جمہوریت آسان نہیں دوسرا اور آخری حصہ
نوجوان نسل پاکستان کے مستقبل کی امین ہے اور ان میں جمہوری و سیاسی اقدار سے وابستگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔
ہمارے جیسے متنوع اور منقسم سماج کے لیے مخصوص نشستیں تمام طبقات کو یکساں نمایندگی فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ لیکن اس میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے اصلاحات کی بہت گنجائش ہے اور اسی طرح اقلیتوں کی نمایندگی کو بھی موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں ان کے مفادات کے تحفظات کے لیے مخصوص نشستوں کا نظام مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ رنگ و نسل اور ذات برادری کی وابستگی انتخابی عمل پر اثر انداز ہوتی رہے گی لیکن اگر زیادہ ووٹ لینے کے بجائے اکثریتی ووٹ لینے والوں کو کام یاب قرار دینے کا اصول اختیار کرلیا جائے تو رفتہ رفتہ یہ قباحتیں بھی دور ہوجائیں گی۔
بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ایسی پالیسیاں اختیار کرتی ہے جس سے قومیت اور صوبائیت کو بڑھاوا ملتا ہے۔ اس کے تعمیر و ترقی کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں پایا جانے والا فرق بھی علاقائیت اور صوبائیت کے جذبات کو ہوا دیتا ہے۔ اس تقسیم کو ایک قومی پالیسی ہی دور کر سکتی ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں پائی جانے والی تمام ثقافتوں کو یکساں احترام اور مواقعے دینے پہلا قدم ہوگا۔
الیکشن ایکٹ 2017کی بنیاد پر الیکشن کمیشن ایک خود مختار، مستقل اور آئینی وفاقی ادارہ ہے جو قومی و صوبائی اسمبلیوں، مقامی حکومتوں اور صدارتی انتخاب کروانے کا ذمے دار ہے۔ حلقہ بندیاں اور ووٹرز کی فہرست تیار کرنا بھی اس کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اس میں تمام صوبوں کے نمایندے شامل ہوتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر ان کا سربراہ ہوتا ہے۔
میرے خیال میں الیکشن کمیشن پر وزیر اعظم کی حالیہ تنقید جزوی طور پر درست ہے۔ انتخابات کو آئین کے مطابق خفیہ رائے شماری سے کروانے کے ساتھ ساتھ ان کی شفافیت اور امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پرکھ بھی اس فرائض میں شامل ہے۔ اگر موجودہ ضوابط کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہوپارہا تو الیکشن کمیشن کو قوانین میں تبدیلی کے لیے قومی اسمبلی سے رابطہ کرنا چاہیے۔ انتخابی اخراجات کے حوالے سے موجودہ قانون میں سقم پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ فنڈنگ کی بھی اجازت دے دی گئی ہے جو اس سے قبل ممنوع تھی۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ خود کو اسلامی ریاست کہلانے والے ملک میں عوامی نمایندوں کا صادق و امین ہونا ضروری ہے۔ 2018 کے تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ایک ایف کے تحت ہونے والی نااہلی عمر بھر کے لیے ہوگی۔ بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کا حق ہے ان کی قیادت اچھے کردار کی حامل ہو۔ صادق و امین کے اصول کا اطلاق کیا جائے تو بہت سے سیاستدان سینیٹ اور اسمبلیوں کے لیے امیدوار نہیں بننے چاہیے۔ آرٹیکل 62کو پارلیمان کی رکنیت سمیت تمام عوامی عہدوں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپنی چند برس قبل دی گئی تجاویز ایک بار پھر دہراتا ہوں۔ 1) سینیٹ سمیت تمام انتخابات براہ راست ووٹنگ کے ذریعے ہونے چاہییں۔2) ہر امیدوار کے لیے کمیونٹی کی سطح پر کام یاب ہونا ضروری ہو۔ 