وقت استعمال ہورہا ہے، عملاً تو خیر، ''ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے''، والا معاملہ ہے۔ سرکار اور بڑی سرکار کی سرپرستی میں رقص وسرود کی بڑی محفلیں منعقد ہورہی ہیں، ٹی وی پردکھادکھاکر ہرخاص وعام کا ذہن متأثر کیا جارہا ہے، اربابِ اختیار بھی وہاں جلوہ افروز ہوتے ہیں، مگر اُن کے اپنے الفاظ میں SOPs نام کی کوئی چڑیا دِکھائی نہیں دے رہی۔

اسی طرح Social distancing بھی کوئی شئے نہیں۔ اپنے اپنے، اپنوںاپنوں سے (بلاامتیاز ِصنف) ہاتھ ملا رہے ہیں، گلے مل رہے ہیں، بوس وکِنار کررہے ہیں، ساتھ ساتھ جُڑے بیٹھے ہیں ......بس وہ بے چارے، غریب، بے حیثیت عوام ۔یا۔Bloody civiliansنہیں نا......اس لیے Corona انھیں کچھ نہیں کہتا۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اُس نے ایسی جگہوں پر رُک کر، اِن مہان ہستیوں سے پوچھنے کی گستاخی کی ہو، ''سر! کیا میں آپ کو کاٹ لوں؟'' اور جواب ملا ہو:''Shut up, you idiot! ''۔ اچھا بھئی بات آگے نکل گئی۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس اصطلاح یا ترکیب Social distancing کی اردو کیا ہوگی؟ یہ مدعا پہلے بھی 'زباں فہمی' میں اٹھایا گیا تھا۔ انٹرنیٹ پر بھانت بھانت کی بولیاں سنتے پڑھتے ہوئے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہندوستان میں اس کا ترجمہ ''تَن۔دوری'' کیا گیا ہے۔

اب ذرا سوچیں، سنتے ہی آدمی کا ذہن تندور یعنی تنور (صحیح لفظ) کی طرف اور پھر اُس کی روٹی المعروف 'نان' کی طرف جاتاہے۔ یعنی وہی کھانے پینے کی باتیں جو غریب ہی نہیں، امیر بھی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں کسی بقراط نے ترجمہ کیا، ''سماجی دوری۔'' اس پر بھی ذرا غور فرمالیا جائے۔

سماجی یعنی سماج سے متعلق دُوری، سماج سے دوری.....وہ گانا یاد آگیا: ''چلو کہیں دُور، یہ سماج چھوڑدیں۔'' اب نئی نسل کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ جس طرح کرونا کی پیش گوئی ماضی کی انگریزی اور دیگر زبانوں میں بنی ہوئی فلموں میں کی گئی تھی (بلکہ اس سازش کے لیے لوگوں کو پہلے سے ڈرایا گیا تھا)، تو شاید یہ گانا بھی ہماری کسی ایسی ہی فلم میں فلمایا گیا ہو اور فلم کے مرکزی کردار، شاید کسی مصنوعی یا حقیقی وباء سے بچنے کے لیے، احتیاطاً بھاگتے ہوئے یہ گانا گنگنارہے ہوں۔

ارے صاحب! اگلا مصرع بھی تو دیکھیں: ''دنیا کے رسم ورواج چھوڑدیں۔'' ویسے اگر کرونا پر کوئی پاکستانی، اردو فلم بنی تو پھر جہاں اور بہت کچھ ہوگا، وہیں، یہ گانا ترمیم کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے، ورنہ خاکسار نے تو ''نغمہ کرونا'' پہلے ہی لکھ کر،گنگناکر، یوٹیوب چینل پر پیش کردیا ہے جو ہندوستان سے ہمارے کرم فرما پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب، کرونا منظومات میں بھی شامل ہوچکا ہے۔ پھر سوال وہی کہ Social distancing کا ترجمہ کیا ہوگا؟ آیا یہ کہنا درست ہے کہ سماجی فاصلہ اختیار کریں۔

