رونمائی یا پذیرائی آرٹس کونسل کراچی میں
ادیبوں اور شاعروں کو یہ اطمینان ہوتا جا رہا ہے کہ یہاں کی تقریبات 5 ستاروں والے ہوٹلوں سے بھی بہتر ہوں گی۔۔۔
آرٹس کونسل کے انتخابات کے بعد 5 جنوری کی سہ پہر ایک پروگرام آرٹس کونسل کراچی کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا پروگرام کا عنوان ''کہانیوں بھری شام تھا'' یہ کہانیاں شکاگو، امریکا سے آئی ہوئی قلمکار شاہدہ حسین کی تحریر کردہ تھیں جن کا عنوان تھا کہ ''یہ کہانیاں جھوٹ نہیں ہو سکتیں'' آرٹس کونسل میں پہلے بھی کتابوں کی رونمائی ہوتی تھی مگر گزشتہ چند برسوں میں جب سے اردو کانفرنس کی وجہ سے شائقین اردو کی تمنا بڑھتی جا رہی ہے کہ تقریب کا اہتمام اسی عوامی ادب گاہ کی چہار دیواری میں منعقد کیا جائے تو بہتر ہو گا اس موقعے پر مجازؔ لکھنوی کا یہ مصرع یاد آ رہا ہے کہ:
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ادیبوں اور شاعروں کو یہ اطمینان ہوتا جا رہا ہے کہ یہاں کی تقریبات 5 ستاروں والے ہوٹلوں سے بھی بہتر ہوں گی کیونکہ یہاں کی تقریبات کا ایسا منفرد انداز ہے کہ پروگرام شہر کی آواز خصوصاً اردو ادب کا ترجمان بن جاتی ہے۔ ابتدا میں جو کتابوں کی رونمائی ہوتی تھی تو اس میں مقررین کتابوں کا پوسٹ مارٹم کرتے تھے بجائے اس کے کہ نئے لکھنے والوں کا تصنیفات پر جامع تبصرہ ہو جو قلم کار کو حوصلہ دے جب کہ بعض اوقات اس کو پریشان کر دیا جاتا تھا اور کتاب کا مجموعی تاثر سامعین پر اور خود مصنف پر گراں گزرتا تھا مگر اب یہ دیکھا گیا ہے کہ مقررین اور ناقدین اگر کوئی بڑا سقم نظر نہ آئے اور مجموعی طور پر کتاب کا تاثر اچھا سبق آموز ہو تو ان کی گفتگو قلم کار کو حوصلہ بخشتی ہیں لہٰذا رونمائی کی جگہ پذیرائی نے لے لی اور اب تقریب پذیرائی ہی کی اصطلاح حلقہ ادب میں گھر کر چکی ہے جو لوگ پاکستان سے دور ہیں ان کو اپنی سرزمین سے دوری کا دکھ ہزار خوشیوں کے باوجود ستاتا ہے۔
پاکستان میں جب ریل کا سفر آسان تھا ٹرینیں وقت پر چلتی تھیں تو بڑے ہوتے ہوتے ان لوگوں نے زمینی سفر کیے اور اپنے دیس کی مٹی کا رنگ بغور دیکھا ہے کہیں ریگ صحرا کہیں نخلستان کا منظر تو کہیں بلند کوہسار جھیلیں اپنے دیس کی مٹی کی مہک پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں بھولے، اپنے کھیت کھلیان اپنی معاشرت کی اچھائی اور ان میں کچھ ایسے کردار جن میں بہتری کے خواہاں اہل دل جو برداشت نہ کر پائے تو اصلاح کے لیے قلم چلانے پر مجبور ہوئے۔ ایسی ہی ایک مصنفہ شاہدہ حسین قاضی بھی ہیں جو شکاگو میں رہ کر بھی اپنی یادوں کو فراموش نہ کر سکیں اس کے علاوہ غیر ممالک میں رہ کر بعض خواتین میں جو اخلاقی پستی آ گئی ہے ان پر بھی ان کا قلم نشتر چلاتا ہے پاکستان کے بعض پسماندہ علاقوں میں کیا ہو رہا ہے، ان کی کتاب میں ایسی ایسی معاشرتی اور گھریلو برائیوں کا پردہ اٹھایا گیا ہے جس کا عام کہانیوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ کتاب دراصل ایک خاندانی گائیڈ کا کام کرتی ہے جو بزرگوں اور خوردوں کی غلطیوں کا پوری طرح احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایسے واقعات جو رونگھٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔ یہ پروگرام تقریباً 4 گھنٹے جاری رہا ۔ مقررین میں جو حضرات اپنی آراء پیش کرنے آئے تھے ان میں جواں سال ادیب و صحافی محمد بخش نے کہا کہ شاہدہ حسین بلاشبہ امریکا میں مقیم ہیں لیکن ان کی تحریریں پاکستانی معاشرے میں پنپتی برائیوں اور مسائل کی بہترین عکاسی کرتی ہیں جن پر عموماً گفتگو کرنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے لیکن نگاہیں چرانے سے حقیقت بدل نہیں جاتی اسی طرح اچھوتی ہی سہی لیکن ''یہ کہانیاں جھوٹ نہیں ہو سکتیں۔'' آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی کے رکن اقبال لطیف نے اپنی تقریر میں مصنفہ کی تحریر کا ڈرامائی پہلو سے جائزہ لیا کیونکہ موصوف ماضی میں ایک بلند پایہ ڈرامہ پروڈیوسر رہے ہیں۔ انھوں نے جس انداز میں کہانیوں کا تجزیہ کیا اس نے شاہدہ حسین قاضی میں ناول اور ڈرامائی طور پر ان کہانیوں کی شکل دینے کی خواہش پیدا کر دی۔
رئیس علوی جو اردو زبان کے علاوہ جاپانی ادب کے ایک اسکالر ہیں انھوں نے شاہدہ حسین کی کہانیوں کا کافی طویل تجزیہ کیا۔ انھوں نے انھیں اردو ادب کے مشہور افسانہ نگار پریم چند کے اندازِ تحریر سے مشابہہ کہا۔ انھوں نے فرمایا کہ شاہدہ کے قلم میں ایک جادو ہے جو مسلسل قائم ہے اتنے دور رہ کر پاکستان کی دیہی علاقوں کی جو ترجمانی کی ہے اور جو معاشرتی پستی کی عکاسی کی ہے اس کا اس انداز سے تذکرہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کی تحریر میں پاکستانیت موجود ہے اور بقول پروفیسر رئیس علوی کے یہ کہانیاں نہیں بلکہ کہا نہیں ہیں۔ پروفیسر رئیس علوی نے مزید کہا کہ شاہدہ حسین نے کہانیوں میں جو کردار پیش کیے ہیں وہ حرص اور حسرت کے زندانوں کے قیدی ہیں وہ معاشرہ اور ان کے اخلاقی تقاضوں سے اس طرح اغماض اور انحراف کرتے ہیں کہ:
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے
ہمارے یہاں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو عمل ظاہر نہ ہو گویا وہ ہوا ہی نہیں۔ پروفیسر رئیس علوی کے خیال میں شاہدہ مروجہ افسانہ نگاری سے ہٹ کر کوچہ معاشرت کے ان پتھروں کو ہٹا کر نیچے جمی ہوئی گزشتہ برساتوں کی جمی ہوئی کائی اور کثافتوں کو دیکھتی اور دکھاتی ہیں جن پر اکثر لوگ پاؤں رکھ کر گزر جاتے ہیں۔
