ذہنی آلودگی کی ہلاکت خیزی سے بچئے
آلودگی کی مہلک ترین قسم اصلاً کیا ہے؟ کیسے انسانوں کے سیکھنے، یاد رکھنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہو رہی ہے؟
نت نئی ٹیکنالوجیز کی آمد اور مختلف النوع مصنوعات کی وجہ سے لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ ذہنی آلودگی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ذہنی آلودگی کا محرک وہ مختلف ذرائع ہیں جو بصارت کے ذریعے ذہن پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ جنسی، متشدد اور خوفناک مواد جو ویڈیو کلپس کی صورت میں یا مقبول اشتہارات کی شکل میں مواصلاتی اور بصارتی دنیا پر قابض ہو چکا ہے، وہ اصل میں ذہنی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔
جس طرح ہوا، پانی اور ماحول کی آلودگی کی وجہ سے انسانی زندگی خطرات سے دوچار ہے، بالکل اسی طرح ذرائع ابلاغ ذہنی آلودگی میں اضافہ کر کے انسانی یادداشت میں کمی اور سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو آلودگی کی اس قسم سے آگاہ کیا جائے تا کہ معاشرہ خود کو اس مہلک آلودگی سے بچانے کی کوشش کر سکے۔
اضطراب، دباؤ، پریشانی، خوفزدہ رہنا، حسد کرنا، سچ کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا، میل جول سے گریز، دھوکہ دینا، ہر وقت لا یعنی سوچوں میں گھرے رہنا، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، ہر وقت مستقبل کی بے یقینی اور موت سے خوفزدہ رہنا۔ مختصراً وہ تمام منفی سوچیں جو محض تخیلاتی ہوتی ہیں، وہ ذہنی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر ذہنی آلودگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے اور اس سے نجات کی کوشش نہ کی جائے تو انسان ان منفی سوچوں کے زیرِ اثر غیر قانونی اور نقصان دہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتا چلا جاتا ہے۔
ذہنی آلودگی کسی سوچ، تصویر، طنزیہ بات، بے عزتی یا یادداشت میں محفوظ کسی واقعے سے بھی ہو سکتی ہے۔ کسی نا پسندیدہ تعلق سے وابستہ ہونا بھی ذہنی آلودگی بڑھا سکتا ہے۔ مسلسل بھولنا بھی ذہنی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ ذہنی آلودگی کی ایک مثال تکبر بھی ہے، تکبر وہ رکاوٹ ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب ہونے سے روک دیتی ہے۔ ہر چیز کو قابلِ خرید اور اپنی دسترس میں سمجھنا بھی ذہن کو آلودہ کرتا ہے۔
یہ معاشرتی تنزلی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ لوگوں کو اپنی دولت کی نمائش کر کے احساسِ کمتری میں مبتلا کیا جائے ۔ ذہنی آلودگی کی ایک قسم خود کو اولیت دینا بھی ہے۔ جو لوگ کسی دوسرے کے نفع نقصان کی پروا کیے بغیر صرف اپنے فائدے کا سوچتے ہیں، وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہوتے۔
ٹیکنالوجی کی آسان دستیابی نے لوگوں کو چکا چوند والی ایک ایسی تخیلاتی دنیا کا باسی بنا دیا ہے، جہاں ہر چیز انہیں اپنی دسترس میں محسوس ہوتی ہے، اور ہر شخص نے ایسی ہی مصنوعی زندگی کے حصول کو
اپنا مقصد سمجھ لیا ہے۔ کوئی اس حقیقت کو نہیں سمجھنا چاہتا کہ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت، جسامت، شکل اور قسمت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ دنیا میں ہر ایک کا حصہ جدا جدا ہے۔ اپنی تقدیر پر راضی نہ