تن دوری کا خیال کریں، دوری بنائے رکھیں (جدیدہندوستانی عوامی /چالو بولی یعنی Slang)؟ صاحبو! سیدھی سی بات ہے کہ ضروری نہیں کہ آپ ہر لفظ، ترکیب، اصطلاح اور عنوان کا لفظی ترجمہ کریں، ''اس کا مطلب یہ، اُس کا مطلب یہ''....قسم کی مشق فرمائیں۔ اس اصطلاح کا مفہوم ہے، لوگوں سے دوری، کہیں کسی عوامی اجتماع کی جگہ پر، نشست وبرخاست میں، فاصلہ رکھنا (ظاہر ہے جسمانی فاصلہ، ذہنی تو پتا نہیں، کس کا کس سے کتنا ہو اور کس کی کس سے کتنی قربت ہو، پھر یہ قلبی تعلق یا تعلق خاطر، اگر روحانی کیفیت اختیار کرے تو بقول کسے مَن تو شُدَم، تو مَن شُدی والا معاملہ ہوجائے)۔ کرونا سے متعلق بہ کثرت مستعمل ایک اصطلاح ہے Lockdown۔ یار لوگ اس کے ترجمے میں بھی بہت پریشان نظر آتے ہیں۔

ہندوستان میں اس کے لیے 'تالہ بندی' جیسی پرانی اصطلاح اپنالی گئی ہے، جبکہ ہمارے یہاں چونکہ ''فادری زبان '' کا زور، ان معاملات میں زیادہ ہے، لہٰذا ہم اردو میں بھی لاک ڈاؤن ہی کہنا پسندکرتے ہیں۔ ویسے یہ خاکسار کے نزدیک ''بندش ِعامّہ'' ہے۔ (ماقبل کسی کالم میں لکھ چکا ہوں)۔ اسی طرح Screening،Self-isolation اور Symptoms کا معاملہ بھی ہے۔ Screening کے قدیم معانی جو انگریزی اردولغت میں موجود ہیں، اس تناظر میں صحیح نہیں، اب کرونا کی جانچ کے لیے Screeningکی اصطلاح استعمال ہوگی تو مطلب ہوگا: علامات کی ابتدائی تشخیص یا اس کے لیے کی جانے والی ابتدائی آزمائش/ٹیسٹ۔ Self-isolation کا بہترین ترجمہ پہلے سے اردومیں موجود ہے: تخلیہ یا خلوت۔ Symptoms کو آسان اردو میں علامات کہتے ہیں، مگر کیا کریں جب ہر قسم کا معالج (خواہ وہ انگریزی میں کتنا ہی پیدل ہو)، مریض کی بجائے Patient کہنا پسند کرتا ہے، علاج کے نسخے کو Prescription اور دوا کو Medicine/drug تو پھر علامات کہہ کر، اردومیڈیئم بدتمیز کیوں کہلائے۔

ویسے یاد آیا کہ تشخیص بھی آسان لفظ ہے، مگر ہم Diagnosis کہہ کر پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایسے بے شمار الفاظ اردو بول چال میں مظلوم ہوچکے ہیں یا بن چکے ہیں کہ ہرچند موجود ہیں، مگر انھیں استعمال کم کم کیا جاتا ہے۔ جہاں لوگ کوئی بھی لغت دیکھنے یا کسی اہل علم سے استفسار کرنے کی زحمت شاذ ہی گوارا کرتے ہوں، وہاں یہ معاملہ کچھ ایسا حیران کُن بھی نہیں لگتا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ نئے الفاظ وتراکیب واصطلاحات کی توضیع بھی اسی طرح ، بھگتائی جارہی ہے۔

اب ہر کوئی تو نہیں سوچتا کہ خبروں، بیانات اور پروگراموں میں استعمال ہونے والا کونسا لفظ درست ہے۔ دبئی میں مقیم ہمارے بزرگ واٹس ایپ دوست محترم سلطا ن جہانگیر صاحب نے گزشتہ دنوں، خاکسار کو یہ تجویز ارسال فرمائی:''پاکستان میں قائم کردہ، 'پناہ گاہ' کا نام تبدیل کر کے 'سرائے' کا نام دیا جائے: وزیراعظم پاکستان اور متعلق اربابِ اختیار سے مؤدبانہ گزارش اور تجویز ہے کہ ملک میں قائم کردہ پناہ گاہوں کا نام تبدیل کر کے 'سرائے' رکھا جائے۔ مسافروں کے آرام و طعام کا ریاستی انتظام، زمانہ قدیم سے مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اس مقام کو سرائے کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اسلامی ریاست کے تعمیری عمل میں یہ بہترین پیش رفت ہوگی۔ دنیا بھر میں رہنے والے مخیر مسلمان اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے بے تاب ہیں۔

