کیا سائنسدانوں نے کائنات کی ’’پانچویں قوت‘‘ دریافت کرلی ہے

ایک نئے بنیادی ذرّے کے بارے میں ’سرن‘ سے ملنے والی شہادتیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی جارہی ہیں

لارج ہیڈرون کولائیڈر بیوٹی میں پروٹونی بوچھاڑوں کے تصادم سے بننے والے بیوٹی کوارکس کے انحطاط میں معمول سے ہٹ کر کچھ مشاہدات ہوئے ہیں۔ (فوٹو: سرن)

ذرّاتی طبیعیات کے سب سے بڑے بین الاقوامی مرکز 'سرن' میں تقریباً 900 سائنسدانوں کی عالمی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہیں 'شاید' ایک ایسے نئے بنیادی ذرّے کے شواہد ملے ہیں جو 'ممکنہ طور پر' کسی 'پانچویں قوت' کا نمائندہ بھی ہوسکتا ہے۔

یہ شواہد انہیں سرن میں نصب 'لارج ہیڈرون کولائیڈر بیوٹی' (LHCb) نامی ذرّاتی اسراع گر (پارٹیکل ایکسلریٹر) میں 2011 سے 2018 کے دوران کئی تجربات سے جمع ہونے والے ڈیٹا کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد حاصل ہوئے۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ 'لیپٹوکوارک' (Leptoquark) نامی اس ذرّے کے حق میں ملنے والی شہادتیں ابھی اتنی مضبوط نہیں کہ انہیں پورے اعتماد سے اس نئے بنیادی ذرّے کی 'دریافت' قرار دیا جاسکے۔

لیپٹوکوارک کی تازہ شہادتیں اگرچہ اتنی مضبوط ہیں کہ ان کے غلط ہونے کا امکان صرف 0.1 فیصد (1000 میں سے 1 جتنا) ہے، لیکن طبیعیات (فزکس) میں نئی شہادتوں/ ثبوتوں کو 'دریافت' (discovery) قرار دینے کےلیے ان کے غلط ہونے کا امکان 35 لاکھ میں صرف ایک، یعنی 0.00002857142 فیصد، یا اس سے بھی کم ہونا چاہیے۔

بتاتے چلیں کہ اب تک ہم کائنات میں چار بنیادی قوتوں سے واقف ہیں جنہیں ہم نے بالترتیب قوتِ ثقل (گریویٹی)، برقناطیسی قوت (الیکٹرو میگنیٹک فورس)، کمزور نیوکلیائی قوت (وِیک نیوکلیئر فورس) اور مضبوط نیوکلیائی قوت (اسٹرونگ نیوکلیئر فورس) کے نام دے رکھے ہیں۔

قوتِ ثقل کو چھوڑ کر، باقی کی تینوں کائناتی قوتوں آپس میں یکجا کرنے کےلیے ''اسٹینڈرڈ ماڈل'' کے نام سے ایک نظری (تھیوریٹیکل) فریم ورک تقریباً 50 سال سے موجود ہے جو ان گنت تجربات و مشاہدات سے تصدیق کے بعد ذرّاتی طبیعیات میں ایک مستند نظریئے کا مقام بھی حاصل کرچکا ہے۔

البتہ، سائنسدانوں کی اکثریت متفق ہے کہ اسٹینڈرڈ ماڈل صرف ایک ''کام چلاؤ'' نظریہ ہے جس میں بنیادی نوعیت کی بہت سی خامیاں ہیں جنہیں دور کرکے اس نظریئے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔


لیپٹوکوارک کی حالیہ شہادتوں کا تعلق ''بیوٹی کوارک'' نامی ایک بنیادی ذرّے سے ہے جو نہایت اعلی توانائی (ہائی انرجی) کے ماحول میں وجود پذیر ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے تقریباً 700 ارب ویں حصے میں ٹوٹ پھوٹ کر، یعنی انحطاط پذیر (decay) ہو کر الیکٹرون، میوآن اور ان کے ضد ذرّات (اینٹی پارٹیکلز) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اسٹینڈرڈ ماڈل کے مطابق، بیوٹی کوارک کے انحطاط سے تقریباً یکساں تعداد میں الیکٹرون اور میوآن بننے چاہئیں۔ یہی وہ بات ہے جسے ماہرین 'لیپٹون آفاقیت' (Lepton Universality) کہتے ہیں۔

تاہم 'ایل ایچ سی بی' میں زبردست توانائی پر 'پروٹون بوچھاڑوں' میں تصادم سے بننے والے بیوٹی کوارکس کے انحطاط سے الیکٹرونوں کی تعداد، میوآنز سے زیادہ دیکھی گئی۔

یہ شواہد پہلی بار 2014 میں سامنے آئے تھے لیکن تب اسٹینڈرڈ ماڈل سے مطابقت نہ رکھنے والی ان شہادتوں کے غلط ہونے کا امکان ایک فیصد (1%) تھا۔

تازہ شہادتیں، جنہیں گزشتہ دنوں ''آرکائیو ڈاٹ آرگ'' کی ویب سائٹ پر رپورٹ کرنے کے بعد ریسرچ جرنل ''نیچر'' میں اشاعت کےلیے بھیج دیا گیا ہے، پہلے کے مقابلے میں دس گنا زیادہ مضبوط ہیں؛ لیکن ان کی حتمی تصدیق کےلیے ''ایک آنچ کی کسر'' ابھی باقی ہے، جسے پورا ہونے میں شاید مزید کچھ سال لگ جائیں۔

'ایل ایچ سی بی' میں مزید تجربات کی تیاریاں جاری ہیں جو اس سال شروع ہو کر مزید کچھ سال تک وقفے وقفے سے جاری رہیں گے۔ نئے تجربات میں بطورِ خاص 'لیپٹوکوارک' کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے حتمی امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔

البتہ، فی الحال ہم موجودہ شہادتوں کو امید افزا ضرور کہہ سکتے ہیں لیکن 'دریافت' قرار نہیں دے سکتے۔

ماہرین کے نزدیک، بیوٹی کوارک کے انحطاط سے نسبتاً زیادہ تعداد میں الیکٹرون بننے کی وجہ 'لیپٹوکوارک' نامی ایک بنیادی ذرہ ہے جس کی پیش گوئی تو بہت پہلے سے موجود ہے لیکن اب تک ہم اسے دریافت نہیں کر پائے ہیں۔
Load Next Story