ہونے کے اس خطرناک رجحان کی وجہ سے معاشرے میں خود غرضی، حرص، ہوس، حسد جیسی بیماریاں عام ہو گئی ہیں۔ یہ تمام منفی سوچیں اور جذبے انسانی ذہن کو آلودہ کرتے ہیں۔ محنت سے کترانے اور بیٹھے بٹھائے تمام نعمتیں حاصل ہو جانے کی خواہش نے انسان کو عمل سے دور کر دیا ہے اور اس کے دماغ کو شیطان کا کارخانہ بنا دیا ہے۔
ترکی کی سلطان فاتح یونیورسٹی کی جانب سے2012 ء میں ایک تحقیق بعنوان '' ذہنی آلودگی کے یادداشت اور سیکھنے کے عمل پر اثرات'' کے موضوع پر کی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق 2005 ء میں زبان دانی کے انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت میں یہ حیران کن امر سامنے آیا کہ دنیا کی کل 6700 زبانوں میں سے2000 سے زائد زبانیں براعظم افریقہ میں بولی جاتی ہیں جہاں بظاہر تعلیمی معیار بہت پسماندہ ہے۔
اسی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق نائیجریا اپنی 140 ملین آبادی کے ساتھ 400 سے زائد زبانیں رکھتا ہے، کیمرون میں 280 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور کانگو میں 200 زبانیں یا زبانوں کے مختلف گروپ ہیں جو کم و بیش ملتے جلتے ہیں۔ مزید برآں افریقی لسانیات کے تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 75 سے 85 فیصد افریقی شہری کثیر اللسان ہیں اور بیک وقت 12 سے 15 پندرہ مختلف زبانیں مادری یا علاقائی زبانوں کی مد میں بولنے پر قادر ہیں۔
جب ہم اس حقیقت کو دیکھتے ہیں کہ افریقہ دنیا کا سب سے مفلوک الحال اور غیر ترقی یافتہ براعظم ہے تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ افریقی کس طرح اتنی زبانیں سیکھ اور بول سکتے ہیں جب کہ انہیں ملٹی میڈیا، وڈیوز، کتابیں، لغات وغیرہ کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں کوئی ایک غیر ملکی زبان سیکھنا ایک چیلنج اور برتری کی شکل رکھتا ہے، حالانکہ لوگوں کے پاس متعدد مواقع اور سہولیات مثلاً کمپیوٹر سافٹ وئیر، انٹرنیٹ ویب سائٹس، زبانوں کے کورس، لغات، اساتذہ سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ ان حالات میں دماغ میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر افریقی ممالک کے شہری، جنھیں اس صدی کے سائنسی اور صنعتی وسائل بھی دستیاب نہیں ہیں ، وہ کیسے سیکھنے میں ترقی یافتہ دنیا سے کہیں آگے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحول میں ذہنی آلودگی کی غیر موجودگی ایک افریقی شہری کو اوسطاً تیرہ سے پندرہ زبانیں سیکھنے اور بولنے کے قابل بناتی ہے۔ سماجی، ثقافتی، تہذیبی، لسانی اور نفسیاتی حقائق کے برعکس محققین کو یقین ہے کہ ذہنی آلودگی کا بڑا سبب وہ تمام ذرائع ابلاغ جو انسان کے دماغ کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہر ایک کے دماغ کے سائز، قسم اور معیار کے مطابق ذہنی آلودگی لوگوں میں مختلف جذبات جیسے مایوسی، خوف، غصہ اور بعض میں جنسی خواہشات کا باعث بنتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہر ایک ارادتاً یا غیر ارادی طور پر اس اس ذہنی آلودگی میں گھرا ہوا ہے جو مختلف ذرائع مثلاً فلموں، ڈراموں، اشتہارات، تصاویر، پوسٹرز، بل بورڈز، انٹرنیٹ ویب سائٹس اور وڈیو کلپس کی صورت میں پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ سب چیزیں انسانی ذہن کے ہارمونز کو متاثر کر کے جسم کے بائیو کیمیکل نظام کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
مثال کے طور پر پر کوئی شہوت انگیز وڈیو کلپ دیکھ کر دل کی دھڑکن میں فوری اضافہ اور خون کے دباؤ کا بڑھ جانا شخصی ارتکاز میں بہت زیادہ کمی کر دیتا ہے، وہ جذبہ اور توجہ جو کوئی نیا یا مشکل کام کرنے کے لئے ضروری ہے، ایسے لوگوں کے لیے جو باقاعدگی سے ہیجان انگیز مواد دیکھنے کے عادی ہوں، ان کے لیے توجہ کچھ نیا سیکھنے پر مرتکز کرنا بہت مشکل ہوتا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی یادداشت مضبوط رہتی ہے نہ ان کے جذبات متوازن رہتے ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد جو پر تشدد اور جنسی مواد پر مبنی فلمیں دیکھنے کے عادی ہوں ، ان میں ایسے افراد کی نسبت جو ڈاکیو منٹری فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
انٹرٹینمنٹ سافٹ وئیر ایسوسی ایشن کے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ معاشرے پر ذہنی آلودگی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے جب کہ تین سے ستّر سال تک کے لوگ روزانہ گھنٹوں کے حساب سے سکرین کے سامنے وقت گزارنے کے عادی ہیں ۔ ذہنی آلودگی کی یہ مقدار لوگوں کو خصوصاً بالغ افراد کو نئی مہارتوں کے سیکھنے سے دور کر رہی ہے، بطور خاص وہ مہارتیں، جہاں یادداشت بنیادی کردار ادا کرتی ہے جیسے کوئی نئی زبان سیکھنا، آلات موسیقی میں مہارت حاصل کرنا یا اپنی تعلیمی قابلیت میں مزید اضافہ کرنا وغیرہ۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جس زمانے میں جدید طریق تعلیم اور سائنسی و صنعتی ترقی عروج پر نہ تھی اور لوگوں کو ذرائع وسائل میسر نہیں تھے، بہت سے علماء ہفت زبان مشہور تھے۔ ان کی اکثریت بیس، بیس زبانوں کی ماہر ہوتی تھی اور وہ اپنے وقت کے بیشتر علوم میں بیک وقت مہارت کے حامل ہوا کرتے تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ماضی میں علماء اسی لیے بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے کیونکہ ان کے جذبے، صلاحیت اور رجحان کو کمزور کرنے والی ذہنی آلودگی نہیں تھی۔ ذہنی آلودگی کی اس آفت سے محفوظ ہونے کی وجہ سے ہی وہ متوازن اور مضبوط یادداشت مستحکم کرنے کے قابل ہوئے، جس نے انہیں نئے نئے علوم سیکھنے کی راہیں دکھائیں۔
ترکی کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے ذہنی آلودگی جیسی خطرناک اور مہلک آلودگی کی اس قسم سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے 110 مختلف عمروں، جنس اور شعبوں سے متعلق لوگوں سے ایک سروے کیا گیا۔ ان کی تعلیمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 18 سے 45 سال کے 48 مرد اور 62 خواتین کا انتخاب کیا گیا۔ مختلف تعلیمی قابلیت، عمر اور مختلف شعبہ جات سے مرد و خواتین کے انتخاب کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ ذہنی آلودگی کس سطح کے لوگوں پر کس کس انداز سے اثر ڈال رہی ہے؟
تمام لوگوں کا عمومی تجزیہ یہ رہا کہ وہ تمام لوگ خواہ وہ کسی بھی عمر، جنس یا شعبے سے وابستہ ہوں، جو بھی اپنا زیادہ وقت کام، تفریح یا کسی بھی مقصد کے تحت سکرین کے سامنے گزارتے ہیں، وہ کم یا زیادہ کسی نہ کسی سطح کی ذہنی آلودگی کا ضرور شکار ہوتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق لوگ جتنا زیادہ وقت مختلف میڈیا فورمز پر گزاریں گے، اتنا ہی ان کے ذہن آلودہ ہوں گے۔
یہ امر بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ صرف ذرائع ابلاغ ہی ذہنی آلودگی میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں، ہر وہ چیز، بات یا لوگ جن سے آپ کا ذہن الجھن کا شکار ہو، آپ کی توجہ مرتکز نہ رہ پائے، وہ سب آپ کی ذہنی صلاحیتوں کو کم کر کے اسے آلودہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ جہاں حسد، خود غرضی اور منافقت کا بازار گرم ہے، وہاں آپ کو ایسے ماحول اور لوگوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ تعریفی کلمات جیسے آپ کو خوشی دیتے ہیں، ویسے ہی بلاوجہ تنقید، منفی رویے اور طرزِ گفتگو آپ کی ذہنی کارکردگی میں کمی کا باعث بنتے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ خود کو ایسے لوگوں کی صحبت میں رکھیں جو مثبت طرز فکر کے حامل ہوں تا کہ آپ ذہنی آلودگی کے خطرے سے دور رہ سکیں۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ وسیع پیمانے پر ان تمام ممکنہ نقصان دہ اثرات کا جائزہ لیا جائے جو تعلیم اور معاشرتی زندگی کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ اور اس سے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے مناسب آگہی فراہم کی جائے کہ ٹیکنالوجی کا مقصد انسان کو سہولت پہنچانا ہے نہ کہ اس کی زندگی اور ذہن کو اپنے شکنجے میں کس لینا ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر ذہنی آلودگی کے مختلف اسباب کو قابو کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو نیا مواد سیکھنا بہت مشکل اور وقت آور چیز بن جائے گی اور یادداشت کھونے سے بچنا ممکن نہیں رہے گا۔
جدید ٹیکنالوجی اور اس سے متعلقہ آلات انسان کی سہولت اور وقت بچانے کی خاطر بنائے گئے ہیں، اگر آپ بلا ضرورت اور بے وجہ ان کے استعمال سے ایسی تفریح حاصل کرنے میں محو ہو گئے، جو آپ کا وقت
بھی ضائع کرے اور ذہنی صحت کو بھی متاثر کرے تو یہ آپ کے لیے اشارہ ہے کہ اپنا طرزِ زندگی بدل لیں۔ زندگی جتنی سادہ رکھیں گے، مسائل اور الجھنیں اتنی کم ہوں گی اور ذہنی صحت بہتر رہے گی۔ بھاگم بھاگ
اور تیز رفتار زندگی سے نہ تو آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی جیسی عظیم نعمت کی قدر کر کے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔
ذہنی آلودگی کا محرک وہ مختلف ذرائع ہیں جو بصارت کے ذریعے ذہن پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ جنسی، متشدد اور خوفناک مواد جو ویڈیو کلپس کی صورت میں یا مقبول اشتہارات کی شکل میں مواصلاتی اور بصارتی دنیا پر قابض ہو چکا ہے، وہ اصل میں ذہنی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔
جس طرح ہوا، پانی اور ماحول کی آلودگی کی وجہ سے انسانی زندگی خطرات سے دوچار ہے، بالکل اسی طرح ذرائع ابلاغ ذہنی آلودگی میں اضافہ کر کے انسانی یادداشت میں کمی اور سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو آلودگی کی اس قسم سے آگاہ کیا جائے تا کہ معاشرہ خود کو اس مہلک آلودگی سے بچانے کی کوشش کر سکے۔
اضطراب، دباؤ، پریشانی، خوفزدہ رہنا، حسد کرنا، سچ کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا، میل جول سے گریز، دھوکہ دینا، ہر وقت لا یعنی سوچوں میں گھرے رہنا، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، ہر وقت مستقبل کی بے یقینی اور موت سے خوفزدہ رہنا۔ مختصراً وہ تمام منفی سوچیں جو محض تخیلاتی ہوتی ہیں، وہ ذہنی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر ذہنی آلودگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے اور اس سے نجات کی کوشش نہ کی جائے تو انسان ان منفی سوچوں کے زیرِ اثر غیر قانونی اور نقصان دہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتا چلا جاتا ہے۔
ذہنی آلودگی کسی سوچ، تصویر، طنزیہ بات، بے عزتی یا یادداشت میں محفوظ کسی واقعے سے بھی ہو سکتی ہے۔ کسی نا پسندیدہ تعلق سے وابستہ ہونا بھی ذہنی آلودگی بڑھا سکتا ہے۔ مسلسل بھولنا بھی ذہنی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ ذہنی آلودگی کی ایک مثال تکبر بھی ہے، تکبر وہ رکاوٹ ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب ہونے سے روک دیتی ہے۔ ہر چیز کو قابلِ خرید اور اپنی دسترس میں سمجھنا بھی ذہن کو آلودہ کرتا ہے۔
یہ معاشرتی تنزلی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ لوگوں کو اپنی دولت کی نمائش کر کے احساسِ کمتری میں مبتلا کیا جائے ۔ ذہنی آلودگی کی ایک قسم خود کو اولیت دینا بھی ہے۔ جو لوگ کسی دوسرے کے نفع نقصان کی پروا کیے بغیر صرف اپنے فائدے کا سوچتے ہیں، وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہوتے۔
ٹیکنالوجی کی آسان دستیابی نے لوگوں کو چکا چوند والی ایک ایسی تخیلاتی دنیا کا باسی بنا دیا ہے، جہاں ہر چیز انہیں اپنی دسترس میں محسوس ہوتی ہے، اور ہر شخص نے ایسی ہی مصنوعی زندگی کے حصول کو
اپنا مقصد سمجھ لیا ہے۔ کوئی اس حقیقت کو نہیں سمجھنا چاہتا کہ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت، جسامت، شکل اور قسمت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ دنیا میں ہر ایک کا حصہ جدا جدا ہے۔ اپنی تقدیر پر راضی نہ
ہونے کے اس خطرناک رجحان کی وجہ سے معاشرے میں خود غرضی، حرص، ہوس، حسد جیسی بیماریاں عام ہو گئی ہیں۔ یہ تمام منفی سوچیں اور جذبے انسانی ذہن کو آلودہ کرتے ہیں۔ محنت سے کترانے اور بیٹھے بٹھائے تمام نعمتیں حاصل ہو جانے کی خواہش نے انسان کو عمل سے دور کر دیا ہے اور اس کے دماغ کو شیطان کا کارخانہ بنا دیا ہے۔
ترکی کی سلطان فاتح یونیورسٹی کی جانب سے2012 ء میں ایک تحقیق بعنوان '' ذہنی آلودگی کے یادداشت اور سیکھنے کے عمل پر اثرات'' کے موضوع پر کی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق 2005 ء میں زبان دانی کے انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت میں یہ حیران کن امر سامنے آیا کہ دنیا کی کل 6700 زبانوں میں سے2000 سے زائد زبانیں براعظم افریقہ میں بولی جاتی ہیں جہاں بظاہر تعلیمی معیار بہت پسماندہ ہے۔
اسی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق نائیجریا اپنی 140 ملین آبادی کے ساتھ 400 سے زائد زبانیں رکھتا ہے، کیمرون میں 280 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور کانگو میں 200 زبانیں یا زبانوں کے مختلف گروپ ہیں جو کم و بیش ملتے جلتے ہیں۔ مزید برآں افریقی لسانیات کے تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 75 سے 85 فیصد افریقی شہری کثیر اللسان ہیں اور بیک وقت 12 سے 15 پندرہ مختلف زبانیں مادری یا علاقائی زبانوں کی مد میں بولنے پر قادر ہیں۔
جب ہم اس حقیقت کو دیکھتے ہیں کہ افریقہ دنیا کا سب سے مفلوک الحال اور غیر ترقی یافتہ براعظم ہے تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ افریقی کس طرح اتنی زبانیں سیکھ اور بول سکتے ہیں جب کہ انہیں ملٹی میڈیا، وڈیوز، کتابیں، لغات وغیرہ کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں کوئی ایک غیر ملکی زبان سیکھنا ایک چیلنج اور برتری کی شکل رکھتا ہے، حالانکہ لوگوں کے پاس متعدد مواقع اور سہولیات مثلاً کمپیوٹر سافٹ وئیر، انٹرنیٹ ویب سائٹس، زبانوں کے کورس، لغات، اساتذہ سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ ان حالات میں دماغ میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آخر افریقی ممالک کے شہری، جنھیں اس صدی کے سائنسی اور صنعتی وسائل بھی دستیاب نہیں ہیں ، وہ کیسے سیکھنے میں ترقی یافتہ دنیا سے کہیں آگے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحول میں ذہنی آلودگی کی غیر موجودگی ایک افریقی شہری کو اوسطاً تیرہ سے پندرہ زبانیں سیکھنے اور بولنے کے قابل بناتی ہے۔ سماجی، ثقافتی، تہذیبی، لسانی اور نفسیاتی حقائق کے برعکس محققین کو یقین ہے کہ ذہنی آلودگی کا بڑا سبب وہ تمام ذرائع ابلاغ جو انسان کے دماغ کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہر ایک کے دماغ کے سائز، قسم اور معیار کے مطابق ذہنی آلودگی لوگوں میں مختلف جذبات جیسے مایوسی، خوف، غصہ اور بعض میں جنسی خواہشات کا باعث بنتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہر ایک ارادتاً یا غیر ارادی طور پر اس اس ذہنی آلودگی میں گھرا ہوا ہے جو مختلف ذرائع مثلاً فلموں، ڈراموں، اشتہارات، تصاویر، پوسٹرز، بل بورڈز، انٹرنیٹ ویب سائٹس اور وڈیو کلپس کی صورت میں پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ سب چیزیں انسانی ذہن کے ہارمونز کو متاثر کر کے جسم کے بائیو کیمیکل نظام کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
مثال کے طور پر پر کوئی شہوت انگیز وڈیو کلپ دیکھ کر دل کی دھڑکن میں فوری اضافہ اور خون کے دباؤ کا بڑھ جانا شخصی ارتکاز میں بہت زیادہ کمی کر دیتا ہے، وہ جذبہ اور توجہ جو کوئی نیا یا مشکل کام کرنے کے لئے ضروری ہے، ایسے لوگوں کے لیے جو باقاعدگی سے ہیجان انگیز مواد دیکھنے کے عادی ہوں، ان کے لیے توجہ کچھ نیا سیکھنے پر مرتکز کرنا بہت مشکل ہوتا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی یادداشت مضبوط رہتی ہے نہ ان کے جذبات متوازن رہتے ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد جو پر تشدد اور جنسی مواد پر مبنی فلمیں دیکھنے کے عادی ہوں ، ان میں ایسے افراد کی نسبت جو ڈاکیو منٹری فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
انٹرٹینمنٹ سافٹ وئیر ایسوسی ایشن کے ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ معاشرے پر ذہنی آلودگی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے جب کہ تین سے ستّر سال تک کے لوگ روزانہ گھنٹوں کے حساب سے سکرین کے سامنے وقت گزارنے کے عادی ہیں ۔ ذہنی آلودگی کی یہ مقدار لوگوں کو خصوصاً بالغ افراد کو نئی مہارتوں کے سیکھنے سے دور کر رہی ہے، بطور خاص وہ مہارتیں، جہاں یادداشت بنیادی کردار ادا کرتی ہے جیسے کوئی نئی زبان سیکھنا، آلات موسیقی میں مہارت حاصل کرنا یا اپنی تعلیمی قابلیت میں مزید اضافہ کرنا وغیرہ۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جس زمانے میں جدید طریق تعلیم اور سائنسی و صنعتی ترقی عروج پر نہ تھی اور لوگوں کو ذرائع وسائل میسر نہیں تھے، بہت سے علماء ہفت زبان مشہور تھے۔ ان کی اکثریت بیس، بیس زبانوں کی ماہر ہوتی تھی اور وہ اپنے وقت کے بیشتر علوم میں بیک وقت مہارت کے حامل ہوا کرتے تھے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ماضی میں علماء اسی لیے بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے کیونکہ ان کے جذبے، صلاحیت اور رجحان کو کمزور کرنے والی ذہنی آلودگی نہیں تھی۔ ذہنی آلودگی کی اس آفت سے محفوظ ہونے کی وجہ سے ہی وہ متوازن اور مضبوط یادداشت مستحکم کرنے کے قابل ہوئے، جس نے انہیں نئے نئے علوم سیکھنے کی راہیں دکھائیں۔