سرائے کے نام نامور مسلمان ہستیوں کے نام پر رکھے جائیں، مثال کے طور پر سرائے عمر بن خطاب' (رضی اللہ عنہ)' 'سرائے خالد بن ولید' (رضی اللہ عنہ)، سرائے محمد بن قاسم' اور 'سرائے طارق بن زیاد' وغیرہ۔ بیرون ملک رہنے والے مخیر پاکستانی حضرات سرائے کے طعام اور دیگر اخراجات کی ذمہ داری لینے کے خواہشمند ہیں۔'' اس کے علاوہ انھوں نے خاکسار سے گفتگو کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ہرچند سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ سمیت مختلف فلاحی اداروں اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ایسے اداروں میں، غُرَباء ومساکین کو روزانہ، عمدہ کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے، مگر اس نیکی کے ساتھ ساتھ یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ سفیدپوش افراد کی اکثریت اس طرح سرِعام مفت کھانا کھاکر۔یا۔ خوراک وصول کرکے اپنی سفیدپوشی کا پردہ چاک ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔

ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ ایسے کتنے ہی لوگ، خصوصاً معیشت کے اس بدترین دور میں بھوکوں مر رہے ہوں گے اور اُن تک کوئی امداد نہ پہنچ پاتی ہوگی۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر ہمارے معاشرے کے تمام دردمند افراد کو بالعموم اور مخیر حضرات /اداروں کو علی الخصوص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ابھی کل ہی ایک خاتون سے اتفاقاً ملاقات میں بھی یہی ذکر نکلا تو انھوں نے کہا کہ عالمی سازش یہی ہے کہ لوگوں کو محتاج کردو کہ وہ کھانے پینے کے لیے ہاتھ پھیلائیں، یہ کیوں نہیں ہوتا کہ معاشی لحاظ سے خستہ حال، ملازم، سابق ملازم مزدور، کاروباری اور بے روزگار سمیت ہر طبقے کے افراد کو اُن کی تعلیمی قابلیت، لیاقت، مہارت اور تجربے کی روشنی میں روزگار مہیا کیا جائے۔

فیس بک، دیگر ویب سائٹس اور واٹس ایپ پر ڈاکٹر رشید حسن خان کی کتاب ''عبارت کیسے لکھیں'' سے یہ اقتباس خوب خوب نقل ہورہا ہے:''گزارش اور گذارش، دو الگ الگ لفظ ہیں، دونوں کے معانی بھی مختلف ہیں۔ گزارش 'ز' سے ہے۔ درخواستوں اور خطوں میں بھی یہ لفظ آتا ہے، جیسے: آپ کی خدمت میں گزارش ہے۔ میری گزارش یہ ہے (وغیرہ)، (جبکہ) گذارش' ذ 'سے ہے، جس کے معنی ہیں: چھوڑنا۔ اب اس کی ایک مثال پیش ہے: عبادت گزار کے معنی ہیں: عبادت کرنے والا۔ اِسے اگر عبادت گذار لکھا جائے، تو اِس کے معنی ہوں گے: عبادت چھوڑ دینے والا۔ گزار اور گذار، دو مختلف لفظ ہیں۔ ''گزار'' میں ادا کرنے کا مفہوم شامل ہے اور ''گذار'' میں چھوڑنے کا مفہوم شامل ہے۔''۔ تلاش کرنے پر ڈاکٹر رشید حسن خان صاحب کی تحریر مزید وضاحت کے ساتھ یوں بازیاب ہوئی:''ذراسی بے احتیاطی سے بعض الفاظ کے مطلب ہی بدل جاتے ہیں۔ فارسی کے پانچ مصدر ہیں، گذشتن، گذاشتن، گذاردن، پذیرفتن، گزاردن۔ شروع کے چاروں مصدروں میں ذال ہے اور آخری مصدر زے ہے۔

