بلدیاتی اداروں کی بحالی

کراچی کو اس کا گمشدہ ماضی لوٹایا جائے، ماہرین بلدیات اور عدلیہ کے ریمارکس پر توجہ دی جائے لیکن درد مشترک ایک ہے۔

کراچی کو اس کا گمشدہ ماضی لوٹایا جائے، ماہرین بلدیات اور عدلیہ کے ریمارکس پر توجہ دی جائے لیکن درد مشترک ایک ہے۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے بلدیاتی ایکٹ کے سیکشن 3کو آئین سے متصادم قرار دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا چاہتے ہیں ، تاہم معاملہ ابھی مشترکہ مفادات کونسل میں زیر التوا ہے۔

بنیادی جمہوریت کے تصور اور اس کی عملی قدروقیمت کے حوالہ سے ملک میں مقامی حکومت کی ناگزیریت اور جمہوری مقصدیت پر چیف جسٹس پاکستان نے جو ریمارکس دیے وہ چشم کشا ہیں ، چیف جسٹس نے پوچھا ''کیا باقی صوبوں میں بلدیاتی انتخاب ہورہے ہیں؟'' اٹارنی جنرل نے جواباً کہا '' باقی صوبوں کو مردم شماری پر اعتراضات ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 24 مارچ کو ہونا تھا تاہم وزیراعظم کو کورونا کی وجہ سے اب 7 اپریل کو ہوگا'' چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا بیان ریکارڈ کرلیتے ہیں، صوبے مئی میں بلدیاتی انتخابات کرا دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ صرف وفاق نہیں صوبوں کا بھی معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ پنجاب کی مقامی حکومتوں کوکیوں ختم کیا گیا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا پنجاب کی بلدیاتی حکومتوں کی مدت ابھی ختم ہوگئی ہوگی؟ درخواست گزار وکیل نے بتایا کہ پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کی میعاد دسمبر 2021 تک تھی۔

انتخابات کے بعد پنجاب اور وفاق میں نئی جماعت کی حکومت آئی جس نے بلدیاتی حکومتیں تحلیل کرکے ایک سال میں الیکشن کرانے کا وقت دیا ، ایک سال گزرنے کے بعد پنجاب حکومت نے نئی ترمیم کی اور پھر آرڈیننس جاری کیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کیا باقی صوبوں میں بلدیاتی حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی؟ چیف جسٹس نے کہا عدالت کے سامنے پنجاب 2019 کا بلدیاتی قانون چیلنج کیا گیا ہے۔کیا درخواست گزار چاہتا ہے قانون کے سیکشن3 کوکالعدم کر دیں؟چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ آپ اس بات کی کیسے وضاحت دے سکتے ہیں کہ عوام کو منتخب نمایندوں سے دور رکھا جائے۔

آرٹیکل 140کے تحت قانون بنا سکتے ہیں لیکن ادارے کو ختم نہیں کرسکتے، آپ کوکسی نے غلط مشورہ دیا ہے۔ حکومت کی ایک حیثیت ہوتی ہے چاہے وہ وفاقی ہو صوبائی یا بلدیاتی۔ اختیار میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ عوام نے بلدیاتی نمایندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا۔ ایک نوٹیفیکشن کا سہارا لے کر انھیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔


حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاست میں بلدیاتی اداروں کی آئینی اور قانونی حیثیت کوکسی بھی جمہوری حکومت نے وہ مقام ومرتبہ نہیں دیا جو مقامی حکومت میں عوامی مسائل کے حل میں بلدیاتی اداروں کو حاصل ہونا چاہیے، سیاست عمودی اور افقی طور پر شکست وریخت ، سیاسی جوڑ توڑ اور ادارہ جاتی انحطاط کا شکار رہی ہے، اس نے ریاست ، حکومت اور جمہوریت کے اساسی تصورات کو نقصان پہنچایا ہے، سیاست کوکرپشن سے پاک کرنے کی کوشش اور جمہوری سسٹم میں نقب زنی ، جعلسازی اور شفافیت کے فقدان نے ملک کو سسٹم کے ایک غیر معمولی بحران سے دوچارکیا ، جس سے جمہوریت پر عوام کا اعتبار مجروح ہوا اور ملک نے بھی سیاسی نظام میں بتدریج اضمحلال کا شدید نقصان اٹھایا۔