ترکی کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے ذہنی آلودگی جیسی خطرناک اور مہلک آلودگی کی اس قسم سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے 110 مختلف عمروں، جنس اور شعبوں سے متعلق لوگوں سے ایک سروے کیا گیا۔ ان کی تعلیمی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 18 سے 45 سال کے 48 مرد اور 62 خواتین کا انتخاب کیا گیا۔ مختلف تعلیمی قابلیت، عمر اور مختلف شعبہ جات سے مرد و خواتین کے انتخاب کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ ذہنی آلودگی کس سطح کے لوگوں پر کس کس انداز سے اثر ڈال رہی ہے؟
تمام لوگوں کا عمومی تجزیہ یہ رہا کہ وہ تمام لوگ خواہ وہ کسی بھی عمر، جنس یا شعبے سے وابستہ ہوں، جو بھی اپنا زیادہ وقت کام، تفریح یا کسی بھی مقصد کے تحت سکرین کے سامنے گزارتے ہیں، وہ کم یا زیادہ کسی نہ کسی سطح کی ذہنی آلودگی کا ضرور شکار ہوتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق لوگ جتنا زیادہ وقت مختلف میڈیا فورمز پر گزاریں گے، اتنا ہی ان کے ذہن آلودہ ہوں گے۔
یہ امر بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ صرف ذرائع ابلاغ ہی ذہنی آلودگی میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں، ہر وہ چیز، بات یا لوگ جن سے آپ کا ذہن الجھن کا شکار ہو، آپ کی توجہ مرتکز نہ رہ پائے، وہ سب آپ کی ذہنی صلاحیتوں کو کم کر کے اسے آلودہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ جہاں حسد، خود غرضی اور منافقت کا بازار گرم ہے، وہاں آپ کو ایسے ماحول اور لوگوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ تعریفی کلمات جیسے آپ کو خوشی دیتے ہیں، ویسے ہی بلاوجہ تنقید، منفی رویے اور طرزِ گفتگو آپ کی ذہنی کارکردگی میں کمی کا باعث بنتے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ خود کو ایسے لوگوں کی صحبت میں رکھیں جو مثبت طرز فکر کے حامل ہوں تا کہ آپ ذہنی آلودگی کے خطرے سے دور رہ سکیں۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ وسیع پیمانے پر ان تمام ممکنہ نقصان دہ اثرات کا جائزہ لیا جائے جو تعلیم اور معاشرتی زندگی کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ اور اس سے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے مناسب آگہی فراہم کی جائے کہ ٹیکنالوجی کا مقصد انسان کو سہولت پہنچانا ہے نہ کہ اس کی زندگی اور ذہن کو اپنے شکنجے میں کس لینا ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر ذہنی آلودگی کے مختلف اسباب کو قابو کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو نیا مواد سیکھنا بہت مشکل اور وقت آور چیز بن جائے گی اور یادداشت کھونے سے بچنا ممکن نہیں رہے گا۔
جدید ٹیکنالوجی اور اس سے متعلقہ آلات انسان کی سہولت اور وقت بچانے کی خاطر بنائے گئے ہیں، اگر آپ بلا ضرورت اور بے وجہ ان کے استعمال سے ایسی تفریح حاصل کرنے میں محو ہو گئے، جو آپ کا وقت
بھی ضائع کرے اور ذہنی صحت کو بھی متاثر کرے تو یہ آپ کے لیے اشارہ ہے کہ اپنا طرزِ زندگی بدل لیں۔ زندگی جتنی سادہ رکھیں گے، مسائل اور الجھنیں اتنی کم ہوں گی اور ذہنی صحت بہتر رہے گی۔ بھاگم بھاگ
اور تیز رفتار زندگی سے نہ تو آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی جیسی عظیم نعمت کی قدر کر کے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