بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
اورخان الغازی
مصنف: قمراجنالوی، قیمت :900 روپے
ناشر: مکتبۃ القریش ، اردو بازار لاہور ، رابطہ نمبر: 042-37652546
یہ داستان شجاعت سلطنت عثمانیہ کے معمار اول کی ہے جو جذبہ جہاد سے بھرپور اور ایمان افروز ہے۔یہ ایک تاریخ بھی ہے اور ایک ناول بھی جو دوحصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ' تاریخ و حکایہ ' ہے جو عثمانی ترکوں کے خروج و عروج کی مختصر اور مرحلہ وار تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں آپ کو ایک ناول کی سی دلچسپی محسوس ہوگی۔ دوسرا حصہ باقاعدہ ایک ناول ہے۔
' تاریخ و حکایہ ' کے ضمن میں قیصروں کے شہر، قسطنطنیہ کا ایک تاریخی خاکہ اور اس شہر پر مسلمانوں کے عہد بہ عہد حملوں کی روداد بھی شامل کی گئی ہے۔اس سے جہاد قسطنطنیہ کا مطلب و مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ آغاز اسلام ہی سے یہ شہر اہل صلیب کا مرکز اور مسلمانوں کے خلاف مہمات کا سب سے بڑا معسکر رہا ہے لیکن اس کی قسمت میں دولت عثمانیہ کا پایہ تخت اور اسلامی دارالخلافت ہونا لکھا تھا، بعدازاں اس نے ' اسلام بول ' یا ' استنبول ' کے نئے نام سے شہرت دوام پائی۔
آج کل پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایک معاشروں میں ' ارطغرل غازی ' کے نام سے ٹی وی سیریل دکھائی جارہی ہے۔ اس تناظر میں زیرنظرتصنیف کا مطالعہ عجب لطف اور سرشاری عطا کرتا ہے، اس میں عثمانی ترکوں کی ابتدائی تاریخ، تہذیب ، معاشرت ، زبان اور اسلام سے ان کی گہری وابستگی کے بارے میں بیش بہا معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
قمر اجنالوی کا نام ان چند ایک تاریخی ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھیں یہاں نسل در نسل مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے ناولوں میں بے مثل سسپنس ہوتا ہے۔ پڑھتے ہوئے قاری سانس لینا بھول جاتا ہے اور پھر سانس میں سانس تب آتی ہے جب کہانی ختم ہوتی ہے ۔ خوبصورت ٹائٹل، مضبوط جلد، عمدہ طباعت... مکتبہ القریش نے قابل قدر خدمت سرانجام دی ہے۔
کنکریوں کی بارش( ناول)
مصنف : رفاقت جاوید، قیمت: 500 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز' ، اردو بازار لاہور ، رابطہ نمبر: 042-37652546
ارشاد باری تعالیٰ ہے :'' ہم نے حضرت لوط علیہ السلام کو ( اردن اور بیت المقدس کے درمیانی علاقہ سدوم میں ) بھیجا۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا، کیا تم بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے سارے جہاں میں کسی نے نہ کی۔ بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، بلکہ تم حد سے گزرجانے والے ہو۔''( الاعراف)۔
زیرنظر ناول اسی منفرد موضوع پر لکھا گیا ہے، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیات ربانی میں ہے۔ یہ ناول ایک ایسی کہانی ہے جو ہمارے معاشرے میں پرورش پانے والی ہزاروں، شاید لاکھوں کہانیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ گویا ہمارے معاشرے میں تیزی سے وہ ہلاکت خیز مرض پھیل رہا ہے جس نے قوم لوط کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اور پھر اس کے لوگوں پر پتھروںکی بارش ہوئی اوروہ ذلت اور بے بسی کی موت مرے۔
ہمارے معاشرے میں کمسن اور جوان بچوں کا جنسی رجحان اور نشہ آور منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی، آج کی نئی نسل ڈرگز میں ملوث ہونے کو فن کا نام دیتی ہے اور ہم جنس سے جنسی تعلقات رکھنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی۔ دراصل آج کے ہم جنس پرست لوگ قوم لوط کے انجام سے بے خبر ہیں۔ اس لئے مصنف نے ضرورت محسوس کی کہ اس کہانی کے ذریعے نئی نسل کو خبردار کریں اور انھیں بڑی تباہی وارد ہونے سے پہلے پیچھے ہٹ جانے پر قائل کریں۔ مصنف نے انتساب ان معصوم بچوں کے نام کیا ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ ایسی کہانیوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھانے اور پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کوئی ایک معصوم بچہ بھی بن کھلے نہ مرجھائے اور اس قوم کا شاندار مستقبل بنے۔
مائنڈ سائنس
مصنف: ڈاکٹر اختر احمد، قیمت:400 روپے
ناشر: مائنڈ ماسٹرز، لاہور، رابطہ 03335242146
آپ جو کچھ بھی سوچیں، وہ آپ کو حاصل ہوجائے، شاید آپ اس بات پر بھرپور خواہش کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے، اسے ایک خوبصورت خیال سمجھیں گے ، جو بس خیال ہی رہتا ہے، حقیقت کا روپ نہیں دھارتا۔ تاہم مائنڈ سائنس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ہوسکتاہے۔اسی مائنڈسائنس کے نتیجے میں ایک اخبار بیچنے والا کروڑپتی بن گیا، ایک خاتون کی دیرینہ دلی خواہش صرف تین دن میں پوری ہوئی، ایک بے روزگارخاتون کو چندگھنٹوں میں نوکری مل گئی، ایک عام شخص سو سے زائد انٹرنیشنل ہوٹلز کا مالک بن گیا، ایک محنت کش نے صوبہ بھر میں ٹاپ کیا، ایک بزنس مین دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، ایک غریب لڑکی کی بچپن کی خواہش حیران کن طور پر پوری ہوئی، ایک غریب اور لاچار بوڑھی خاتون کی مشکلات ختم ہوگئیں، ایک نوجوان کی محبوبہ سے شادی ہوگئی، حالانکہ اس سے پہلے راستے میں ہزار رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ ان سب نیکیسے سوچا اور پھر کیسے ہوا؟ یہ سب قصے زیرنظر کتاب میں موجود ہیں۔ یہ سب ناممکنات مائنڈسائنس کے سبب ممکنات میں بدل گئیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ مائنڈ سائنس ہے کیا ؟ جو محیرالعقول نتائج دیتی ہے۔ زیرنظرکتاب ہی اس کا نہایت مفصل جواب ہے۔ مصنف ڈاکٹراختر احمد ممتاز مائنڈ سائنس ایکسپرٹ اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مائنڈ سائنس حیران کن، طلسماتی اور معجزاتی علم ہے جو آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ ان کے مطابق ''اگر ہماری نئی نسل مائنڈ سائنس کا علم حاصل کرلے تو ہمارا ملک دو سے تین سال کے اندر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس علم کے ذریعے ہمارے طالب علم خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ، دنیا میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ ''
تاہم سب سے پہلے مائنڈ سائنس کے بارے میں جاننا لازم ہے، اس کے لئے زیرنظرکتاب نہایت مفید ثابت ہوگی، کیونکہ یہ انتہائی سادہ اور عام فہم انداز میں لکھی گئی ہے۔ امید ہے کہ نئی نسل اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور اپنے خوابوں کو تعبیر بخشے گی۔
چند ناقابل فراموش شخصیات
مصنف : منشی عبدالرحمٰن خان، قیمت : 800 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
منشی عبدالرحمٰن ( عبدالرحمن خان) 1931ء میں علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تحریک آزادی کے قافلہ میں شامل ہوئے۔ جنوری1954ء میں ' ملتان اکادمی' نام کا ادارہ قائم ہوا۔ منشی صاحب نے اس ادارہ کے بطور فعال رکن اور 1970ء تک معتمد کے فرائض انجام دیے۔1956ء میں آپ نے لگ بھگ چارہزار کتب پر مشتمل ایک کتب خانہ قائم کیا۔ اردو زبان کی حمایت میں ادبی تنظیموں ، کانفرنسوں اور تقریبات میں پیش پیش رہے اور ملکی ترقی ، وطن کی سالمیت اور اردو زبان کی ترویج کے لئے بھرپور خدمات انجام دیں۔ ایک سو سے زائد کتابوں کی تصنیف و تالیف کی۔ آپ کی بیشتر کتب علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی گئیں، حتیٰ کہ یورپی درسگاہوں میں استفادہ کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں میں ان کی کتب کے تراجم بھی ہوئے۔
زیرنظر کتاب میں منشی عبدالرحمن نے قائد اعظم محمد علی جناح ، مسٹر جسٹس ایس اے رحمٰن، علامہ شبیراحمد عثمانی ، مولانا محمد شفیع دیوبندی ، مولانا ظفرعلی خان، سید عطااللہ شاہ بخاری ، مفتی محمد حسن امرتسری، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، سردار عبدالرب نشتر ، جگر مراد آبادی، مختارمسعود ، ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ ، خان محمد اسد خان، مولانا عبدالرشید نسیم ، حمید نظامی ، خواجہ حسن نظامی، پیرزادہ کشفی الاسدی اور چوہدری عبدالرحمن جیسی ناقابل فراموش شخصیات کے خاکے پیش کیے ہیں جو ان سے ذاتی تعلقات ، مشاہدات اور تاثرات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن کی درخشاں اور تابناک عملی زندگی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لئے اس کا ہر گھر کی لائبریری میں ہونا ازحد ضروری ہے۔
بابا گرونانک
مصنف : پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی، قیمت : 999 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
بابا گرونانک کہتے تھے کہ خدا ایک ہی ہے۔ سکھ اسی خدا کو '' سچا نام '' کہتے ہیں۔ نانک جی نے یہ بھی تعلیم دی کہ '' سچا نام '' پوری کائنات کا خالق ہے اور یہ کہ بنی نوع انسان خدا کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خدائے واحد و حی و قیوم و رحیم کی یاد ہر وقت رکھو اور ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھو ۔ انھوں نے ' واہگرو' کا لفظ مسلمانوں اور ہندوئوں کی زبانوں سے حاصل کیا یعنی اس وقت کے مسلمانوں کی زبان فارسی سے ' واہ ' کا لفظ لیا اور ہندئووں کی سنسکرت زبان سے ' گرو' لیا۔ ' واہگرو' سے مراد ' اللہ تعالیٰ ' ہے۔ انھوں نے دونوں اقوام کو اپنا مخاطب بنایا۔
گرونانک نے ہندوئوں اور مسلمانوں ، دونوں کی رواج پرستی اور فضول رسومات کی مذمت کرتے ہوئے نہایت آسان اور سادہ تعلیمات بیان کیں۔ ان کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ امن پسندی تھی، اپنے پیروکاروں کو اسی نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ ان کی تعلیمات دیکھ کر بعض محققین کا خیال ہے کہ بابا گرونانک نے اسلام قبول کرلیا تھا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی تعلیمات پر اسلام کی چھاپ تھی، اور یہ کہ وہ ہندو ہی تھے البتہ انھوں نے ہندئووں میں اصلاحی تحریک چلائی جسے ' سکھ مت ' کا نام دیاگیا۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہی کتاب ہے جس میں بابا گرونانک کی حیات و تعلیمات کی تفصیل دی گئی ہے۔
'جنم ساکھیاں اور حیات گرونانک جی' ، ' پیدائش '، 'جوانی'، 'نانکی کی شادی اور سلطان پور کا سفر' ، 'شہرت کا آغاز ' ، ' بابا گرونانک کے اسفار'، ' تیسرا اور چوتھا سفر' ،' ہندو دھرم کے عقائد اور گرونانک جی'، 'عقائد اسلام اور گرونانک جی' ،' ارکان اسلام اور گرونانک جی'، 'تخلیقات بابا گرونانک'، 'منتخب کلام گرونانک' ،' جپ جی' ،' گرونانک جی کی قدیم تصاویر'۔
ان عنوانات سے کتاب کی اہمیت اور اس کی تفصیل کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فاضل مصنف نے سکھ مت کی تحریک کے بانی کے حالات ، کارنامے اور سکھ مت تحریک کے فلسفہ و عقائد کو بغیر رنگ آمیزی کے بلاکم و کاست بیان کیا ہے تاکہ کسی کی دل آزادی نہ ہو۔ اردوخواں طبقہ بابا گرو نانک کو سمجھنا چاہے تو اس سے بہتر کتاب شاید ہی ملے ۔
رعنائی تحریر
مصنف : تفاخر محمود گوندل، قیمت : درج نہیں
ناشر: قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ، رابطہ : 03000515101
زیرنظرکتاب مصنف کے ان کالموں کا مجموعہ ہے جو مختلف روزناموںمیں شائع ہوتے رہے۔انھیں مرتب کیا ہے پروفیسر ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے جو وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں استاد ہیں۔ تفاخر محمود محض کالم نویسی ہی نہیں کرتے بلکہ وہ ایک سیرت نگار اور ممتاز ادیب بھی ہیں۔ ان کی مختلف کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ ان کالم نگاروں میں سے نہیں ہیں جن کے کالموں میں لکھنے والے کے محض جذبات ہوتے ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔ دل درد مند رکھنے والے تفاخر محمود گوندل کی نثر خوبصورت اور پرشکوہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی مصنف کے اسلوب تحریر کے بارے میں لکھتے ہیں:
''انھوں نے اپنے صحافتی کالموں اور اخباری مضامین میں اس نثرنگاری اور طرز انشا کا احیا کیا ہے جو مولانا ظفرعلی خان سمیت ابوالکلام آزاد ، چراغ حسن حسرت ، شورش کاشمیری، تمنا عمادی، مولانا حسرت موہانی اور اس قبیل کے دیگر مشاہیر ورثے کے طور پر چھوڑ گئے تھے... مولانا ظفرعلی خان آج موجود ہوتے تو اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے کہ عطااللہ شاہ کا زور خطابت اور تقریر کا خوبصورت لحن اگلی نسلوں کو منتقل ہوگیا ہے۔''
مصنف کے اسلوب کا اندازہ ذیل کی چند سطور سے بخوبی ہوتا ہے جو ایک مضمون بعنوان ''کرتی ہے کیا تقاضا محبت حضورﷺ کی'' کا حصہ ہیں:
'' ایک مسلمان کو اگر بالیدگیء ذہن، دل کو دولت طمانیت ، آنکھوں کو بصارت ، خون کو حرارت، جسم کو توانائی، صلاحیتوں کو ارتقا ، جذبوں کو ارتفاع ، لبوں کو ثروتِ مسکراہٹ ، ہاتھوں کو طاقتِ لمس اور خیالات کو بلندی نصیب ہوسکتی ہے تو وہ یہی جذبے عشق رسولﷺ ہے۔''
اس کتاب میں شامل تمام کالم اور مضامین اسلام اور پاکستان کی محبت میں ڈوب کر لکھے گئے ہیں۔امید ہے کہ یہ کتاب اسلامیان پاکستان بالخصوص اردو ادب کے شائقین کے لئے گراں قدر اثاثہ ثابت ہوگی۔
ایک سوال ( ناول)
مصنفہ : امرتا پریتم ، قیمت : 400 روپے
ناشر... بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
زیرنظر ناول کے ہیرو جگدیپ کی کہانی اور امرتا پریتم کی کہانی ایک جیسی ہے۔ امرتا پریتم بتاتی ہیں:'' پورے گیارہ سال کی نہیں تھی جب ماں فوت ہوئی۔ ماں کی زندگی کا آخری دن چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ میری یاد میں محفوظ ہے۔ ' ایک سوال ' ناول میں ناول کا ہیرو جگدیپ مر رہی ماں کے بستر کے پاس جس طرح کھڑا ہے، اسی طرح میں اپنی مر رہی ماں کے بستر کے پاس کھڑی تھی اور میں نے جگدیپ کی مانند دل اور ذہن کی یکسوئی کے ساتھ خدا سے کہا تھا :
'' میری ماں کو نہ مارنا '' اور مجھے بھی اس کی طرح یقین ہوگیا تھا کہ اب میری ماں نہیں مرے گی کیونکہ خدا بچوں کا کہنا نہیں ٹالتا ، لیکن ماں مرگئی تھی اور میرا بھی جگدیپ کی طرح خدا پر سے اعتقاد اٹھ گیا تھا ۔
اور جس طرح جگدیپ اس ناول میں ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی اور ایک طاق پر رکھی ہوئی دو سوکھی روٹیوں کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہے، ان روٹیوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے کئی دن کھائوں گا ، اسی طرح میں نے ان سوکھی روٹیوں کو پیس کر ایک شیشی میں ڈال لیا تھا۔'' کیا کمال محبت ہے ماں سے اور ماں کی ممتا تو ہوتی ہی کمال پر ہے، اس کا نظارہ بھی دیکھیں گے آپ اس ناول میں ۔
اس ناول میں آپ کو رشتوں کے درمیان وہی پرانی ، اصلی ، خالص محبت نظر آئے گی ۔ آپ اس محبت کو پڑھیں گے تو سرشار ہو جائیں گے ۔ محبت تو ہوتی ہی خوبصورت ہے لیکن اس ناول میں محبت اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ جب ناول کا ہیرو اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی بھرپور جوان سوتیلی ماں کی اپنے ہاتھ سے اس کی من چاہی شادی کر لیتا اور پرُشباب لڑکی تھالی میں روٹی پروس کر کہتی '' آئو ماں بیٹا مل کر کھائیں ۔''
تو وہ روٹی کا پہلا لقمہ توڑتے ہوئے کہتا ہے:
'' پہلے یہ بتائو کہ تم میری ماں لگتی ہو یا بہن لگتی ہو یا میری بیٹی لگتی ہو؟
کیا عجب مکالمہ ہے، جو امرتا پریتم ہی کو سوجھ سکتا ہے۔ یہ ناول ایسے شاندار مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔
ہیرو جگدیپ رشتوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ ان سے محروم ہونا برداشت نہیں کر پاتا ۔ اس تناظر میں خدا سے بھی ناراض ہوتا ہے۔ ماں کے بعد ' ریکھا ' سے محروم ہوتا ہے تو وہ خدا سے مزید ناراض ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس پورے ناول میں رشتوں کے ساتھ بھرپور اخلاص نظر آئے گا، یہی اخلاص معاشرے کو خوبصورتی سے بھر دیتا ہے۔ آپ یہ خوبصورتی دیکھنا چاہیں، اس سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو ' ایک سوال ' پڑھنا نہ بھولیے گا۔ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)
مصنف: قمراجنالوی، قیمت :900 روپے
ناشر: مکتبۃ القریش ، اردو بازار لاہور ، رابطہ نمبر: 042-37652546
یہ داستان شجاعت سلطنت عثمانیہ کے معمار اول کی ہے جو جذبہ جہاد سے بھرپور اور ایمان افروز ہے۔یہ ایک تاریخ بھی ہے اور ایک ناول بھی جو دوحصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ' تاریخ و حکایہ ' ہے جو عثمانی ترکوں کے خروج و عروج کی مختصر اور مرحلہ وار تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ میں آپ کو ایک ناول کی سی دلچسپی محسوس ہوگی۔ دوسرا حصہ باقاعدہ ایک ناول ہے۔
' تاریخ و حکایہ ' کے ضمن میں قیصروں کے شہر، قسطنطنیہ کا ایک تاریخی خاکہ اور اس شہر پر مسلمانوں کے عہد بہ عہد حملوں کی روداد بھی شامل کی گئی ہے۔اس سے جہاد قسطنطنیہ کا مطلب و مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ آغاز اسلام ہی سے یہ شہر اہل صلیب کا مرکز اور مسلمانوں کے خلاف مہمات کا سب سے بڑا معسکر رہا ہے لیکن اس کی قسمت میں دولت عثمانیہ کا پایہ تخت اور اسلامی دارالخلافت ہونا لکھا تھا، بعدازاں اس نے ' اسلام بول ' یا ' استنبول ' کے نئے نام سے شہرت دوام پائی۔
آج کل پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایک معاشروں میں ' ارطغرل غازی ' کے نام سے ٹی وی سیریل دکھائی جارہی ہے۔ اس تناظر میں زیرنظرتصنیف کا مطالعہ عجب لطف اور سرشاری عطا کرتا ہے، اس میں عثمانی ترکوں کی ابتدائی تاریخ، تہذیب ، معاشرت ، زبان اور اسلام سے ان کی گہری وابستگی کے بارے میں بیش بہا معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
قمر اجنالوی کا نام ان چند ایک تاریخی ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھیں یہاں نسل در نسل مطالعہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے ناولوں میں بے مثل سسپنس ہوتا ہے۔ پڑھتے ہوئے قاری سانس لینا بھول جاتا ہے اور پھر سانس میں سانس تب آتی ہے جب کہانی ختم ہوتی ہے ۔ خوبصورت ٹائٹل، مضبوط جلد، عمدہ طباعت... مکتبہ القریش نے قابل قدر خدمت سرانجام دی ہے۔
کنکریوں کی بارش( ناول)
مصنف : رفاقت جاوید، قیمت: 500 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز' ، اردو بازار لاہور ، رابطہ نمبر: 042-37652546
ارشاد باری تعالیٰ ہے :'' ہم نے حضرت لوط علیہ السلام کو ( اردن اور بیت المقدس کے درمیانی علاقہ سدوم میں ) بھیجا۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا، کیا تم بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے سارے جہاں میں کسی نے نہ کی۔ بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، بلکہ تم حد سے گزرجانے والے ہو۔''( الاعراف)۔
زیرنظر ناول اسی منفرد موضوع پر لکھا گیا ہے، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیات ربانی میں ہے۔ یہ ناول ایک ایسی کہانی ہے جو ہمارے معاشرے میں پرورش پانے والی ہزاروں، شاید لاکھوں کہانیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ گویا ہمارے معاشرے میں تیزی سے وہ ہلاکت خیز مرض پھیل رہا ہے جس نے قوم لوط کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، اور پھر اس کے لوگوں پر پتھروںکی بارش ہوئی اوروہ ذلت اور بے بسی کی موت مرے۔
ہمارے معاشرے میں کمسن اور جوان بچوں کا جنسی رجحان اور نشہ آور منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی، آج کی نئی نسل ڈرگز میں ملوث ہونے کو فن کا نام دیتی ہے اور ہم جنس سے جنسی تعلقات رکھنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی۔ دراصل آج کے ہم جنس پرست لوگ قوم لوط کے انجام سے بے خبر ہیں۔ اس لئے مصنف نے ضرورت محسوس کی کہ اس کہانی کے ذریعے نئی نسل کو خبردار کریں اور انھیں بڑی تباہی وارد ہونے سے پہلے پیچھے ہٹ جانے پر قائل کریں۔ مصنف نے انتساب ان معصوم بچوں کے نام کیا ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ ایسی کہانیوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھانے اور پھیلانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کوئی ایک معصوم بچہ بھی بن کھلے نہ مرجھائے اور اس قوم کا شاندار مستقبل بنے۔
مائنڈ سائنس
مصنف: ڈاکٹر اختر احمد، قیمت:400 روپے
ناشر: مائنڈ ماسٹرز، لاہور، رابطہ 03335242146
آپ جو کچھ بھی سوچیں، وہ آپ کو حاصل ہوجائے، شاید آپ اس بات پر بھرپور خواہش کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے، اسے ایک خوبصورت خیال سمجھیں گے ، جو بس خیال ہی رہتا ہے، حقیقت کا روپ نہیں دھارتا۔ تاہم مائنڈ سائنس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ہوسکتاہے۔اسی مائنڈسائنس کے نتیجے میں ایک اخبار بیچنے والا کروڑپتی بن گیا، ایک خاتون کی دیرینہ دلی خواہش صرف تین دن میں پوری ہوئی، ایک بے روزگارخاتون کو چندگھنٹوں میں نوکری مل گئی، ایک عام شخص سو سے زائد انٹرنیشنل ہوٹلز کا مالک بن گیا، ایک محنت کش نے صوبہ بھر میں ٹاپ کیا، ایک بزنس مین دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، ایک غریب لڑکی کی بچپن کی خواہش حیران کن طور پر پوری ہوئی، ایک غریب اور لاچار بوڑھی خاتون کی مشکلات ختم ہوگئیں، ایک نوجوان کی محبوبہ سے شادی ہوگئی، حالانکہ اس سے پہلے راستے میں ہزار رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ ان سب نیکیسے سوچا اور پھر کیسے ہوا؟ یہ سب قصے زیرنظر کتاب میں موجود ہیں۔ یہ سب ناممکنات مائنڈسائنس کے سبب ممکنات میں بدل گئیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ مائنڈ سائنس ہے کیا ؟ جو محیرالعقول نتائج دیتی ہے۔ زیرنظرکتاب ہی اس کا نہایت مفصل جواب ہے۔ مصنف ڈاکٹراختر احمد ممتاز مائنڈ سائنس ایکسپرٹ اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مائنڈ سائنس حیران کن، طلسماتی اور معجزاتی علم ہے جو آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ ان کے مطابق ''اگر ہماری نئی نسل مائنڈ سائنس کا علم حاصل کرلے تو ہمارا ملک دو سے تین سال کے اندر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس علم کے ذریعے ہمارے طالب علم خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ، دنیا میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ ''
تاہم سب سے پہلے مائنڈ سائنس کے بارے میں جاننا لازم ہے، اس کے لئے زیرنظرکتاب نہایت مفید ثابت ہوگی، کیونکہ یہ انتہائی سادہ اور عام فہم انداز میں لکھی گئی ہے۔ امید ہے کہ نئی نسل اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور اپنے خوابوں کو تعبیر بخشے گی۔
چند ناقابل فراموش شخصیات
مصنف : منشی عبدالرحمٰن خان، قیمت : 800 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
منشی عبدالرحمٰن ( عبدالرحمن خان) 1931ء میں علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تحریک آزادی کے قافلہ میں شامل ہوئے۔ جنوری1954ء میں ' ملتان اکادمی' نام کا ادارہ قائم ہوا۔ منشی صاحب نے اس ادارہ کے بطور فعال رکن اور 1970ء تک معتمد کے فرائض انجام دیے۔1956ء میں آپ نے لگ بھگ چارہزار کتب پر مشتمل ایک کتب خانہ قائم کیا۔ اردو زبان کی حمایت میں ادبی تنظیموں ، کانفرنسوں اور تقریبات میں پیش پیش رہے اور ملکی ترقی ، وطن کی سالمیت اور اردو زبان کی ترویج کے لئے بھرپور خدمات انجام دیں۔ ایک سو سے زائد کتابوں کی تصنیف و تالیف کی۔ آپ کی بیشتر کتب علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی گئیں، حتیٰ کہ یورپی درسگاہوں میں استفادہ کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں میں ان کی کتب کے تراجم بھی ہوئے۔
زیرنظر کتاب میں منشی عبدالرحمن نے قائد اعظم محمد علی جناح ، مسٹر جسٹس ایس اے رحمٰن، علامہ شبیراحمد عثمانی ، مولانا محمد شفیع دیوبندی ، مولانا ظفرعلی خان، سید عطااللہ شاہ بخاری ، مفتی محمد حسن امرتسری، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، سردار عبدالرب نشتر ، جگر مراد آبادی، مختارمسعود ، ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ ، خان محمد اسد خان، مولانا عبدالرشید نسیم ، حمید نظامی ، خواجہ حسن نظامی، پیرزادہ کشفی الاسدی اور چوہدری عبدالرحمن جیسی ناقابل فراموش شخصیات کے خاکے پیش کیے ہیں جو ان سے ذاتی تعلقات ، مشاہدات اور تاثرات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن کی درخشاں اور تابناک عملی زندگی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لئے اس کا ہر گھر کی لائبریری میں ہونا ازحد ضروری ہے۔
بابا گرونانک
مصنف : پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی، قیمت : 999 روپے
ناشر: بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
بابا گرونانک کہتے تھے کہ خدا ایک ہی ہے۔ سکھ اسی خدا کو '' سچا نام '' کہتے ہیں۔ نانک جی نے یہ بھی تعلیم دی کہ '' سچا نام '' پوری کائنات کا خالق ہے اور یہ کہ بنی نوع انسان خدا کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خدائے واحد و حی و قیوم و رحیم کی یاد ہر وقت رکھو اور ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھو ۔ انھوں نے ' واہگرو' کا لفظ مسلمانوں اور ہندوئوں کی زبانوں سے حاصل کیا یعنی اس وقت کے مسلمانوں کی زبان فارسی سے ' واہ ' کا لفظ لیا اور ہندئووں کی سنسکرت زبان سے ' گرو' لیا۔ ' واہگرو' سے مراد ' اللہ تعالیٰ ' ہے۔ انھوں نے دونوں اقوام کو اپنا مخاطب بنایا۔
گرونانک نے ہندوئوں اور مسلمانوں ، دونوں کی رواج پرستی اور فضول رسومات کی مذمت کرتے ہوئے نہایت آسان اور سادہ تعلیمات بیان کیں۔ ان کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ امن پسندی تھی، اپنے پیروکاروں کو اسی نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ ان کی تعلیمات دیکھ کر بعض محققین کا خیال ہے کہ بابا گرونانک نے اسلام قبول کرلیا تھا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی تعلیمات پر اسلام کی چھاپ تھی، اور یہ کہ وہ ہندو ہی تھے البتہ انھوں نے ہندئووں میں اصلاحی تحریک چلائی جسے ' سکھ مت ' کا نام دیاگیا۔ حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہی کتاب ہے جس میں بابا گرونانک کی حیات و تعلیمات کی تفصیل دی گئی ہے۔
'جنم ساکھیاں اور حیات گرونانک جی' ، ' پیدائش '، 'جوانی'، 'نانکی کی شادی اور سلطان پور کا سفر' ، 'شہرت کا آغاز ' ، ' بابا گرونانک کے اسفار'، ' تیسرا اور چوتھا سفر' ،' ہندو دھرم کے عقائد اور گرونانک جی'، 'عقائد اسلام اور گرونانک جی' ،' ارکان اسلام اور گرونانک جی'، 'تخلیقات بابا گرونانک'، 'منتخب کلام گرونانک' ،' جپ جی' ،' گرونانک جی کی قدیم تصاویر'۔
ان عنوانات سے کتاب کی اہمیت اور اس کی تفصیل کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فاضل مصنف نے سکھ مت کی تحریک کے بانی کے حالات ، کارنامے اور سکھ مت تحریک کے فلسفہ و عقائد کو بغیر رنگ آمیزی کے بلاکم و کاست بیان کیا ہے تاکہ کسی کی دل آزادی نہ ہو۔ اردوخواں طبقہ بابا گرو نانک کو سمجھنا چاہے تو اس سے بہتر کتاب شاید ہی ملے ۔
رعنائی تحریر
مصنف : تفاخر محمود گوندل، قیمت : درج نہیں
ناشر: قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ، رابطہ : 03000515101
زیرنظرکتاب مصنف کے ان کالموں کا مجموعہ ہے جو مختلف روزناموںمیں شائع ہوتے رہے۔انھیں مرتب کیا ہے پروفیسر ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے جو وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں استاد ہیں۔ تفاخر محمود محض کالم نویسی ہی نہیں کرتے بلکہ وہ ایک سیرت نگار اور ممتاز ادیب بھی ہیں۔ ان کی مختلف کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ ان کالم نگاروں میں سے نہیں ہیں جن کے کالموں میں لکھنے والے کے محض جذبات ہوتے ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔ دل درد مند رکھنے والے تفاخر محمود گوندل کی نثر خوبصورت اور پرشکوہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی مصنف کے اسلوب تحریر کے بارے میں لکھتے ہیں:
''انھوں نے اپنے صحافتی کالموں اور اخباری مضامین میں اس نثرنگاری اور طرز انشا کا احیا کیا ہے جو مولانا ظفرعلی خان سمیت ابوالکلام آزاد ، چراغ حسن حسرت ، شورش کاشمیری، تمنا عمادی، مولانا حسرت موہانی اور اس قبیل کے دیگر مشاہیر ورثے کے طور پر چھوڑ گئے تھے... مولانا ظفرعلی خان آج موجود ہوتے تو اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے کہ عطااللہ شاہ کا زور خطابت اور تقریر کا خوبصورت لحن اگلی نسلوں کو منتقل ہوگیا ہے۔''
مصنف کے اسلوب کا اندازہ ذیل کی چند سطور سے بخوبی ہوتا ہے جو ایک مضمون بعنوان ''کرتی ہے کیا تقاضا محبت حضورﷺ کی'' کا حصہ ہیں:
'' ایک مسلمان کو اگر بالیدگیء ذہن، دل کو دولت طمانیت ، آنکھوں کو بصارت ، خون کو حرارت، جسم کو توانائی، صلاحیتوں کو ارتقا ، جذبوں کو ارتفاع ، لبوں کو ثروتِ مسکراہٹ ، ہاتھوں کو طاقتِ لمس اور خیالات کو بلندی نصیب ہوسکتی ہے تو وہ یہی جذبے عشق رسولﷺ ہے۔''
اس کتاب میں شامل تمام کالم اور مضامین اسلام اور پاکستان کی محبت میں ڈوب کر لکھے گئے ہیں۔امید ہے کہ یہ کتاب اسلامیان پاکستان بالخصوص اردو ادب کے شائقین کے لئے گراں قدر اثاثہ ثابت ہوگی۔
ایک سوال ( ناول)
مصنفہ : امرتا پریتم ، قیمت : 400 روپے
ناشر... بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
زیرنظر ناول کے ہیرو جگدیپ کی کہانی اور امرتا پریتم کی کہانی ایک جیسی ہے۔ امرتا پریتم بتاتی ہیں:'' پورے گیارہ سال کی نہیں تھی جب ماں فوت ہوئی۔ ماں کی زندگی کا آخری دن چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ میری یاد میں محفوظ ہے۔ ' ایک سوال ' ناول میں ناول کا ہیرو جگدیپ مر رہی ماں کے بستر کے پاس جس طرح کھڑا ہے، اسی طرح میں اپنی مر رہی ماں کے بستر کے پاس کھڑی تھی اور میں نے جگدیپ کی مانند دل اور ذہن کی یکسوئی کے ساتھ خدا سے کہا تھا :
'' میری ماں کو نہ مارنا '' اور مجھے بھی اس کی طرح یقین ہوگیا تھا کہ اب میری ماں نہیں مرے گی کیونکہ خدا بچوں کا کہنا نہیں ٹالتا ، لیکن ماں مرگئی تھی اور میرا بھی جگدیپ کی طرح خدا پر سے اعتقاد اٹھ گیا تھا ۔
اور جس طرح جگدیپ اس ناول میں ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی اور ایک طاق پر رکھی ہوئی دو سوکھی روٹیوں کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہے، ان روٹیوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے کئی دن کھائوں گا ، اسی طرح میں نے ان سوکھی روٹیوں کو پیس کر ایک شیشی میں ڈال لیا تھا۔'' کیا کمال محبت ہے ماں سے اور ماں کی ممتا تو ہوتی ہی کمال پر ہے، اس کا نظارہ بھی دیکھیں گے آپ اس ناول میں ۔
اس ناول میں آپ کو رشتوں کے درمیان وہی پرانی ، اصلی ، خالص محبت نظر آئے گی ۔ آپ اس محبت کو پڑھیں گے تو سرشار ہو جائیں گے ۔ محبت تو ہوتی ہی خوبصورت ہے لیکن اس ناول میں محبت اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ جب ناول کا ہیرو اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی بھرپور جوان سوتیلی ماں کی اپنے ہاتھ سے اس کی من چاہی شادی کر لیتا اور پرُشباب لڑکی تھالی میں روٹی پروس کر کہتی '' آئو ماں بیٹا مل کر کھائیں ۔''
تو وہ روٹی کا پہلا لقمہ توڑتے ہوئے کہتا ہے:
'' پہلے یہ بتائو کہ تم میری ماں لگتی ہو یا بہن لگتی ہو یا میری بیٹی لگتی ہو؟
کیا عجب مکالمہ ہے، جو امرتا پریتم ہی کو سوجھ سکتا ہے۔ یہ ناول ایسے شاندار مکالموں سے بھرا پڑا ہے۔
ہیرو جگدیپ رشتوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ ان سے محروم ہونا برداشت نہیں کر پاتا ۔ اس تناظر میں خدا سے بھی ناراض ہوتا ہے۔ ماں کے بعد ' ریکھا ' سے محروم ہوتا ہے تو وہ خدا سے مزید ناراض ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس پورے ناول میں رشتوں کے ساتھ بھرپور اخلاص نظر آئے گا، یہی اخلاص معاشرے کو خوبصورتی سے بھر دیتا ہے۔ آپ یہ خوبصورتی دیکھنا چاہیں، اس سے لطف اندوز ہونا چاہیں تو ' ایک سوال ' پڑھنا نہ بھولیے گا۔ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)