گزشتہ بہتر سال جمہوری بے سرو سامانی اور سراب میں گزرے ، جمہوریت بار بار پٹڑی سے اتاری گئی، ملک آمریت و جمہوریت کی کشمکش کے باعث بلدیاتی اداروں کی بے توقیری بڑھتی گئی، بنیادی ادارے مذاق بن گئے، وفاقی ، صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے مابین جو خوبصورت ،آئینی، قانونی اور سیاسی میکنزم کا تسلسل قائم رہنا چاہیے تھا ، دراصل اسی باہمی چپقلش ، قانونی موشگافیوں کی وجہ سے سیاست میں نئے خون کی آمد رک گئی ، سیاسی جوہر قابل کو راستہ نہ ملا، وہ تسلسل برقرار نہ رہ سکا جو جمہوریت میں سیاسی کیڈرکے ارتقا کے لیے ضروری تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قوم کے سامنے جو جمہوری اہداف رکھے گئے، اس میں سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ ایک مثالی سسٹم کی بنیاد رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے، ملک سیاسی، جمہوری خلاء اور بے سمتی کے شدید نقصانات اٹھاتا رہا ، یہی کمی آج گراس روٹ لیول پر سیاسی رہنماؤں اور عدلیہ کو توجہ دلا رہی ہے۔

گزشتہ روزایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبو ل صدیقی نے کہا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ صوبے بنائے جائیں سب سے زیادہ ضروری سندھ شہری صوبہ ہے، حکومت فوری نئی مردم شماری کرائے جو پوری قوم کے لیے قابل قبول ہو، اتوارکو ایم کیو ایم پاکستان کے37 ویں یوم تاسیس کے موقع پر نشتر پارک میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مردم شماری شفاف ہو مردم شماری کی بنیاد پر ایسی ووٹر لسٹ بنائی جائے جس کو سب تسلیم کریں نئی، مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں، ملک کی ترقی جمہوریت کے راستے پر چل کر ہی ممکن ہے۔

جلسہ سے سینئر رہنما عامر خان، رابطہ کمیٹی کی رکن کشور زہرا ، کنور نوید جمیل ، سینیٹر فیصل سبزواری ، رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن ڈاکٹر ظفرکمالی اور رابطہ کمیٹی کے رکن عبدالحسیب نے بھی خطاب کیا، سابق مئیر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ تمام سازشوں کو ناکام بناکر ہمارے ارکان اسمبلی نے سینٹرز منتخب کرائے چار سال میئر شپ کے انتہائی دشوار رہے۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان کے استحکام کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد ایم کیوایم نے کی ہے۔ اس وقت ضرورت اسی قومی یکجہتی کو آگے بڑھانے کی ہے۔

کراچی کے بلدیاتی مسائل پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، ملک کا سب سے بڑا شہر مسائلستان بنا ہوا ہے۔ کراچی کے شہری مسائل پر پورا ملک حالت اضطراب میں ہے ، جو شہر ایشیا کا خوبصورت ترین میگا پولٹن تھا ، عالمی میڈیا کے مطابق دنیا کا مہنگا ترین شہر بن چکا ہے، شہریوں کو پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کے بے پناہ مصائب درپیش ہیں، اربن پالیسی برائے نام ہے، کنکریٹ کے جنگل میں کراچی کی تاریخی شناخت بھی کھو گئی ہے، اگر صرف ٹرانسپورٹ اور بلدیاتی مسائل کے حوالہ سے اس میٹروپولیٹن سٹی کے ماضی کی جستجو کی جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ شہر سے بے اعتنائی، سنگدلی اور نااہلی کی کتنی دردناک تاریخ رقم کی گئی، پبلک ٹرانسپورٹ جدید تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ، ایسا لگتا ہے کہ کچرا ، بے ہنگم شور اور لوگوں کا جم غفیر ، جرائم اور لاقانونیت ہی شہرکی شناخت ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کو اس کا گمشدہ ماضی لوٹایا جائے، ماہرین بلدیات اور عدلیہ کے ریمارکس پر توجہ دی جائے لیکن درد مشترک ایک ہے ،کراچی کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ بندہ پرور شہرآج بھی سب کی محبت ، توجہ اور تبدیلی کا منتظر ہے۔
Load Next Story