ان سے جو لفظ بنتے ہیں اُن کے لکھنے میں اکثر غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ گذشتن، گذاشتن، گذاردن؛ یہ تینوں مصدر ایک گروپ کے ہیں۔ ان سے جتنے لفظ بنیں گے ان سب کو ہمیشہ ذال سے لکھا جائے گا۔ اس طرح: گذشتہ، یارانِ گذشتہ، زمانِ گذشتہ، گذشتگان، رفت وگذشت، سرگذشت، واگذشت، گذرگاہ، راہ گذر، درگذر، راہ گذار، نیزہ گذار، گذراں، عمرِ گذراں، گذار۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چلنے، چھوڑنے اور پار کردینے کے معنی میں گذاردن، گذاشتن، گذشتن کو اور ان کے مشتقات کو ذال سے لکھا جائے گا۔ گذشتہ کے معنی ہیں: گزرا ہوا، یارانِ گذشتہ؛ وہ دوست جو اس دنیا سے جاچکے ہیں۔

سرگذشت: گزری ہوئی باتیں، روداد، راہ گذر: راستہ، عمرِ گذراں: گزرتی ہوئی عمر، گذرگاہ: راستہ، گزرنے کی جگہ۔ ؎ بوئے گل، رنگِ چمن اور یہ عمرِ گذراں+سب ٹھہر جائیں گے، کوئی اُسے روکے تو سہی۔ ؎ گذشتگانِ زمان کا ذکر تم نہ کرو+یہی غم و الم اُس روزگار میں بھی تھا ۔ ؎ بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا+گزری ہے اُس کی راہ گذر پر لگی ہوئی ۔ ع گذشتہ خاک نشینوں کی یادگار ہوں میں۔ ''گزاردن'' کو جب زے سے لکھا جائے گا تو اس کے معنی ہوں گے: پیش کرنا، اداکرنا، شرح کرنا۔ اس سے جتنے لفظ بنیں گے اُن کو لازماً زے سے لکھا جائے گا، جیسے: گزارش، نماز گزار، تہجد گزار، خدمت گزار، مال، گزار، مال گزاری، شکر گزار، عبادت گزار۔ ''گزارش'' کے معنی ہیں: عرض کرنا، پیش کرنا۔ درخواستوں میں یہ لفظ اکثر لکھا جاتا ہے۔

اس کو اگر ''گذارش'' لکھا جائے گا تو پھر اُس کے معنی ہوں گے: چھوڑنا، لفظ ہی بدل جائے گا۔ ''نماز گزار'' کے معنی ہوں گے: نماز پڑھنے والا اور اسی کو اگر ''نماز گذار'' لکھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے: ''نماز چھوڑنے والا'' منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی اپنا بیانِ حسنِ طبیعت نہیں مجھے... کیا پیام اور کیا پیام گزار جس کی ہر بات وعظِ عرفانی ''پذیر فتن'' کے معنی ہیں: قبول کرنا۔ اس میں ذال ہے۔ اس سے بننے والے سب لفظوں کو ذال سے لکھا جائے گا۔ جیسے: پذیرفتہ، پذیرائی، دل پذیر، اثر پذیر، رقم پذیر، خلل پذیر۔ اردو کے مصدر گزرنا، گزارنا اور گزارنا؛ سب میں زے ہے۔

ان سے جتنے لفظ بنیں گے، سب میں لازماً زے لکھی جائے گی، جیسے: گزرا، گزرا ہوا، گزر گیا، گزرتے رہنا، گزار دینا، گزار لینا، گزارا، گزر بسر، گزار دینا، گزرتے رہنا۔ ؎ موجِ خوں سرسے گزر ہی کیوں نہ جائیں آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا۔ ؎اے شمع، تیری عمرِطبیعی ہے ایک رات ہنس کر گزار+ یا اسے رو کر گزار دے۔ ؎ جب تک نہ غلامانِ علی (رضی اللہ عنہ ') کا ہو گزارا+رضوان پکارے ہے کہ جنت نہیں بھرتی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں