ہمیں کون سمجھائے
ملک میں مہنگائی، بڑھتے ہوئے مالی مسائل کے ٹینشن، بے روزگاری نے لوگوں کی گھریلو زندگی کو بری طرح سے متاثر کر رکھا ہے۔
سالِ رواں بھی رمضان المبارک سے قبل ملک بھر خصوصاً کراچی میں خونریزی کا جو سلسلہ جاری تھا وہ رمضان میں بھی نہیں رکا یا روکا نہ جاسکا، البتہ حکومتی دعوے ضرور جاری رہے جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیر داخلہ کی نظر میں ٹارگٹ کلنگ ختم ہوچکی ہے مگر حقیقت میں یہ مسلسل جاری ہے جس میں معمولی کمی شاید اس وقت آجاتی ہے جب قاتلوں کو ان کا مطلوبہ ٹارگٹ ہاتھ نہیں آتا یا مطلوبہ ٹارگٹ کی خوش نصیبی کہ اﷲ کی طرف سے اس کا مقررہ وقت نہیں آجاتا۔
ملک بھر میں دہشت گردی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے جرائم بلکہ کراچی میں اضافی طور پر بھتہ نہ دینے کی وجہ سے قتل اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں خصوصی طور پر جب کہ ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل، پرانی دشمنیوں کے بدلے، اسٹریٹ کرائم اور فرقہ وارانہ قتل کے واقعات عروج پر ہیں۔ کراچی کے علاوہ ملک بھر میں پاکستانی قرار دیے جانے والے طالبان، پاک افواج، رینجرز،پولیس اور حسّاس اداروں کے مخالفین بلکہ ملک کے دشمنوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ان سارے واقعات پر ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کا کام صرف ان کی مذمت کرنا ہی رہ گیا ہے۔
بلوچستان،کراچی،گلگت بلتستان میں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔ باجوڑ ایجنسی سے 6 عسکری اہلکاروں کی سرکٹی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ کراچی میں ممتاز اشتہاری ایجنسی کے بانی اور مالک سمیت ان کے بیٹے اور پوتے کو بھی نہیں بخشا گیا اور ہمارے رہنما اور حکمران صرف یہ کہہ کر اپنی ذمے داری پوری کردیتے ہیں کہ ایسا کرنے والے مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کے اقدام قابلِ مذمت اور شرم ناک ہیں اور ایسے عناصر کی وجہ سے دنیا میں اسلام کا امیج خراب ہورہا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کوئٹہ میں پھر کہا ہے کہ بے گناہ مارے جانے والے افراد سے ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور ذمے دار کچھ نہیں کررہے۔ ہزارہ قبیلہ کے افراد کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے مگر ہماری سیاسی قوتوں کے لیے ملک کے سب سے اہم مسائل پر سوچنے اور ایک جگہ بیٹھ کر مسائل کے حل کی تلاش کا وقت کیا اب تک نہیں آیا۔ اس سوال کا جواب عوام کس سے مانگیں؟ حکمران ہر حال میں اپنی حکومت اور اپنی 5 سالہ مدت مکمل کرنے کے لیے وہ سب کچھ کررہے ہیں جس کا انھیں اختیار ہے اور اپوزیشن بھی ملک کے ان اہم مسائل کو نظرانداز کرچکی ہے اور میاں نواز شریف، عمران خان کو لگتا ہے ملک سے زیادہ ملک کا اقتدار حاصل کرنے سے دلچسپی ہے، انھیں اور اپوزیشن رہنمائوں کو ملکی مسائل سے زیادہ عام انتخابات کی جلدی ہے۔
صدر اور حکمران پیپلز پارٹی اور حلیف اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے کے بعد بھی آیندہ انتخابات میں کامیابی کی امید نہ جانے کس توقع پر رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ حکومت کی ترجیح صرف مجوزہ بلدیاتی نظام پر متحدہ کو بہلانا اور وقت گزارنا رہ گیا ہے جب کہ ان کے دو حلیفوں اے این پی اور فنکشنل لیگ نے کمشنری نظام کو کراچی کے مسائل کا حل سمجھ رکھا ہے جب کہ سندھ میں جاری کمشنری نظام میں بھی کراچی ایک سال سے لہولہان ہے اور کمشنری نظام بھی کراچی کو امن دینے میں ناکام رہا ہے۔
لیاری جیسا پر امن علاقہ گینگ وار کے دہشت گردوں کے قبضے میں کوئی چوں بھی نہیں کرسکتا۔لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر اور نوجوانوں کو مخبر قرار دیکر قتل کرنا معمول بن چکا ہے۔پی پی کی منتخب لیڈر شپ لیاری میں داخل نہیں ہوسکتی۔علاقے کے سینئر صحافی نادرشاہ عادل کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ملک میں مہنگائی، بڑھتے ہوئے مالی مسائل کے ٹینشن، بے روزگاری نے لوگوں کی گھریلو زندگی کو بری طرح سے متاثر کر رکھا ہے۔ محدود آمدنی میں اخراجات پورا کرنا غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے ناممکن ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے گھریلو تنازعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں کون سمجھائے کیونکہ حکومت کو تو عوام کے ان معاملات سے دلچسپی نہیں ہے نہ اسے عوام کی فکر ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ گھریلو جھگڑوں میں مہنگائی نے ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس سے خواتین، بچّے اور اپنے ہی گھر کے افراد اپنوں کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ تعصبات نے بعض لوگوں کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور وہ عقل کے بجائے غصّے اور جذبات میں آکر ایسی ایسی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں کہ انسانیت بھی شرما رہی ہے اور ظلم، بربریت اور درندگی کے نئے نئے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
فرقہ پرستی کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ پر فائرنگ کے ایک واقعے میں گلگت جانے والے مسافروں کو موت کے گھاٹ بھی رمضان المبارک میں اتار دیا جاتا ہے۔ کیا ایسے واقعات حکومت روک سکتی ہے، اس سوال کا جواب حکمرانوں کے پاس یقینی طور پر نہیں مگر حکومت اس سلسلے میں متحارب گروپوں کے بڑوں کو ایک جگہ بٹھا کر انھیں اس مسئلے کے حل پر مجبور تو کرسکتی ہے۔ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے گروہوں کے سرکردہ افراد کو اسلام کے حوالے سے ایک جگہ جمع ہونے کا موقع سیاسی و دینی جماعتیں خود بھی دے سکتی ہیں اور متحارب لوگوں کے باہمی اور دینی تنازعات کے حل کے لیے بھی تو کسی جماعت کی طرف سے اے پی سی ہونی چاہیے۔
گھریلو تنازعات کے حل کے لیے ضلعی نظام میں پنچایت کمیٹیاں ہوتی تھیں، جن کے سربراہ دونوں فریقوں کو بلا کر صلح صفائی پر راضی کردیتے تھے مگر اب رشتے داری اور گھریلو تنازعات کے حل کا کئی فورم موجود نہیں۔ ایسے معاملات اگر وسائل ہوں تو عدالتوں میں لے جائے جاتے ہیں یا پھر خود ہی منصف بن کر ہتھیار استعمال کرکے دوسرے کو جانی نقصان پہنچا کر خود کو بھی غصّے و جذبات میں برباد کرلیا جاتا ہے۔
اسلحے کی زبان عام ہوتی جارہی ہے اور من مانے فیصلے کے لیے درندگی کے مظاہرے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے غصے، مذہبی جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور باہمی گھریلو تنازعات نمٹانے، بے حسوں میں احساس جگانے کے لیے حکومت کچھ نہیں کرسکتی مگر ہمیں خود بھی کچھ سوچنا چاہیے۔