مہمان خصوصی سید مصباح الحق نے چند جملے ادا کیے جن میں مصنفہ کی تحریر کو دلچسپ اور ایک عمدہ کاوش قرار دیا گیا۔ صدر محفل پروفیسر سحر انصاری نے کتاب کی بعض کہانیوں کو ڈائجسٹوں کی کہانیوں کے طرز پر قرار دیا اور مقررین کی آراء اور کتاب کے فنی پہلوؤں اور کہانیوں کی جہتوں کا جائزہ لیا۔ اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں شاہدہ حسین قاضی نے اپنے کنبے کے تمام لوگوں کو متعارف کرایا اور اپنے بیٹے اور بیٹی سے بحیثیت ماں کے کھلے دل سے چند منٹ تبصرے کے لیے بلایا اس کے بعد اپنے خاوند ڈاکٹر حسین قاضی جو امریکا میں ڈاکٹر ہیں ان سے بھی تقریر کروائی جنھوں نے شاہدہ کے گھریلو کام کاج اور ذمے داریوں کا جائزہ لیا اور اپنے اور اپنی بیتی کے روز مرہ کی ذمے داریوں اور ایک دوسرے کی سپورٹ کے عمل کو سامعین کو بتایا کہ اگر ایک دوسرے کی معاونت نہ کی جائے تو گھر کو مکمل طور پر دیکھا نہ جا سکے گا اور خاص طور سے غیر ملک میں رہ کر اپنی تہذیبی، ثقافتی اور اس کے علاوہ بحیثیت پاکستانی اپنی شناخت بنانا آسان نہ ہو گا گویا کتاب کی پذیرائی جس کو ہم کلی طور پر پذیرائی نہیں کہہ سکتے کیونکہ نقد و نظر کے پھول بھی کبھی کبھی مقررین کے کلمات میں نظر آتے رہے۔
دوران گفتگو ایک وقفہ مصنفہ کی تقریر کے لیے بھی منتخب تھا۔ انھوں نے ایک کہانی جو آیندہ کسی وقت شایع ہو گی خود پڑھی جو طویل تھی۔ جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ جب لوگ اپنا اپنا ملک چھوڑ کر دیار غیر میں جاتے ہیں تو ہندی ہوں یا پاکستانی وہ ایک کمیونٹی کی طرح بن جاتے ہیں کیونکہ اردو زبان دونوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے اس طرح پاکستان سے باہر رہنے والے آپس میں ایک قریبی رابطہ رکھتے ہیں خاص طور پر شکاگو جیسا علاقہ جہاں پر پاکستانی اور ہندوستانی نسل کے لوگ خاصی تعداد میں آباد ہیں اور ایشیائی خاص طور سے اپنے رسم و رواج اور زبان کے بندھن سے جڑے ہوئے ہیں مگر اپنے دیس کی مٹی کی مہک اتنی دور سے ان لوگوں کو محسوس ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ کس طرح اپنی زبان تہذیب اور ثقافت کو زندہ رکھیں جب انھیں اپنے وطن کی یاد آتی ہے تو آنسو بھر آتے ہیں کچھ لمحے کے لیے وہ اپنے آسودہ رہنے کی وجوہات کو بھول جاتے ہیں دہری شہریت تو پیٹ بھرنے کے لیے اور بہتر مواقع کے لیے حاصل کر لیتے ہیں مگر حب الوطنی ان کو بار بار کھینچ لاتی ہے گو کہ کراچی آمد خصوصاً ہزار خطرات کا خوف پیچھا کرتا ہے مگر زبان اور ملک ان کو کھینچ لاتا ہے اور زبان کی پیاس بجھانے کے لیے اردو کی ترویج میں سرگرداں رہتے ہیں اور کچھ لمحہ آرٹس کونسل کی فضا میں آ کر دل کا بوجھ کم کرتے ہیں۔ غیر ملکوں میں مقیم یہ شاعر یہ ادیب درحقیقت ہمارے سفیر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان قلم کاروں کی ہمت افزائی کرے اور پذیرائی کے مقام کو مزید سربلند کرے۔
پروگرام نظم و ضبط کے اعتبار سے ایک نمونہ تھا اور خصوصیت کے ساتھ پروگرام آرگنائزر یاسمین ریاض نے نہ کوئی تقریر کی اور نہ خود نمائی۔ ساری توجہ پروگرام کی زینت پر دیتی رہیں۔