3) تاہم ایک امیدوار کو ایک سے زائد جگہ سے انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ 4) امیدوار رجسٹرڈ ٹیکس دہندہ ہو اور مقامی ٹیکس ادائیگی کا کم از کم تین برس کا ٹیکس ریکارڈ پیش کرے، ساتھ ہی اس کے اور اس کے اہل خانہ کے ظاہر کردہ اثاثے اس کے معلوم ذرایع آمدن سے مطابقت رکھتے ہوں۔ کام یاب امیدوار کم از کم50فی صد ووٹ حاصل کرے بصورت دیگر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں میں دوبارہ مقابلہ کروایا جائے۔ 6) قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مقامی حکومتوں کے الیکشن کے بعد منعقد کیے جائیں۔
7) اسمبلیوں کی مدت 4سال کی جائے۔ 8) موجود نشستوں کے علاوہ 25فیصد نشستیں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر دی جائیں اور اسی طرح 25فی صد نشستیں پارٹی کی نمایندگی کے تناسب سے خواتین کو دی جائیں۔ 9) صدر کا انتخاب براہ راست کیا جائے اور صرف اسی جماعت کے امیدوار الیکشن لڑنے کے اہل ہوں جنھوں نے قومی انتخابات میں کم از کم 10فی صد پاپولر ووٹ حاصل کیے ہوں، گورنروں کا انتخاب بھی اسی طرز پر کیا جائے۔ 10)انتخاب میں حصہ لینے والوں کی جانچ پرکھ اور احتساب کو لازمی قرار دیا جائے اور اس کے لیے مفصل طریقہ کار وضع کیا جائے۔
گزشتہ دہائیوں میں ہونے والے انتخابات نے عوام میں اس نظام کا وقار کم کیا ہے۔ عام آدمی اب اسے حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار کا کھیل سمجھتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ انتخابی قوانین میں بہتری اور ناقص قوانین کی تبدیلی اور خاتمے کی اشد ضرورت ہے۔
نوجوان نسل پاکستان کے مستقبل کی امین ہے اور ان میں جمہوری و سیاسی اقدار سے وابستگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ نوجوانوں میں ایک فعال شہری بننے کے لیے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قومی نصاب میں چھٹی جماعت سے ملک کے سیاسی نظام، انتخابی قوانین اور عوامی نمایندگی کے حوالے سے تفصیلات اور آگاہی فراہم کی جائے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
موجودہ حالات میں ان کے مفادات کے تحفظات کے لیے مخصوص نشستوں کا نظام مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ رنگ و نسل اور ذات برادری کی وابستگی انتخابی عمل پر اثر انداز ہوتی رہے گی لیکن اگر زیادہ ووٹ لینے کے بجائے اکثریتی ووٹ لینے والوں کو کام یاب قرار دینے کا اصول اختیار کرلیا جائے تو رفتہ رفتہ یہ قباحتیں بھی دور ہوجائیں گی۔
بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ایسی پالیسیاں اختیار کرتی ہے جس سے قومیت اور صوبائیت کو بڑھاوا ملتا ہے۔ اس کے تعمیر و ترقی کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں پایا جانے والا فرق بھی علاقائیت اور صوبائیت کے جذبات کو ہوا دیتا ہے۔ اس تقسیم کو ایک قومی پالیسی ہی دور کر سکتی ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں پائی جانے والی تمام ثقافتوں کو یکساں احترام اور مواقعے دینے پہلا قدم ہوگا۔
الیکشن ایکٹ 2017کی بنیاد پر الیکشن کمیشن ایک خود مختار، مستقل اور آئینی وفاقی ادارہ ہے جو قومی و صوبائی اسمبلیوں، مقامی حکومتوں اور صدارتی انتخاب کروانے کا ذمے دار ہے۔ حلقہ بندیاں اور ووٹرز کی فہرست تیار کرنا بھی اس کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اس میں تمام صوبوں کے نمایندے شامل ہوتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر ان کا سربراہ ہوتا ہے۔
میرے خیال میں الیکشن کمیشن پر وزیر اعظم کی حالیہ تنقید جزوی طور پر درست ہے۔ انتخابات کو آئین کے مطابق خفیہ رائے شماری سے کروانے کے ساتھ ساتھ ان کی شفافیت اور امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پرکھ بھی اس فرائض میں شامل ہے۔ اگر موجودہ ضوابط کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہوپارہا تو الیکشن کمیشن کو قوانین میں تبدیلی کے لیے قومی اسمبلی سے رابطہ کرنا چاہیے۔ انتخابی اخراجات کے حوالے سے موجودہ قانون میں سقم پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ فنڈنگ کی بھی اجازت دے دی گئی ہے جو اس سے قبل ممنوع تھی۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ خود کو اسلامی ریاست کہلانے والے ملک میں عوامی نمایندوں کا صادق و امین ہونا ضروری ہے۔ 2018 کے تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ایک ایف کے تحت ہونے والی نااہلی عمر بھر کے لیے ہوگی۔ بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کا حق ہے ان کی قیادت اچھے کردار کی حامل ہو۔ صادق و امین کے اصول کا اطلاق کیا جائے تو بہت سے سیاستدان سینیٹ اور اسمبلیوں کے لیے امیدوار نہیں بننے چاہیے۔ آرٹیکل 62کو پارلیمان کی رکنیت سمیت تمام عوامی عہدوں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپنی چند برس قبل دی گئی تجاویز ایک بار پھر دہراتا ہوں۔ 1) سینیٹ سمیت تمام انتخابات براہ راست ووٹنگ کے ذریعے ہونے چاہییں۔2) ہر امیدوار کے لیے کمیونٹی کی سطح پر کام یاب ہونا ضروری ہو۔ 3) تاہم ایک امیدوار کو ایک سے زائد جگہ سے انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ 4) امیدوار رجسٹرڈ ٹیکس دہندہ ہو اور مقامی ٹیکس ادائیگی کا کم از کم تین برس کا ٹیکس ریکارڈ پیش کرے، ساتھ ہی اس کے اور اس کے اہل خانہ کے ظاہر کردہ اثاثے اس کے معلوم ذرایع آمدن سے مطابقت رکھتے ہوں۔ کام یاب امیدوار کم از کم50فی صد ووٹ حاصل کرے بصورت دیگر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں میں دوبارہ مقابلہ کروایا جائے۔ 6) قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مقامی حکومتوں کے الیکشن کے بعد منعقد کیے جائیں۔
7) اسمبلیوں کی مدت 4سال کی جائے۔ 8) موجود نشستوں کے علاوہ 25فیصد نشستیں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر دی جائیں اور اسی طرح 25فی صد نشستیں پارٹی کی نمایندگی کے تناسب سے خواتین کو دی جائیں۔ 9) صدر کا انتخاب براہ راست کیا جائے اور صرف اسی جماعت کے امیدوار الیکشن لڑنے کے اہل ہوں جنھوں نے قومی انتخابات میں کم از کم 10فی صد پاپولر ووٹ حاصل کیے ہوں، گورنروں کا انتخاب بھی اسی طرز پر کیا جائے۔ 10)انتخاب میں حصہ لینے والوں کی جانچ پرکھ اور احتساب کو لازمی قرار دیا جائے اور اس کے لیے مفصل طریقہ کار وضع کیا جائے۔
گزشتہ دہائیوں میں ہونے والے انتخابات نے عوام میں اس نظام کا وقار کم کیا ہے۔ عام آدمی اب اسے حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار کا کھیل سمجھتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ انتخابی قوانین میں بہتری اور ناقص قوانین کی تبدیلی اور خاتمے کی اشد ضرورت ہے۔
نوجوان نسل پاکستان کے مستقبل کی امین ہے اور ان میں جمہوری و سیاسی اقدار سے وابستگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ نوجوانوں میں ایک فعال شہری بننے کے لیے بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قومی نصاب میں چھٹی جماعت سے ملک کے سیاسی نظام، انتخابی قوانین اور عوامی نمایندگی کے حوالے سے تفصیلات اور آگاہی فراہم کی جائے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)